“مدینے” کی ریاست میں بچیوں کے ریپ

یوم پاکستان کا سورج طلوع ہونے سے قبل‘ نئے پاکستان میں اک اورننھی’ زینبـ‘ سےـ جنسی درندگی کے بعد‘جینے کا حق بھی چھین لیا گیا۔ ننھی زینب سے زیادتی اوربہیمانہ قتل کی خبر شہر اقتدار میں اکتیس توپوں کی سلامی‘ پھر جنگی جہازوں کی گھن گرج میں کہیں کھو گئی۔ زینب کی ماں کے بین بھی قصرِ وزیراعظم کی بلند و بالادیواروں سے ٹکرا کر دم توڑ گئے۔

صحافتی تنظیم کرائم اینڈ کورٹ رپورٹرزایسوسی ایشن (کرار)کے صدر ساجد شیخ کے مطابق بائیس مارچ دوہزار اکیس بروز سوموار‘راولپنڈی تھانہ سول لائن کے علاقے جھنڈا چیچی میں نو سالہ زینب شام چھ بجے کے قریب گھر کے باہر دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے لاپتا ہو گئی۔والدین اور اہل محلہ نے تلاش شروع کی تو بچی کی جوتیاں ہمسایہ کے گھر سے ملیں جس کے بعد پولیس کا اطلاع دی گئی۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کر بچی کی لاش ملزم کے بیڈ کے نیچے سے برآمد کی۔پولیس نے 28 سالہ مبینہ ملزم بابر مسیح کو گرفتار کرکے تھانے منتقل کردیا۔مشتعل اہل علاقہ نے تھانہ سول لائن پر دھاوا بول دیا ۔ مجرم حوالگی کا مطالبہ کیا تاکہ اسے جھنڈا چیچی چوک پر سرعام لٹکایا جا سکے۔ تھانے کو مظاہرین پر قابو پانے کے لیے اضافی نفری طلب کرنا پڑی۔ حالات پر قابو پانے کے لیے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی چودھری عدنان نے لواحقین کے ساتھ اظہار تعزیت کیا۔مشتعل اہل علاقہ کو یقین دہانی کروائی کہ ملزمان کو جلد کیفر کردار تک پہنچایا جائیگا۔

بچی کے لواحقین نے چاروں ملزمان کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ۔ پولیس حکام نے بچی کے ورثا کو مکمل انصاف کی یقین دہانی کروائی۔ کلیجہ پھاڑ دینے والے واقعہ کی ایف آئی آر‘ تھانہ سول لائن راولپنڈی میں بائیس مارچ کی رات نو بج کر بیس منٹ پردرج کی گئی۔ ایف آئی آر کے مطابق سانحہ پیش آنے والی گلی‘تھانے سے محض ایک کلو میٹر دوری پر واقع ہے۔ ایف آئی آر کا متن یوں ہے:

’’بیان ازاں محمد عمران ولد یعقوب مسیح قوم رانجھا ساکن نزد صدیق کریانہ سٹور گلی نمبر دس جھنڈا چیچی راولپنڈی شناختی کارڈ نمبر3740561887315 فون نمبر03115017500 بیان کیا کہ میں پتا بالا کا سکونت ہوں اور راولپنڈی ضلع کچہری میں گاڑیاں دھونے کا کام کرتا ہوں۔ شادی شدہ ہوں چار بچے ہیں۔ جن میں ایک بیٹا اور تین بیٹیاں ہیں۔ بڑی بیٹی زینب عمران بعمر قریب نو سال تیسری جماعت کی طالبہ ہے۔ آج شام قریب چھ بجے مرے گھر میں مہمان آئے ہوئے تھے اسی دوران میری بیٹی مجھ سے پیسے لیکر کوئی چیز لینے دوکان پر گئی۔ جب کافی دیر تک واپس نہ آئی۔ جس کو ہم اہل خانہ نے محلے میں تلا ش کیاجو نہ ملی۔

اسی دوران صدام حسین ‘ولد فضل دادجو میرا سا لا ہے۔ آ گیا جس نے بتلایا کہ قریب چھ بج کر پندرہ منٹ شام کو میں نے اپنی بھانجی زینب کو انیقہ کے ساتھ اس کے گھر کی طرف جاتے ہوا دیکھا تھا۔ جا پر ہم انیقہ کے گھر کے باہر گلی میں پہنچے تو دیکھا کہ انیقہ کے گھر کو تالا لگا ہوا تھا اور انیقہ باہر گلی میں کھڑی ہوئی تھی جس کو ہم نے کہا کہ زینب کدھر ہے۔ جس پر اس نے کہا کہ تمہارے بچے ہمارے گھر کبھی نہیں آئے۔ ہمارے کافی اصرار کرنے پر انیقہ نے اپنے گھر کا تالا کھولا تو میں اور میرا بھائی ایوب اور ایوب کی بیوی کرمل ہمراہ دیگر لوگوں کے گھر میں داخل ہوئے تو میری بھابھی کرمل نے شور کیا یہ زینب کی جوتی پڑی ہوئی ہے۔انیقہ کے ایک کمرہ کی لائٹ بند تھی دروازہ کھلا ہوا تھا کمرہ میں داخل ہو کر موبائل کی روشنی دیکھا تو بیڈ کے نیچے میری بیٹی پڑی ہوئی تھی جس کو میں نے اٹھایا جس کا جسم ٹھنڈا تھا غور سے دیکھا تو وہ فوت ہو چکی تھی میری بیٹی کے چہرے اور گردن پر دانتوں سے کاٹنے نشانات پڑے ہوئے ہیں اور میری بیٹی کا پا جامہ تھوڑا سا نیچے اترا ہو اتھا ، جس کے ساتھ تھوڑا سا خون لگا ہوا تھا انیقہ نے میری بیٹی کو اپنے ساتھ گھر لیجا کر نامعلوم ملزمان سے میری بیٹی کے ساتھ زیادتی کروا کر اور قتل کرکے سخت زیادتی کی ہے۔

ان کے خلاف دعویدار ہوں قانونی کارروائی کی جائے ۔العبد نشان انگوٹھا ثبت شدہ محمد طفیلSI کارروائی پولیس اطلاع وقوعہ پا کر میں معہ طارق محمودHC/2077 سجاد شاہHC/84 سعید اصغرC/6512‘ساجدہ پروین LC/2220اطلاع وقوعہ پا کرDHQ اسپتال پہنچا ہوں۔ سائل نے ملاقی ہو کر بیان بالا تقریری دیا جو حرف بحرف ضبط تحریر میں لایا جا کر مذکورہ کو پڑھ کر سنایا سمجھایا گیا جس نے صحت بیان خود کو درست تسلیم کرتے ہوئے زیر بیان اپنا بایاں انگوٹھا ثبت کر دیا ہے۔ جس کی میں تصدیق کرتا ہوں طفلک زینب کی نعش مارچری میں پڑی ہوئی ہے ۔ جس کا ظاہری ملاحظہ بذریعہ ساجدہ پروینLC/2220 کرایا گیا ہے۔

جونعش ازاں زینب کے بائیں گال پر کاٹنے کا نشان‘ گردن پر کاٹنے کا نشان‘ نیچے والے ہونٹ پر کٹ کا نشان‘ دائیں ڈھولہ پر نشان کاٹنے کا‘پیٹ پر پانچ عدد کاٹنے کے نشانات اور دائیں کولہا پر نشان لگنے پائے گئے ہیں۔ جس کی درخواست پوسٹ مارٹم و نقشہ صورت احوال مرتب کرکے برائے کارروائی نزدCMOصاحبہ زیر حفاظت ساجدہ پروین LC/2220 بھجوائی جا رہی ہے۔ بیان بالا و حالات واقعات سے سر دست صورت جرم376/302/34ت پ پائی جاکر بیان بشکل استغاثہ مرتب کرکے بغرض قائمی مقدمہ بدست سعید اصغرC/6512 تھانہ بھجوایا جا رہا ہے مقدمہ درج کرکے نمبر مقدمہ سے اطلاع دی جائے میں مصروف تفتیش ہوں از DHQاسپتال راولپنڈی آٹھ بج کر پچاس منٹ رات کو۔ محمد طفیلSI تھانہ سول لائن22-03-2021 از تھانہ حسب آمد بیان بشکل استغاثہ رپورٹ ابتدائی اطلاعی ہذاٰ بجرم مذکور مرتب ہوئی۔ اصل استغاثہ مع نقلFIRبدست آرندہ کانسٹیبل عقب فرسندہSI صاحب بمراد تفتیش ارسال ہے۔ محرر بعد تکمیل ریکارڈ دیگر نقول ہائےFIR جابجا بخدمت افسران مجاز بذریعہ سپیشل رپورٹ بدست خاص کانسٹیبل ارسال کرے۔

شمریز محبوبTASI 22-03-2021 ایف آئی آر درج ہونے کے بعد پولیس کی روایتی سستی پر ننھی زینب کی مغموم ماں شمائلہ گل نے ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ’ راولپنڈی پولیس تعاون نہیں کر رہی۔مقتولہ زینب کی والدہ شمائلہ گل کا کہنا تھا کہ کویتا عرف انیقہ اور بابر مسیح ہی ان کے ملزم نہیں بلکہ ان کے ساتھ دو افراد اور بھی شریک جرم ہیں۔ پولیس نے دیگر کو گرفتار نہیں کیا وہ بااثر لوگ ہیں۔میڈیا نے بھی رشوت لے لی ہے۔ مری ہوئی بیٹی دیکھ کر میں پل پل مر رہی ہوں۔جس طرح سب نے میری زینب کو کفن میں دیکھا میں اس کے قاتلوں کو بھی یونہی دیکھنا چاہتی ہوں۔میری بیٹی کے سارے جسم پر نشان تھے میں کیسے بتاؤں میں نے کیا کیا دیکھا؟زینب کتنا تڑپی ہو گی اس نے مجھے کتنی آوازیں دی ہوں گی؟ میں وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار سے مدد کی اپیل کرتی ہوں۔ اگرمجھے انصاف نہ ملاتو کل میں بھی کہیں مری ہوئی ملوں گی۔ ملزمان کو جھنڈا چیچی چوک میں سرعام پھانسی دی جائے ‘۔

نیشنل میڈیا کی پراسرار خاموشی اور سوشل میڈیا پر پے در پے پوسٹس کی بدولت تھانہ سول لائن نےاندوہناک واقعہ میں ملوث ملزمان بابر مسیح‘ اسکی اہلیہ کویتا عرف انیقہ اور ملزم رانا عدنان کو قانونی کارروائی کے بعد گرفتار کر لیا ہے ۔ ایس ایچ او سول لائنز کے مطابق ملزمان بابر مسیح اوررانا عدنان نے معصوم زینب کے ساتھ زیادتی اور قتل کا اعتراف بھی کر لیا ہے۔ سی پی اوراولپنڈی محمد احسن یونس‘ ایس پی پوٹھوہارسید علی اور ایس ایس پی انویسٹی گیشن محمد فیصل پچیس مارچ کی شب زینب کے گھر آئے اور زینب کے والد کو تفتیش میں ہونے والی پیشرفت سے آگاہ کیا۔ زینب کے والدنے ملزمان کی گرفتاری اور تفتیش پرپولیس ذرائع کے مطابق اطمینان کا اظہار کیا ہے۔تاہم پولیس اور اعلیٰ حکام کو ایف آئی آر میں درج اس جملے’ محمد عمران ولد یعقوب مسیح‘ پر بھی غور خوض کرنا چاہئے۔

سانحہ قصور کی زینب سات برس کی جبکہ اس کا قاتل عمران علی چوبیس برس کا تھا۔راولپنڈی کی زینب نو برس کی جبکہ اس کا قاتل بابر مسیح اٹھائیس برس کا ہے(جس کی اپنی بھی دو بیٹیاں ہیں)۔ سانحہ قصور کے مجرم عمران علی کو سترہ اکتوبر دو ہزار اٹھارہ کو تختہ دار پر لٹکادیا گیاتھا۔ اگر عوامی مطالبے پر اسے سر عام کسی چوک پرپھانسی کے پھندے پر لٹکایا جاتا تو عین ممکن ہے کہ راولپنڈی کی زینب بیدردی سے نہ مسلی جاتی۔( راولپنڈی کی زینب کے مجرمان کو سرعام پھانسی دے کر مستقبل میںکسی اور شہر کی زینب کو بچایا جا سکتا ہے)۔

آئی پنجاب نے اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے فوری طور پرواقعہ کا نوٹس لے لیا ہے ‘تاہم اہل علاقہ دعا گو ہیں کہ ایام قرنطینہ میں میڈیا ٹیم سے مریم نواز کی نیب پیشی پر مشاورت کرتے‘ وزیر اعظم واقعہ کا نوٹس نہ لیں ۔ وزیر اعظم صاحب خدارا آپ’ سیاسیات‘ کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکتے تو بچوں کے ’چیز‘ لینے پر پابندی ہی لگوا دیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے