کپاس اور ایک غلط سیاسی روش

عالمی تاریخ پر نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتاہے کہ مختلف مواقع پرعالمی استبدادی قوتوں نے مختلف حیلے بہانے اور وجوہات استعمال کرتے ہوئے متعدد ممالک پر حملے کیے ہیں اور پابندیاں عائد کی ہیں۔ان پابندیوں اور حملوں کے نتائج ان وجوہات کو ختم کرنے سے زیادہ ان ممالک اور خطوں کے عوام کی تکالیف کی صورت میں نکلے ہیں ۔ ان میں سے بہت سے ممالک ابھی تک اس آگ میں جل رہے ہیں اور بہت بڑی قیمت چکا چکے ہیں۔ کیا عالمی اسٹیبلیمشمنٹ کے کرتا دھر تا اپنا یہ طرز عمل کبھی درست کر یں گے اور اپنے طرزعمل کو درست سمت دیں گے یہ وہ سوال ہے جو تاریخ کے طالب علم بار بار اٹھائیں گے۔

دنیا کے مختلف خطوں اور علاقوں کے انسان، ان کی سوچ ،طرز فکر ،بودووباش۔ ثقافت، تاریخ، جینیات ،زبان ، آب و ہوا مذاہب نظریہ حیات اوردوسرے متعدد وجوہات کی وجہ سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اسلئے سب کیلئے یکساں نظام اور یکساں پیمانے بنانا بنیادی حقائق کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے ۔ ہاں وہ جن پراتفاق ہوجائے باہمی گفت وشنید کی صورت میں عالمی پلیٹ فارمز کی صورت میں قابل قبول ہوتے ہیں۔

کیامسائل کو پرامن انداز سے حل نہیں کیا جاسکتا کیا مذاکرات کی میز ہی بہترین جگہ نہیں ہے مسائل کے حل کیلئے ۔اس وقت کئی ممالک عالمی استبدادی نظام کے جبر کا شکارہیں اور ان کی مصیبتیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں۔

بنی نوع انسان کیلئے سب سے بڑی مصیبت بدامنی ، قتل وغارت ، بے یقینی اور معاشی بدحالی ہے ۔ بعض ممالک ابھی تک ان مصیبتوں سے دوچار ہیں۔

بیسویں صدی کے آخری عشروں میں دوبڑی طاقتوں روس اور امریکہ کے اپنے نظام کو توسیع دینے کی لڑائی میں افغانستان بری طرح پس گیا ہے۔ افغانستان ابھی تک ان دو ممالک کی مہم جوئی کی لگائی گئی آگ میں جل رہاہے ۔ لاکھوں افغانی اس آگ میں جل کر راکھ ہوگئے ہیں۔ لاکھوں بچے یتیم اور لاکھوں خواتین بیوہ ہوگئیں ہیں۔انفراسٹرکچر کی تباہی تعلیم و دیگر بنیادی سہولیات کی تباہی کا تو کوئی حساب نہیں۔ افغانستان کئی دہائیاں پیچھے چلاگیا ہے افغانستان کی کئی نسلیں برباد ہوگئیں ہیں۔ اسی سے ملتی جلتی صورتحال عراق اور شام کی ہے اور پاکستان بھی اسی قسم کی مہم جوئی سے بچنے کیلئے بھاری قیمت چکا چکا ہے۔

کیا اتنی بڑی قیمتیں ادا کرنے کے بعد اس طرح کی باتیں مناسب ہیں ۔ اپنے سے مختلف نظریات کو برداشت کرنا اور ان کااحترام کرنا کیا بنیادی انسانی قدروں سے میں نہیں ہے ۔

ایسے وقت میں جب چین ایک بڑے ملک اور بڑی معاشی قوت کے طور پر دنیا میں ایک ذمہ دارانہ کردار ادا کررہا ہے اور دنیا میں نہ صرف سپلائی چین کو مستحکم اور رواں دواں رکھاہواہے بلکہ اس وقت کے سب سے بڑے چیلنج کووڈ۔۱۹ کیخلاف فیصلہ کن فتح حاصل کرچکا ہے اور عالمی سطح پر انسداد وبا کی ادویات، تجربات اور ویکسین کی تقسیم میں قائدانہ کردار ادا کررہاہے۔ بی آر آئی کے زریعے دنیا کو معاشی طور پر منسلک کرنے اور بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کے قیام کے نصب العین کے تحت دنیا کی تعمیر و ترقی اور امن و سلامتی کو فروغ دینے کے سلسلے میں انتہائی مثبت کردار ادا کررہاہے ۔

چین کو سنکیانگ کے امور کے حوالے سے تنگ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ایک عرصے سے امریکہ اور چین کے درمیان کشمکش جاری ہے جس کی وجہ چین کی ترقی اور کھلے پن کے زریعے پوری دنیا کیلئے ترقی ، تجارت اور کاروبار کے مواقع فراہم کرنا ہے ۔ چین عالمی سطح پر زمہ دار معاشی قوت کے طور پر ابھرا ہے ۔اپنی ترقی کے ثمرات عام لوگوں تک پہنچارہا ہے چین کی ترقی کے تصور او ر عملی نمونے میں صرف انفراسٹرکچر کی تعمیر شامل نہیں بلکہ لوگوں کے معیار زندگی کا بلند ہونا بھی ہے ۔ اور یہ سلسلہ صرف چین تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا میں اس کے مظاہر دیکھے جاسکتے ہیں۔ اور یہی و ہ چیز ہے جو امر یکہ سے ہضم نہیں ہورہی۔

چین کے مختلف تعمیری منصوبے جن کا براہ راست تعلق عام لوگوں کے فائدے سے ہے دنیا بھر میں اور خاص طور پر پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں د یکھے جاسکتے ہیں جیسے سڑکوں کی تعمیر ، آبی ذخائر کی تعمیر، بجلی کے کارخانے ، بندرگاہیں، خصوصی اقتصادی زونز وغیرہ ہیں۔

یہ چین ہی ہے جس نے اپنی ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی کو بو جھ کے بجائے مثبت قوت میں تبدیل کیاہے جو اس وقت نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کی خوشحالی میں تعمیری کردار ادا کررہی ہے ۔

پابندیوں کا بالاخر نقصان عام لوگوں کو ہی پہنچتاہے اور عام لوگوں کی زندگی اور خوشحالی ہی متاثر ہوتی ہے ایران، کیوبا وغیرہ پر پابندیوں سے عام لوگوں کو ہی نقصان پہنچاہے ۔

اس قت چین کے سنکیانگ میں کپاس کی کاشت سے متعلق جبری مشقت کی یکطرفہ اور غیر تصدیق شدہ رپورٹس کو بہانہ بنا کر سنکیانگ اور چین کو نشانہ بنانے کی مہم چلائی جارہی ہے مجھے وہ وقت یا د آرہاہے جب عراق کے حوالے سے یورینیم کو حوالہ بنا ایک پوری میڈیا مہم چلائی گئی ۔ بعد میں اس طرح کی ساری رپورٹس غلط ثابت ہوگئیں لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور عراق کو غلط رپورٹس پر نشانہ بنایا جا چکاتھا ۔ بحر حال اس انداز سے تو چین کے حوالے سے سوچا بھی نہیں جاسکتا اور نہ ہی کوئی ایسا کرسکتاہے کیونکہ چین اپنی سرزمین کے دفاع کی بھر پور صلاحیت او رعزم رکھتاہے لیکن اس طرح کی مہم چلانا اور اس کی بنیاد پر پابندیاں لگانا غیر معقول ہے کیونکہ اس سے سنکیانگ کے وہ عوام جن کا روزگار کپاس کی کاشت اور کپاس کی صنعت سے وابستہ ہے متاثر ہوں گے جو غیر مناسب ہے ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے اس طرح کے حربوں کے استعما ل کا خاتمہ کیا جائے اور تمام مسائل کا حل باہمی افہام وتفہیم اور بات چیت کے ذریعے نکالا جائے ۔ تاکہ عام لوگوں کا نقصان نہ ہو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے