گوادر کے اصل مسائل کیا ہیں ؟

گوادر بہت عرصے سے خبروں کی زینت بنا ہوا ہے، خاص طور پر جب سے پاکستان اور چین کے درمیان کئی معاہدے طے پائے ہیں اور گوادر کی بندرگاہ ایک چینی کمپنی کے حوالے کی گئی ہے۔ نئی بندرگاہ اور سی پیک سے جڑے متعدد منصوبے تقریباً آدھے مکمل ہو گئے ہیں۔ سیکورٹی فورسسز کے رویے، پانی اور بجلی کی کمی، وسیع پیمانے پر بے روزگاری اور باہر سے آنے والے لوگوں کی آبادکاری سے گوادر کے مقامی لوگ پریشانی اور تذبذب کا شکار ہیں۔ 23 جگہوں پر پھیلے ماہی گیر جنکے پاس 13000 کشتیاں صرف شہر میں ہیں تقریباً سارے اپنے مستقبل کے لئے پریشان ہیں۔ مقامی لوگوں کو شاید ہی سی پیک سے کوئی فائدہ نظر آتا ہو، وہ چین اور چینی کمپنیوں سے گوادر کے مقامی لوگوں کے لئے تعلیم اور تکنیکی صلاحیت میں اضافے کے لئے اقدامات کا انتظار کر رہے ہیں ۔

گوادر اور اس کے آس پاس کی ترقی کی موجودہ حیثیت کے بارے میں ایک سیاسی گفت و شنید کے دوران ہمیں جو تاثر ملا ہے ، ان میں سے بندرگاہ کے آس پاس میں ایک سے زیادہ سیکیورٹی چیک پوسٹیں خاص طور پر مقامی آبادی کے ناراضگی کا سبب ہیں۔ اگرچہ وہ ترقی کے خواہاں ہیں ، لیکن انہیں آنے والے برسوں میں بیرونی افراد کی تعداد زیادہ ہونے کا اندیشہ بھی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ گوادر پورٹ ، فری انڈسٹریل زون اور نیا بین الاقوامی ہوائی اڈہ جو اس وقت زیر تعمیر ہے نئے مواقع لانے کا ذریعہ تو ہے ہی لیکن وہ ان منصوبوں میں اپنے لئے بھی مساوی حصہ چاہتے ہیں۔

سینٹر فار ریسرچ ایند سیکورٹی سٹڈیز (سی آر ایس ایس) کے زیر سایہ (بلوچستان کی ترقی مگر کیسے) کے عنوان سے ایک گول میز ڈائیلاگ کا اہتمام کیا گیا جس میں سیاستدانوں، مقامی لوگوں اور صحافیوں نے شرکت کی۔

شرکاء میں سے بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رہنما حسین واڈیلہ نے تبصرہ کیا کہ بلوچ رہنماؤں کے لئے اصل مسئلہ معاشی نہیں بلکہ خود مختاری ہے، بلوچستان کی دولت زیرزمین ہے جس پر ہمارا کوئی اختیار نہیں ہے ایسا لگتا ہے کہ سات دہائیوں کے بعد بھی ہم نے کچھ سیکھا ہی نہیں ہے اور جب تک کہ مرکز بلوچ سرزمین کے بیٹوں کی بات نہیں سنتا تب تک ہم اجتماعی طور پر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکتے۔

سابق ناظم گوادر بابو گلاب نے کہا کہ خواندگی میں چیلنجز کے علاوہ بلوچستان کے لوگ اپنی مدد آپ کے تحت جدوجہد کرتے رہتے ہیں، خاص طور پر ماہی گیروں کو رہنمائی ، تکنیکی اور مالی مدد کے ساتھ ساتھ معاشرتی مدد کی یقین دہانی کی بھی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کا عمل اور ترقی اور بھی تیز اور ہموار ہوتی اگر اس میں مقامی لوگوں کو بھی شامل کیا جاتا۔ مقامی لوگوں کو نہیں پتہ کہ جس علاقے میں وہ آج رہ رہے ہیں اس کا مستقبل میں کیا ہوگا، انکے اس طرح کے ضروری خدشات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا ڈھانچہ بنانے کی ضرورت ہے جو سب کے لئے قابل قبول ہو۔

سینیٹر اکرم دشتی نے بابو گلاب کے نظریہ کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ مقامی لوگوں کے ساتھ کوئی مشاورت نہیں ہوتی ہے لہذا گوادر کے لوگ آس پاس آنے والے نئے انفراسٹرکچر کو اپنا ملکیت نہیں سمجھتے۔ انہوں نے کہا کہ رسائی نہ ہونے کی وجہ سے عام لوگوں میں یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ "ترقی کو ہمارے وسائل سے فائدہ اٹھانے اور اس پر قبضہ کرنے کے لئے ڈیزائن کیا جاسکتا ہے”، گوادر بندرگاہ کی ترقی سے مقامی لوگوں سمیت سب کے لئے روزگار، معاشی ترقی اور خوشحالی مقصود ہونی چاہیے تھی۔

متعدد مقررین جن میں پیپلز پارٹی کے اعجاز بلوچ،یوسف فریادی، بی این پی کے ماجد سورابی، مسلم لیگ ن کے عثمان کلمتی، گوادر ماہی گیر اتحاد کے یونس انور، سکول کے استاد طاہر جمیل، بی این پی کی نورعنا اور بلوچ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے خیر محمد نے ایک ہی بات پر زور دیا کہ مقامی لوگوں کو اس پراجیکٹ میں مصروف کیا جائے، انکی جائز خدشات کو دور کیا جائے اور بلوچ عوام کو یہ یقین دلایا جائے کہ ان منصوبوں سے مقامی لوگوں کو اگر زیادہ فائدہ نہیں تو کم از کم جائز فائدہ ضرور ہوگا۔

یونس انور نے ان امور پر روشنی ڈالی کہ گوادر کے ماہی گیر خاص طور پر سی پیک منصوبوں کے آغاز سے ہی مشکلات کا سامنا کررہے ہیں۔ ماہی گیر خاندانوں کی اوسط ماہانہ آمدنی 40 ہزارسے کم ہوکر 15 ہزار یا اس سے بھی کم ہوگئی ہے۔

یونس نے جذبات سے بھر پور آواز میں کہا ، "ہمیں لگتا ہے کہ ہمارے ساتھ دلتوں (اچھوت) کی طرح کا سلوک کیا جارہا ہے”۔ یا اس سے بھی کمتر سمجھا جاتا ہے۔

انہوں نے ایک عام گردش کرنے والی شکایت کا بھی ذکر کیا کہ زیر تعمیر ایسٹرن ایکسپریس وے نے مقامی لوگوں کے لئے سمندر تک رسائی محدود کردی ہے اور مچھلیوں کی افزائش کے ساتھ ساتھ کیکڑے کے رہائش گاہیں بھی متاثر ہوئی ہیں۔ مزید برآں چھوٹی کشتیوں کے ذریعہ مچھلیوں کی گرفت کم ہوگئی ہے کیونکہ ایران اور سندھ سے ماہی گیری کے ٹرالر آتے ہیں جس کی وجہ سے مقامی لوگوں کے لئے چھوٹی مچھلیاں رہ جاتی ہیں۔

شرکاء میں سے بیشتر نے گوادر کے مقامی لوگوں اور اس خطے میں کام کرنے والی چینی کمپنیوں کے مابین رابطہ نہ ہونے کی بھی شکایت کی۔ وہ زیادہ تر دوسرے علاقوں کے پاکستانی ٹھیکیداروں کے ذریعہ کام کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں گوادر کے رہائشیوں کو کم اجرت ملتی ہے۔

شرکاء نے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ گوادر برادریوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ بیرونی لوگوں کے ذریعہ زمینوں کے مزید حصول کو روکنے کے لئے قانون سازی کریں۔ انہوں نے کہا کہ ہم آنے والے سالوں میں بیرونی لوگوں کی تعداد میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے لہذا انہیں تحفظ کی ضرورت ہے۔

جب سے سی پیک منصوبہ شروع ہوا ہے ، مقامی لوگوں کے خیالات اور حکام کے دعوؤں کے بیچ میں کافی فرق ہے۔ مقامی لوگوں کے احتجاج کی وجہ سے ہی حکام نے مغرب سے مشرق میں ایسٹ بے ایکسپریس وے کے ذریعے ماہی گیروں کو تین انڈر پاس فراہم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔ ان کے احتجاج سے گوادر شہر کے آس پاس باڑیں لگنا بھی رک گئیں بلکہ اس منصوبے کو یکسر ترک کردیا گیا ہے۔ اب شہر کے بیشتر حصے میں پانی کی فراہمی محدود مقدار میں ہے لیکن ہے۔

اس کے علاوہ بجلی کی مسلسل فراہمی بھی پریشانی کا ایک بڑا عنصر بنی ہوئی ہے۔ ایران جو 100 میگاواٹ بجلی مہیا کرتا ہے وہ مستحکم نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے شہر کو پانی سپلائی بھی غیر مستحکم ہوتی ہے، دن میں کئی باربجلی کی ترسیل میں رکاوٹ ہوتی ہے۔حکام کو منصوبہ بندی اور فیصلہ سازی میں مقامی لوگوں کو شامل کرنے کے لئے کوششوں کو تیز کرنے کی ضرورت ہے۔ ترقی کی قبولیت اور ملکیت پیدا کرنا جامع حکمرانی کا مطالبہ کرتا ہے جو اب تک غائب ہے۔ جب مقامی لوگوں سے سیکیورٹی اہلکار کبھی کبھار غیر سنجیدہ سوالات پوچھتے ہیں تو وہ بھی لوگوں میں سخت برہمی کا احساس پیدا کرتا ہے۔

گوادر کے رہائشیوں کو عدم تحفظ ، غیر یقینی صورتحال اور بے بسی کے گہرے احساس سے نکالنے کے لئے حکام کو واقعتاً گوادر کے باسیوں میں اپنے لئے احترام کا جذبہ پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے سکیورٹی کے تمام اقدامات اور ترقی سے متعلق حکمت عملیوں کو اچھی طرح سے سوچنے کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے