بابا فضل کلیامی: پوٹھوہار کا چراغِ عشق…

اسلام آباد سے تقریباً 40 کلو میٹر کے فاصلے پر جرنیلی سڑک سے ہٹ کر ایک پُر فضا گاؤں کلیام اعوان ہے‘ ایک عام سادہ سا گائوں‘ لیکن اس کی خاص بات یہ ہے کہ اس کی مٹی میں تصوف کے قافلے کا ایک گوہر تابدار محوِخواب ہے جس کا مزار آج بھی مرجعٔ خلائق بنا ہوا ہے۔ دور و نزدیک سے عشاق کے قافلے آتے ہیں اور اپنی جھولیوں میں راحت و تسکین کی دولت لے کر اپنے گھروں کو واپس جاتے ہیں۔ یہ بابا فضل کلیامی کی آخری آرام گاہ ہے۔ میں نے بابا فضل کلیامی کا تذکرہ بہت سے مقامات پر بہت سے لوگوں سے زبانی سنا تھا لیکن کارِ دنیا کی بے ہنگم مصروفیات نے مجھے وہاں جانے سے روکے رکھا۔ پھر وہ دن آ ہی گیا جس کا انتظار مجھے ایک عرصے سے تھا۔ وہ فروری کا آخر آخر تھا‘ جاڑے کی مہربان دھوپ چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ اچانک میرے دل نے سرگوشی کی کہ کیوں نہ آج تصوف کی پُر خار راہوں کے مسافر کے مزار پر حاضری دی جائے جس کا ذکر پوٹھوہار کے کلیام گائوں میں ہوتا ہے۔ میں نے نگاہ اٹھا کر پہلے آسمان کی طرف دیکھا‘ یہ ایک خوبصورت دن تھا جس میں ایک شانت بھری خاموشی تھی۔

ایسے میں مجھے کلیام کے رہنے والے ایک نوجوان وسیم کا خیال آیا جس کا نمبر میرے ٹیلیفون میں محفوظ تھا۔ میں اسے ایک عرصے بعد فون کر رہا تھا۔ آواز سن کر اس نے مجھے پہچان لیا۔ جب میں نے اسے اپنے ارادے سے آگاہ کیا تو اسے یقین نہ آیا۔ کہنے لگا: میں ابھی فون پر گوگل لوکیشن بھیجتا ہوں۔ گوگل لوکیشن میرے جیسے راستے بھول جانے والے لوگوں کے لیے نعمت سے کم نہیں۔ وسیم نے فون پر مجھے یہ بھی بتایا‘ ان کے علاقے میں کلیام نام کے دو گائوں ہیں۔ ان دونوں دیہات کے درمیان دو کلومیٹر کا فاصلہ ہوگا۔ ایک گائوں کا نام کلیام سیداں ہے اور دوسرے کا کلیام اعوان۔ میرے پوچھنے پر کہ بابا فضل الدین کا تعلق کس گائوں سے ہے‘ وسیم ہنستے ہوئے بولا: دونوں سے۔ میں نے کہا: وہ کیسے؟ وسیم کہنے لگا: دراصل بابا فضل کا آبائی گھر کلر سیداں میں تھا‘ وہیں ان کی اور ان کے بھائیوں کی پیدائش ہوئی‘ لیکن بابا جی کا مزار کلیام اعوان میں ہے۔ وسیم کہانی میں تجسس رکھنا چاہتا تھا۔ میں بھی اس کہانی کو اس کی زبانی کلیام میں سننا چاہتا تھا۔ میں نے اپنے موبائل پر گوگل لوکیشن آن کی اور گاڑی اس کے اشاروں پر چلنے لگی۔ رستے میں پہلا مقام روات تھا‘ وہی روات جہاں گکھڑوں کا قلعہ اب بھی گکھڑوں کی عظمتِ رفتہ کی یاد دلاتا ہے۔ اس قلعے کی حفاظت کے لیے ان کا جری سردار سلطان سارنگ شیر شاہ سوری کے بیٹے سے لڑتے ہوئے اپنے دس بیٹوں کے ساتھ اپنی جان اس مٹی پر قربان کر گیا تھا۔ روات سے کچھ ہی فاصلے پر کلیام ہے۔

کلیام کے بابا فضل کے عقیدت مندوں میں گولڑہ کے پیر مہر علی شاہ بھی شامل تھے۔ ان کی سوانحِ حیات ”مہر منیر‘‘ میں ان کا تذکرہ ہے۔ اس کہانی کا آغاز ان دنوں سے ہوتا ہے جب بابا فضل کے آبائواجداد گجرات کے ایک گائوں میں رہتے تھے۔ یہ ایک مذہبی گھرانہ تھا‘ جس کے علم و فضل کی شہرت اپنے علاقے میں تھی۔ آپ کے پڑدادا کا نام حضرت حافظ الدین شرف امان الدین تھا۔ آپ کے دادا کا نام حضرت شیخ ذکاالدین تھا‘ جنہوں نے گجرات چھوڑ کر روات کے قریب ایک سادہ سے گاؤں کلیام سیداں میں رہائش کا آغاز کیا۔ اگر آپ اس علاقے میں گئے ہوں تو دیکھا ہو گا کہ یہ پوٹھوہار کا ایک خوبصورت علاقہ ہے جہاں اونچے نیچے ٹیلے، شور مچاتے پہاڑی چشمے اور دھریک، ٹاہلی، کیکر اور شہتوت کے درخت بکثرت نظر آتے ہیں۔ بابا فضل صاحب کے والد کا نام حافظ شیخ فتاء اللہ تھا جو اپنے زہد اور تقویٰ کیلئے پورے علاقے میں جانے جاتے تھے۔ شیخ فتاء اللہ کے تین بیٹے حافظ نور احمد، غلام رسول اور بابا فضل کلیامی تھے۔

بابا فضل 11 رجب 1191ھ میں کلیام سیداں میں پیدا ہوئے تھے۔ کہتے ہیں اوائل عمری سے ہی وہ دوسرے بچوں سے مختلف تھے۔ قدرت اپنی منصوبہ بندی کر رہی تھی۔ ِادھر یہ خاندان گجرات سے آ کرکلیام سیداں آباد ہوا‘ اُدھر حافظ خواجہ محمد شریف خان صاحب دہلوی‘ جن کا تعلق مغلیہ خاندان سے تھا‘ کو ان کے مرشد خواجہ مظہر علی شاہ صاحب نے حکم دیا کہ وہ اپنے موجودہ مقام کو چھوڑ کر پوٹھوہار چلے جائیں۔ حافظ خواجہ محمد شریف خان صاحب اپنے مرشد کے کہنے کے مطابق کلیام کے علاقے میں آ گئے اور کلیام سیداں سے تقریباً دو کلومیٹر دور کلیام اعوان میں ڈیرہ ڈالا۔ بابا فضل اور ان کے بھائی کلیام اعوان میں حافظ خواجہ محمد شریف صاحب سے تعلیم حاصل کرنے لگے۔ مرشد سے عشق انہیں کلیام اعوان کھینچ لایا تھا۔ اپنے والدین سے دور اور اپنے مرشد کے قریب۔ انہوں نے باقی زندگی یہیں بسر کر دی۔ یہیں ان کی آخری آرام گاہ ہے۔

اچانک میرے موبائل کی گھنٹی بجی۔ روشن سکرین پر میں نے وسیم کا نام دیکھا۔ وہ مجھ سے فون پوچھ رہا تھا کہ میں کہاں پہنچا ہوں۔ میں نے اسے بتایا کہ میں جی ٹی روڈ پر سفر کرتے اس موڑ تک پہنچ گیا ہوں جہاں سے ایک سڑک کلیام کو جاتی ہے۔ وسیم کہنے لگا: آپ پہلے کہاں جانا پسند کریں گے؟ کلیام سیداں یا کلیام اعوان۔ میں نے کہا: میرا خیال ہے مجھے پہلے کلیام سیداں جانا چاہیے جہاں مجھے وہ گھر دیکھنا ہے جہاں بابا فضل پیدا ہوئے تھے۔ وسیم بولا ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔ میں سڑک پر ہی آپ کا انتظار کر رہا ہوں۔ کچھ ہی دیر میں مجھے اپنے دائیں ہاتھ کلیام کو جاتی سڑک دکھائی دی۔ میں نے ذرا آگے جا کر یوٹرن لیا اور پھر گاڑی کلیام جانے والی سڑک پر چلنے لگی۔

بابا فضل کا تذکرہ پوٹھوہار کے دیہات میں عام ملتا ہے۔ ان کے نفس کے مجاہدے کے قصے بچپن سے سنتے آئے تھے۔ کہتے ہیں‘ تصوف کی دنیا میں روح کی پاکیزگی کے لیے بدن کو سخت آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ غم اور مسرت کی بھول بھلیوں سے آگے وصلِ یار کی وہ شیریں منزل ہے جس کا طالب ہر صوفی ہوتا ہے۔ بابا فضل بھی تصوف کی اسی راہِ پُرخار کے مسافر تھے‘ جہاں بدن کی مشقت روح کی طمانیت کا باعث بنتی ہے۔ جہاں آرام اور آسائش کے بجائے بے قراری اور بے چینی صوفی کا زادِراہ ہوتی ہے۔ بابا فضل نے شعوری طور پر اپنے لیے یہ راہِ پُرخطر چنی تھی۔ زمانے کی نامہربان اور تند و تیز ہواؤں میں چراغِ عشق جلانا اور اس کی لَو کی حفاظت آسان کام نہ تھا۔ گاڑی کے دو رویہ ہرے بھرے کھیت تیزی سے گزرتے جا رہے تھے اور میں اپنی سوچوں میں گم تھا۔ اچانک دور مجھے سڑک پر کوئی کھڑا نظر آیا۔ میں نے گاڑی آہستہ کر لی۔ وہ وسیم تھا۔ کہنے لگا: پہلے گھر چلتے ہیں چائے پی کر آگے جائیں گے۔ میں نے کہا: بہتر ہوگا کہ پہلے کلیام سیداں جائیں بابا فضل کے آبائی گھر۔

وسیم میرے ساتھ گاڑی میں آگیا اور مجھے راستہ بتانے لگا۔ اب گوگل میپ کے بجائے وسیم میرا گائیڈ بن گیا تھا۔ یہ پوٹھوہار کا بہت خوبصورت علاقہ تھا‘ دشوار گزار بل کھاتا ہوا راستہ دائیں بائیں اور اوپر نیچے لہراتا ہوا۔ میں سوچ رہا تھاکہ پختہ سڑک کی تعمیر سے پہلے لوگ کیسے یہاں سفر کرتے ہوں گے اور خاص طور پر بارشوں کے موسم میں تو ان راستوں پر سفر کرنا اور بھی دشوار ہوتا ہوگا۔ اچانک ایک جگہ پہنچ کر وسیم نے گاڑی روکنے کو کہا۔ دور سامنے ایک لوہے کے گیٹ والا گھر تھا۔ ہم پیدل چلتے ہوئے وہاں تک پہنچے۔ وسیم نے گیٹ پر ہلکی سی دستک دی۔ کچھ ہی دیر میں پاؤں گھسٹے کی آ واز آئی اورکسی نے اندر سے گیٹ کی زنجیر ہٹا کر گیٹ کھول دیا۔ دہلیز پر قدم رکھتے ہوئے میں نے نگاہیں اٹھا کر کچے صحن کے اس پار دیکھا تو دیکھتا ہی رہ گیا۔

گیٹ کھلا تو میں نے دیکھا‘ صحن کے اس پار دائیں ہاتھ ایک خوبصورت کمرہ تھا اور اس پر ایک گنبد۔ کمرے کے دروازے کی پیشانی اور اطراف سے خوبصورت گل بوٹے۔ میں نے دروازہ کھول کر اندر جھانکا ایک تقدس کی فضا ہر طرف چھائی تھی۔ میں نے وسیم سے پوچھا: یہ کیسی جگہ ہے جہاں وقت ٹھہر سا گیا ہے۔ وسیم بولا: یہی بابا فضل کی جائے ولادت ہے۔ میں کچھ دیر خاموش وہاں کھڑا رہا‘ تاریخ میں منجمد وقت کی طرح۔ کمرے کے سامنے لوہے کے فریم میں پتھر کی ایک بڑی سل رکھی تھی۔ سل کو پوٹھوہاری زبان میں پَڑی کہتے ہیں۔ وسیم نے بتایا یہ وہی پَڑی ہے جہاں بابا فضل بیٹھا کرتے تھے۔

پوٹھوہار کی گرمیوں میں جب ہوا میں حدت ناقابلِ برداشت ہو جاتی تھی، جب گھڑوں میں پانی گرم ہو جاتا اور جب ننگے پائوں زمین پر چلا نہیں جاتا تھا‘ ایسے میں یہ سل گرمی سے تپ کر سلگ اٹھتی تھی‘ بابا فضل ننگی پشت پر اس پر لیٹے رہتے تھے۔ کہتے ہیں‘ جب وہ اس سِل سے اٹھتے تو ان کے بدن کے چرچرانے کی آواز آتی۔ سردیوں کے ٹھٹھرتے دنوں میں جب بابا فضل کے اندر عشق کا دہکتا الائو انہیں بے چین رکھتا ان کے کہنے پر ایک مشک سے یخ بستہ پانی ان پر ڈالا جاتا۔ میں سڑی گیاں، میں بَلی گیاں (میں جل گیا ہوں، میں جل گیا ہوں) یہ کون سی آتش تھی جو ان کا تن بدن جلا رہی تھی اور انہیں کسی پل چین نہیں آ رہا تھا۔ بابا فضل کی تسکین کا مرکز پاکپتن بابا فرید شکر گنج کا مزار تھا‘ جہاں وہ گولڑہ کے پیر مہر علی شاہ اور دوسرے رفقا کے ساتھ جایا کرتے تھے۔ یہاں سے گائوں کی تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک قدیم برگد کے درخت کے پاس آ گئے۔

اس کے ساتھ بائیں ہاتھ سیڑھیاں چڑھ کر ایک چبوترے پر بابا فضل کے والد اور والدہ کی قبریں تھیں۔ ان کے علاوہ ان کے خاندان کے دوسرے افراد بھی یہیں زیر زمین سو رہے تھے۔ میں کچھ دیر کیلئے چبوترے پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا‘ تصوف کے ایک منطقے میں کیسے جذب کی کیفیت عبادت کے ظاہر کو باطن میں چھپا دیتی ہے۔ بابا فضل لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے‘ کلیام اور ارد گرد کے علاقوں کے لوگ ان پر سب کچھ نچھاور کرنے کو تیار تھے۔ اسی دوران کہیں سے ایک فتویٰ دیا گیا کہ بابا فضل کا جنازہ پڑھنا جائز نہیں۔ یہ فتویٰ زور و شور سے پھیلایا گیا۔ جب کسی نے بابا فضل سے اس کا ذکر کیا تو بابا فضل نے اطمینان سے اس کا جواب دیا: میری نماز جنازہ شریعت کے علم کا وہ شہسوار پڑھائے گا کہ سب کو شریک ہونا پڑے گا۔

میں اس چبوترے پر نجانے کب تک بیٹھا رہتا کہ وسیم بولا: اب چلتے ہیں بابا جی کے مزار پر جو یہاں سے دو کلو میٹر پر ہے۔ میں اٹھ کھڑا ہو گیا۔ برگد کے بوڑھے درخت کے قریب سے گزر کر تنگ گلیوں سے ہوتے ہوئے ہم اپنی گاڑی تک پہنچے۔ اب ہم اسی اونچے نیچے اور ٹیڑھے میڑھے راستے پر کلیام اعوان جا رہے تھے۔ وہی کلیام اعوان جہاں حافظ خواجہ محمد شریف کی تعلیم نے ان پر علم و نظر کے نئے دریچے کھول دیے تھے‘ اور پھر وہ وقت آیا جب بابا فضل کا اپنا دائرہ اثر پوٹھوہار کے مختلف قصبوں اور دیہاتوں میں پھیل گیا۔ لوگ ان کے پاس دور دور سے آنے لگے۔ بابا فضل نے اپنی روح کی شادابی کے لیے اپنے جسم کو مشقِ ستم بنا رہے تھے۔ ایک بار انہوں نے بتایا کہ انہیں نہیں معلوم کس پھل کا کیا ذائقہ ہوتا ہے۔ یوں لگتا تھا‘ انہوں نے دنیا کے سب رنگوں اور ذائقوں کے دروازے اپنے لیے بند کر دیے تھے۔ بس ایک شوق آخر دم تک ان کے ہمراہ رہا۔ یہ سماع کا شوق تھا جو سلسلۂ چشتیہ کی ایک توانا روایت ہے۔

ایک دن انہوں نے وصیت کی کہ ان کے وصال پر ستار کا ساز بجایا جائے۔ مسلسل فاقوں اور جسم کو مشقت کے امتحان میں ڈالنے کی وجہ سے اب کمزوری ان پر غالب آنے لگی تھی۔ ان کے چاہنے والے یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ بابا فضل کا دمِ رخصت قریب آ رہا ہے۔ ایک ہنگامہ خیز زندگی اور رشد و ہدایت کے دور کا خاتمہ اب کچھ دنوں یا مہینوں کی بات تھی۔ پھر ایک رات کلیام اعوان سے دُور گولڑہ میں پیر مہر علی شاہ صاحب سوتے میں چونک کر اٹھ بیٹھے۔ وہ خواب ہی کچھ ایسا تھا جس نے ان کی نیند اچاٹ کر دی تھی۔ خواب میں انہوں نے دیکھا کہ بابا فضل انہیں کہہ رہے ہیں کہ میرا وصال ہو گیا ہے اور جنازہ آپ نے پڑھانا ہے۔ پیر مہر علی شاہ بے چین ہو گئے۔ وہ اسی وقت کلیام اعوان کے لیے روانہ ہو گئے۔ یہ واقعہ ان کی سوانح عمری ”مہر منیر‘‘ میں درج ہے۔ جب وہ گائوں کے باہر پہنچے تو بابا فضل کھڑے نظر آئے۔ پیر مہر علی شاہ نے کہا: مجھے تو آپ نے خواب میں آ کر بتایا تھا کہ آپ کا وصال ہو چکا ہے۔ بابا فضل نے کہا: میں نے آپ کو صحیح بتایا تھا‘ میرا وصال ہو چکا ہے‘ لیکن میں نے یہ مناسب نہیں سمجھا کہ آپ مجھے ملنے آئیں اور میں آپ کا استقبال نہ کروں۔ جب گائوں میں اور ارد گرد کے علاقوں میں خبر ہوئی کہ بابا فضل کا وصال ہو گیا ہے اور نماز جنازہ پیر مہر علی شاہ پڑھائیں گے تو لوگوں کا ہجوم امڈ آیا۔ پیر مہر علی شاہ نے گھوڑے پر بیٹھ کر صفیں درست کرائیں۔

جنازے میں کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ بابا فضل کو لحد میں اُتارتے وقت بابا جی کی وصیت کے مطابق ستار کا ساز بجایا گیا۔ آج میں وسیم کے ہمراہ بابا فضل کے مزار کی طرف جا رہا تھا۔ مزار کی طرف مڑنے والی سڑک پر ایک کُھلی جگہ ہم نے گاڑی کھڑی کر دی کیونکہ یہاں سے آگے تنگ بازار تھا جہاں دونوں طرف مٹھائی، جلیبی، پکوڑے بن رہے تھے۔ ایک میلے کا سا سماں تھا‘ حالانکہ یہ عام دنوں میں سے ایک دن تھا۔ جوں جوں میں بازار میں آگے بڑھتا ہوا مزار کی طرف جا رہا تھا‘ قوالی کی آواز بلند ہوتی جا رہی تھی۔ اب میں مزار کے بالکل قریب پہنچ چکا تھا۔ مزار کے بائیں ہاتھ باب الفضل کے نام سے ایک دروازہ بنایا گیا ہے۔ اب میں مزار کے سامنے تھا‘ جو فنِ تعمیر کا دلکش نمونہ ہے۔ مزار کے اندر لوگ آ‘ جا رہے ہیں۔ میں ے دیکھا‘ بابا فضل کلیامی کی قبر کے ارد گرد اور چھت پر خوبصورت نقوش ہیں اور آیات لکھی ہیں۔ میں نگاہ اُٹھا کر دیکھتا ہوں مرد، عورتیں، بچے، بوڑھے اور جوان جوق در جوق آ رہے ہیں۔ میں مزار کے صحن میں بیٹھے سوچ رہا ہوں۔ یہ 19ویں صدی کی کہانی تھی اور اب اکیسویں صدی ہے۔ درمیان میں دو صدیوں کی طویل مسافت ہے‘ لیکن جذبوں کی فراوانی ہے کہ کم ہونے میں نہیں آ رہی۔ عشق کا چراغ‘ جو بابا فضل نے پوٹھوہار کے ایک چھوٹے سے گاؤں میںجلایا تھا‘ اس کی ضیا اب دور دور تک پھیل چکی ہے۔ مجھے یوں لگا‘ میاں محمد بخش کا یہ شعر بابا فضل کی زندگی کی تصویر بن گیا ہے۔
بال چراغ عشَق دا میرا‘ کر دے روشن سینہ
دل دے دیوے دی رُشنائی جاوے وچ زمیناں

(اے میرے پروردگار تو میرے سینے میں عشق کا ایسا چراغ روشن کر دے جس کی تابانی سے میرا سینہ منور ہو جائے اور اس کی لَو اطرافِ عالم میں دور دور تک پھیل جائے) (ختم)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے