ن لیگ کو گیلانی کی جیت ہضم نہیں ہوئی، بلاول ، بلاول کی عمر کی زیادہ ہمارا تجربہ ہے،ابھی وہ سیاست سیکھیں ،احسن اقبال

پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میں اختلافات کی خلیج بڑھتی جارہی اور ان میں لفظی جنگ تیز ہوگئی ہے ،دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر تواتر کے ساتھ وار کررہے ہیں۔پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے ہر معاملے میں آر پار نہیں ہوتا ،صرف ہماری پارٹی ہی پی ٹی آئی کی مخالفت کررہی ہے ، باقی دوست اپوزیشن سے اپوزیشن میں مصروف ہیں ، صورتحال کا فائدہ عمران خان کو پہنچ رہا ہے ، شہباز شریف اور حمزہ شہباز سے رابطے رکھیں گے ۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے جنرل سیکرٹری احسن اقبال نے کہا ہے بلاول بھٹو پارٹی کے چیئرمین ضرور ہیں مگر ان کی اتنی عمر نہیں جتنا ہمارا تجربہ ہے وہ ابھی سیاست سیکھیں۔خیر پور میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی جیلانی ہاؤس آمد ہوئی، سیّد قائم علی شاہ سے ان کے صاحبزادے مظفر علی شاہ اور صاحبزادی نجمہ شاہ کے انتقال پر تعزیت کی۔

بعد ازاں سابق وزیراعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بلاول نے کہا شہبازشریف قومی اسمبلی جبکہ حمزہ شہبازپنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، پارلیمانی سیاست کرتے ہوئے ہمیں قائد حزب اختلاف سے رابطہ رکھنا پڑے گا۔ ہمیں نااہل حکومت پرتوجہ دینی چاہئے ۔ ان کا کہنا تھا ہم ملک میں نیا اورشفاف الیکشن چاہتے ہیں ، ماضی کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کے خلاف دھاندلی ہوئی، شفاف الیکشن کل اورآج بھی ہماری پالیسی ہے ، ہم نے کبھی قومی حکومت بننے یا کسی کی مدت پوری ہونے کا اشارہ دیا نہ دونگا، دوسری جماعتوں نے شائد ایسی باتیں کی ہیں۔ان کا کہنا تھا پیپلزپارٹی کا ماضی سب جانتے ہیں ہم ڈیل کی سیاست نہیں کرتے ۔

ہمیں ڈیل کے الزامات ایک دوسرے پرنہیں لگانے چاہئیں۔ میرے کارکنوں کے پی ڈی ایم کے بارے میں کچھ سوالات ہیں لیکن اس پرزورنہیں دیتے ۔ غلط بیان بازی اپوزیشن کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگی، میں بھی اچھے طریقے سے جواب دے سکتا ہوں لیکن اب تک نہیں دے رہا۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ن لیگ کوآج بھی وہی مشورہ ہے کہ حوصلے سے سیاست کرے ،لگتاہے (ن)لیگ کویوسف رضاگیلانی کی جیت ہضم نہیں ہوئی،مسلم لیگ (ن)کوبھی پیپلزپارٹی کی کامیابی پرخوش ہوناچاہئے ۔پیپلز پارٹی کے چیئر مین کا کہنا تھا ہرصوبے میں جا کر بہت محنت کی اورپی ڈی ایم کی بنیاد رکھی، آج بھی چاہتا ہوں اپوزیشن جماعتیں ملکرکام کریں، اپوزیشن ملکرمقابلہ کرے گی توعمران اپنی مدت پوری نہیں کرسکے گا، وزیراعظم کی اکثریت قومی اسمبلی میں بے نقاب ہوچکی تھی۔ انہوں نے کہا یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ جب یہ قومی اسمبلی میں ہل گئے تھے اور ان کی الٹی گنتی شروع ہو گئی تھی تو آپ اسی دن فیصلہ کرتے کہ پنجاب اور اس کے بعد قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لا رہے ہیں اسی وقت عمران خان ، بزدار اور کٹھ پتلی نظام چلا جاتا اور پورا کا پورا سیٹ اپ ختم ہوجاتا۔انہوں نے کہا ہمیں آپسی چھوٹے موٹے مسائل کو ایک طرف رکھ کر حکومت پر توجہ مرکوز رکھنی چاہئے اور حکومت کی مخالفت کرنی چاہئے ، یہ پاکستان پیپلز پارٹی کی پہلے دن سے کوشش تھی اور میں اسی کوشش میں لگا رہوں گا کہ پوری اپوزیشن کی توجہ اس نالائق، نااہل اور کٹھ پتلی حکومت پر مرکوز رکھوں کیونکہ اس حکومت کی وجہ سے پورا پاکستان پریشان ہے ۔

انہوں نے کہا مسلم لیگ(ن)جس کو بھی مذاکرات کیلئے نامزد کرے گی ہم اس سے مذاکرات کے لیے تیار ہیں اور اس بات میں کوئی حقیقت نہیں ہے کہ ہم کسی لڑائی میں پڑنا چاہتے ہیں۔امید ہے مولانا فضل الرحمن اپوزیشن کے درمیان اتحاد میں اضافے کے لیے غیر جانبدار اور سنجیدہ کردار ادا کریں گے ۔انہوں نے کہا کچھ جماعتیں پراپیگنڈا کر کے پیپلز پارٹی کو ایسے پیش کرنے کی کوشش کررہی ہیں کہ جیسے ہم نے کوئی ڈیل کی ہو لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہم اس قسم کی سیاست نہیں کرتے ۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی جلد صحتیابی کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ وہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ ہیں جن پر بہت اہم ذمے داری ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کو ساتھ رکھیں اور کسی ایک جماعت کا ساتھ نہ دیں۔ مولانا فضل الرحمن کے پاس بہت تجربہ ہے وہ چھوٹی موٹی جماعتوں کے اختلاف رائے کی وجہ سے اپنے اتحاد کو نقصان نہیں پہنچانے دیں گے ۔مسلم لیگ(ن) کو بھی میرا مشورہ ہے کہ وہ تحمل مزاجی کے ساتھ سیاست کرے ہر وقت آر یا پار کی سیاست نہیں چلتی، آپ کو بہت سنجیدگی اور ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ فیصلے لینے چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا معاشی و خارجہ پالیسیوں کے فیصلے پارلیمان میں ہونے چاہئیں، اس وزیراعظم کومسلط کیا گیا اس میں ملک چلانے کی صلاحیت نہیں ، حکومت کی کنفیوژن کا نقصان عوام بھگت رہے ہیں ، بطور کامرس منسٹر عمران خان کہتا ہے بھارت سے تجارت بحال کی جائے ، کابینہ کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کہتا ہے ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں ، یہ کس قسم کی کنفیوژن اورکیسی فارن پالیسی ہے ؟ شہید بھٹونے کہا تھا کہ نیند میں بھی کشمیرپالیسی پرغلطی نہیں کریں گے ، امریکا کی ماحولیاتی کانفرنس میں بھی ان کودعوت نہیں دی گئی، سی پیک کوبھی پس پشت ڈال دیا گیا، بھارت نے کشمیرکا سٹیٹس تبدیل کردیا، وزیراعظم قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکرکہتے ہیں کیا کروں، آج تک کسی کونہیں پتا چلا وزیراعظم کی پالیسی کیا ہے ۔ان کا کہنا تھا سٹیٹ بینک آرڈیننس کی ہرفورم پرمخالفت کریں گے ۔ سٹیٹ بینک پاکستان کی عدالت ، پارلیمنٹ کو نہیں صرف آئی ایم ایف کوجوابدہ ہوگا۔ پی ٹی آئی، آئی ایم ایف ڈیل کے نتیجے میں غریب عوام کوتکلیف پہنچے گی، ریلیف صرف امیروں کے لئے ہے ، پی ٹی آئی، آئی ایم ایف ڈیل سے خودمختاری کھودی۔ انہوں نے کہا ہم معاشی طور پر بنگلہ دیش اورافغانستان سے بھی پیچھے ہیں بس مہنگائی اور بے روز گاری میں آگے ہیں ۔

دوسری طرف مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے کہا بلاول کی اتنی عمر نہیں جتنا ن لیگ کا تجربہ ہے ، دنیا نیوز کے پروگرام‘‘اختلافی نوٹ’’میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا پی ڈی ایم کے قیام کا مقصد ملکرجدوجہد کرنا تھا،اب گول کرنے کا وقت تھا توپیپلزپارٹی نے فلورکراس کرکے حکومت کے ساتھ ہاتھ ملالیا،اب واضح ہوگیا ہے کہ 7مسترد ہونے والے ووٹوں پرپیپلزپارٹی نے ناموں پرمہرلگائی،باپ پارٹی کوساتھ ملاکرلیڈرآف دی اپوزیشن کا عہدہ حاصل کیا گیا،پورا پاکستان جانتاہے کہ‘باپ’پارٹی کس نے بنائی تھی؟سپیکرکے طرزعمل کی وجہ سے کسی کمیٹی میں شرکت نہیں کریں گے ،ہمارے تمام فیصلے پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم سے ہوں گے ،پیپلزپارٹی نے یکطرفہ طورپرسپیکرقومی اسمبلی سے ملاقات کی،پیپلزپارٹی نے سولوپروازکی۔ احسن اقبال نے کہا پی ڈی ایم کوئی انتخابی اتحاد نہیں بڑے مقصد کے لئے اکٹھے ہوئے تھے ،ہم نے اتنی طویل جدوجہد کی،تمام جماعتیں ملکرلانگ مارچ کے ساتھ استعفے دیتیں تونظام ریت کی طرح گرجاتا،نوجماعتیں ایک طرف اکیلی پیپلزپارٹی ایک طرف تھی،باپ پارٹی سے الحاق سے پیپلزپارٹی والے خود بھی پریشان ہوئے ،بلاول پارٹی کے چیئرمین ضرورہیں لیکن ان کو ابھی سیاست سیکھنی ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا اسٹیبشلمنٹ کی حمایت کے بغیر تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کی نظیرنہیں ملتی،پانچ یا چھ سیٹوں کے ساتھ پیپلزپارٹی پنجاب میں کس عدم اعتماد کی بات کررہی ہے ۔

پانچ چھ سیٹوں والی پارٹی عدم اعتماد کی چیمپئن بن رہی ہے ۔ہم سب کا تجربہ شائد بلاول بھٹوسے زیادہ ہے ،مسلم لیگ میں کوئی دھڑے بازی نہیں،ہمارا ہدف یہ نظام ہے ،سینیٹ میں عدم اعتماد کی تحریک کی تجویز پیپلزپارٹی کی طرف سے آئی جب پیچھے مڑکردیکھا توپیپلزپارٹی غائب تھی،بلاول پی ڈی ایم کوبنانے کا کریڈٹ لے رہے ہیں،اب جب گول کرنے کا وقت آیا توپیپلزپارٹی غائب ہوگئی۔ہم نے بال ایسے ہی سفید نہیں کیے ہمیں پتا ہے کیا چالیں چلی جارہی ہیں،اگرہم استعفے دیدیں توپیپلزپارٹی،ق لیگ کوضمنی الیکشن جتوادیا جائے ،ہم اتنے بھولے نہیں،ہم بھی نفع نقصان دیکھ کراستعفوں کا فیصلہ کریں گے ،کسی کے ساتھ کوئی ڈیل کررہا ہے یا نہیں ہرجماعت بتاسکتی ہے ۔

انہوں نے کہا نواز شریف کی واپسی کے حوالے سے پیپلز پارٹی وہی بات کررہی ہے جو پی ٹی آئی کرتی ہے ،اس سے ہم پریشان ہیں ۔پیپلزپارٹی ‘باپ’ پارٹی سے نہ ملتی تواستعفے نہ دینے کے باوجودایک بھرم رہ جاتا،پیپلزپارٹی بتائے نوازشریف سے کونسا استعفیٰ لینا چاہتی ہے ،نوازشریف اس وقت اسمبلی میں نہیں،نہ کوئی عہدیدارہیں، نوازشریف کواستعفوں کے ساتھ نتھی نہیں کرنا چاہئے ،نوازشریف کی واپسی کی بات کرنا ہمارے لیے دکھ کی بات ہے ،نوازشریف علاج کے لیے لندن گئے ،مریم نوازنے کہا حکومت کے علاج تک یہیں رہوں گی تواس بات کویہیں ختم کردینا چاہئے ۔ انہوں نے کہا بلاول حمزہ شہبازکا نام لیکرچالاکی کررہے ہیں وہ سمجھتے ہیں (ن)لیگ کے اندرکوئی تقسیم یا کوئی شطرنج کھیل سکیں گے توان کی ابھی اتنی عمرنہیں۔ٹی وی سے گفتگو میں احسن اقبال نے کہا پیپلز پارٹی کا مرکزی مجلس عاملہ (سی ای سی) کا اجلاس ملتوی کرنا پی ڈی ایم چھوڑنے کا اعلان ہے ۔

ان کا کہنا تھاشائد پیپلزپارٹی نے پی ڈی ایم سے الگ سیاست کا فیصلہ کرلیا ہے اس نے جو کچھ کیا اس پر ہمیں افسوس ہوا وہ بلوچستان عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی کے ساتھ الائنس بناکر عملاً پی ڈی ایم سے علیحدہ ہوچکی۔اگر ن لیگ کے 81 ووٹ نہ پڑتے تو یوسف رضا گیلانی سینیٹر نہ بن پاتے ۔ سی ای سی کا اجلاس ملتوی کرنا واضح پیغام ہے وہ کوئی حتمی بات نہیں کرنا چاہتے ۔مسلم لیگ (ن)پنجاب کے صدر رانا ثنا اللہ نے کہا پیپلز پارٹی کی بے اصولی قابل معافی نہیں، پیپلزپارٹی بے اصولی پر قائم رہی تو اس کا پی ڈی ایم کے ساتھ چلنا مشکل ہوجائے گا۔پیپلزپارٹی سینیٹ کے معاملے پر اپنی غلطی تسلیم کرے ۔ ہفتہ کو لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ نے کہا ڈسکہ الیکشن میں ووٹ چور حکومت پکڑی گئی، یہ لوگ وہ ہیں جو چور چور کا شور مچاتے ہیں اور خود چوری کرتے ہیں، 20 پریذائیڈنگ افسران جس فارم ہاؤس میں رکھے گئے ان 20 ا فسران کو نوکری سے برطرف کرکے ان کے مالک کو گرفتار کیا جائے ، ڈسکہ الیکشن چرانے میں وزیراعظم اور وزیراعلیٰ خود ملوث ہیں، ان کو نااہل قرار دیکر سزا د ی جائے ۔

انہوں نے کہا کہ ڈسکہ کا فیصلہ حکومت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگا، پی ڈی ایم ووٹ چور کے خلاف متحد ہے ، پی ڈی ایم حکومت کے خلاف جدوجہد جاری رکھے گی، ہم خاموش رہ کر حکومتی انتقامی کارروائیوں کا حصہ نہیں بننا چاہتے ۔ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ آئین کی عملداری کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، دھکے اس لئے کھارہے ہیں کہ اس ملک میں آئین اور قانون کی عملداری نہیں، استعفوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی کی رائے کا احترام کرتے ہیں، پیپلزپارٹی نے سینیٹ میں اپوزیشن لیڈرکے لئے جس طرح ووٹ لئے وہ غلط تھا۔پیپلزپارٹی کی بے اصولی قابل معافی نہیں اس پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے