مسلمان اہلِ مذہب کا تصورِ مذہب

ماہ مبارک رمضان کی آمد آمد ہے، ایسے میں وطن عزیز پاکستان میں اس مبارک مہینے میں لوٹ کھسوٹ، اشیا خرید و فروخت میں ملاوٹ، بے ایمانی اور گراں فروشی کا دھندہ عروج پر ہوگا، اس بابت عرض کیا کہ یہ سب، مذہبی تعلیمات کے منافی ہے تو بڑی تعداد میں مسلمان اہل مذہب نے اختلاف کیا- بعض مسلمان اہل مذہب کا سمجھنا ہے کہ مذہب، صرف مذہبی عقائد کو ماننے کا نام ہے، اس کا عمل سے کوئی تعلق نہیں ہے- ان کے مطابق اگر ایک بندہ اللہ کو ایک اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتا اور کلمہ ” لا إله إلا الله، محمد رسول الله ” پڑھ لیتا ہے تو وہ کامل مسلمان ہے- ان کے ہاں اسلام صرف کچھ عقائد کو ماننے کا نام ہے-

بعض دیگر مسلمان اہل مذہب سمجھتے ہیں کہ دینِ اسلام صرف عبادات تک محدود ہے- ان کی دانست میں، اگر ایک بندہ اسلامی عقائد کو مانتا اور عبادات جیسے نماز، روزہ وغیرہ بجا لاتا ہے تو وہ کامل مسلمان ہے- رہی بات معاملات کی، ان کا مذہب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے- ان کا کہنا ہے کہ اشیا خرید و فروخت کی قیمتوں کا تعین، منڈی کے اصول طلب و رسد کے مطابق ہوتا ہے؛ چونکہ ماہ رمضان میں اشیا کی خریداری بڑھ جاتی ہے، اس لیے قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے- ہم نے عرض کیا کہ اس اصول کی رو سے بھی اشیا میں ملاوٹ کرنے جیسے دودھ کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے لیے اس میں پانی اور دیگر اشیا ملا کر "خالص دودھ” کَہ کر بیچنے کا جواز تو پیدا نہیں ہوتا؛ تاہم بعض دوستوں کی دانست میں ایسے معاملات کا مذہب اور مذہبی تعلیمات سے کوئی تعلق نہ ہے-
میری دانست میں وقت کے ساتھ، مسلمان اہل مذہب کا تصورِ مذہب سکڑتا اور اُن الحادی قوتوں جیسا ہوتا جا رہا ہے، جن کی دانست میں مذہب صرف عبادات تک محدود ہے، جس کا عملی زندگی سے کچھ لینا دینا نہیں ہے-

جس اسلام کو میں بطورِ دین مانتا ہوں، وہ زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے پیروکاروں کی ہدایت کرتا ہے- پیغمبرِ اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں عقائد و عبادات کی تعلیم دی، وہیں تجارت کے اصول و ضوابط بھی بتائے- قرآن مجید میں سورہ المطففین، خرید و فروخت میں بے ایمانی سے روکنے کے لیے نازل ہوئی- بڑی تعداد میں ایسی احادیث موجود ہیں جن میں اشیا خرید و فروخت میں ملاوٹ کرنے سے سختی سے روکا گیا ہے- ایک حدیث کہ جسے بنیادی کتبِ احادیث میں درج کیا گیا:
من غش فليس منا
ہے، یعنی جس نے ملاوٹ کی، لین دین میں دھوکہ دیا وہ ہم (مسلمانوں) میں سے نہیں ہے-

رشوت لینے اور دینے کی شدید مذمت کی گئی ہے، ایک حدیث میں ہے:
الراشي والمرتشي كلاهما في النار
کہ رشوت لینے اور دینے والا، دونوں جہنمی ہیں-

قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ایمان لانے اور اچھے اعمال بجا لانے کا ذکر ایک ساتھ کیا گیا ہے- بطور مثال سورہ العصر کو ہی دیکھ لیجیے جس میں ارشاد ہے کہ انسان گھاٹے میں ہے، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک اعمال انجام دیئے—

قرآنی تعلیمات اور نبوی تصریحات اس تصورِ دین کی تائید نہیں کرتیں جس کا تعلق صرف بعض عقائد کو مان لینے سے عبارت ہے-

اسلامی تعلیمات کی رو سے جہاں حقوق اللہ کی اہمیت ہے، وہیں حقوق العباد کی بھی اہمیت ہے، جیسے نماز پڑھنا ضروری ہے، ویسے سچ بولنا اور خالص مال فروخت بھی ضروری ہے- اشیا کی ناجائز ذخیرہ اندوزی، قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرنا، مالی بد عنوانی، اسلامی تعلیمات کی رو سے کبیرہ گناہ ہیں-

سورہ ماعون کا ایک بار مطالعہ کیجیے گا، انسان کے بعض اعمال اس کے مومن ہونے یا نہ ہونے کی عکاسی کیا کرتے ہیں- اس سورہ میں یتیموں کو دھتکارنے اور بھوکے، ضرورت مند غریبوں کو کھانا نہ کھلانے والوں کو، معاد (قیامت) کے جھٹلانے والوں میں قرار دیا گیا ہے-

ماہ مبارک رمضان جیسے ماہ نزول قرآن و ماہ صیام میں ضروری اشیا خرید و فروخت کی مصنوعی قلت کرنے والوں، ان کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ کرنے والوں، اُن میں ملاوٹ کرنے والوں اور جھوٹ بول کر اشیا کو بیچنے والوں کو کیسے "کامل مسلمان” سمجھا جا سکتا ہے، جبکہ ان کے اعمال، اسلامی تعلیمات کے صریح منافی ہیں-

کیا اللہ تعالیٰ کی جھوٹوں پر لعنت قرآن میں نہیں ہے؟ کیا ماہ مبارک رمضان میں پانی اور کیمیکل ملے دودھ کو "خالص” کَہ کر بیچنے والا گوالہ، اس لعنت کا مستحق قرار نہیں پائے گا؟ کیا دھوکے باز، تاجر "کامل مسلمان” قرار پائے گا؟
سوچیے، سوچیے اور خوب سوچیے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے