پاسر پیرزادہ کی مکمل تحریر : ایک درویش صفت عورت کی کہانی

میں نے کتاب اٹھائی اور بے دلی سے پڑھنی شروع کی، جوں جوں میں کتاب پڑھتا گیا توں توں میری حیرت میں اضافہ ہوتا گیا اور میں نے ایک ہی نشست میں وہ کتاب پڑھ ڈالی۔ آج اگر میں اپنی پسندیدہ کتابوں کی فہرست بناؤں تو یہ کتاب لازماً اُس میں شامل ہوگی ۔

کتاب کا نام ہے Something out of Nothing یہ کتاب ویسے تو میری کیوری کی زندگی کے متعلق ہے مگر اصل میں یہ درویشی کی ایک داستان ہے جو ہر اُس شخص کو پڑھنی چاہیے جسے سائنس اور تصوف دونوں سے شغف ہے اور یہ اُن لوگوں کے لیے بھی ضروری ہے جو نا مصائب حالات کو اپنی ناکامی کا جواز بنا کر پیش کرتے ہیں۔

یہ اُس عورت کی کہانی ہے جو بدترین حالات میں پیدا ہوئی مگر جب دنیا سے گئی تو دو نوبل انعام سمیٹ کر گئی، ایسا کارنامہ جو تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی نے انجام دیا۔

میری کیوری پولینڈ میں اُس زمانے میں پیدا ہوئی جب پولینڈ یورپی ممالک کے درمیان تقسیم ہو چکا تھا، نقشے پر اُس کا وجود مٹ چکا تھا اور پولش اسکولوں میں زبردستی روسی زبان اور تاریخ پڑھائی جاتی تھی۔

ایسے ہی ایک اسکول میں جہاں میری پڑھتی تھی روسی انسپکٹر تعلیم دورے پر آیا، دس سالہ میری اُس وقت بھی اپنی جماعت کی سب سے ذہین طالبہ تھی، انسپکٹر نے اُس سے کچھ سوال پوچھے جن کا اُس نے ٹھیک ٹھیک جواب دیا، پھر انسپکٹر نے آخری سوال کیا:’’بتاؤ ہم پر کون حکومت کرتا ہے؟‘‘بد قت تمام میری کے منہ سے نکلا:’’زار روس ، عزت مآب الیگزنڈر دوئم!‘‘انسپکٹر مطمئن ہو کر واپس چلا گیا۔

دورے کے بعد میری کے پولش استاد نے اسے بلایا، ’یہاں آؤ میری بچی ‘ اور پیار سے اُس کا ماتھا چوما تو میری کی آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا۔ یہ میری کی طلاطم خیز زندگی کی شروعات تھی۔

میری کی ماں کو ٹی بی تھی، وہ اپنے بچوں کو پیار نہیں کر سکتی تھی کہ کہیں انہیں بیماری نہ لگ جائے۔ باپ اسکول میں استاد تھا جہاں اُس کی روسی افسر سے نہیں نبھتی تھی، اِس کشمکش میں میری کے باپ کا نقصان ہوا، اُس کی تنخواہ کم کر دی گئی اور گھر واپس لے لیا گیا۔

ناچار انہیں ایک اپارٹمنٹ میں منتقل ہونا پڑا اور آمدن بڑھانے کے لیے اِس اپارٹمنٹ میں کچھ لڑکوں کو کرائے پر رہنے کے لیے جگہ بھی دینی پڑی۔ ایسے ہی ایک کرائے دار کو کوئی بیماری تھی جو میری کی دو بہنوں کو بھی لگ گئی، ایک بہن جانبر نہ ہو سکی اور چودہ سال کی عمر میں مر گئی۔ کچھ عرصے بعد ٹی بی سے ماں بھی مر گئی۔

چودہ سال کی عمر میں اُس کا اسکول بدل گیا، نئے اسکول میں تمام استاد روسی تھے جو پولش بچوں کو دشمن سمجھتے تھے۔ ایک مسئلہ میری کی بارہ سالہ بہن برونیا کا تھا جو پیرس جا کر ڈاکٹر بننا چاہتی تھی مگر پیسے کم پڑتے تھے۔ میری نے اسے کہا کہ وہ اپنی خواہش کے مطابق پڑھائی کرے، اِس دوران میری ملازمت کرکے اسے پیسے بھیجتی رہے گی، پھر جب برونیا ڈاکٹر بن جائے گی تو وہ اُس وقت میری کی مدد کر دے گی۔

میری کی عمر اُس وقت اٹھارہ برس تھی جب اُس نے اپنے شہر سے دور ایک گورننس کی نوکری تلاش کی اور کام میں لگ گئی۔ وہ نہ صرف نوکری کرتی بلکہ ساتھ ساتھ اپنی پڑھائی بھی کرتی، اُس وقت تک ریاضی اور طبیعات میں اُس کا رجحان واضح ہو چکا تھا۔

ایک دن میری کو پتا چلا کہ اُس چھوٹے سے شہر میں بہت سے ایسے بچے ہیں جو اسکول نہیں جا پاتے، میری نے انہیں پڑھانے کا ذمہ بھی اپنے سر لے لیا اور انہیں پولش زبان میں تعلیم دینے لگی۔ درویشی کی کوئی عمر تھوڑی ہوتی ہے!

پھر وہ وقت بھی آیا جب میری اپنی تعلیم کیلئے پیرس روانہ ہوئی۔ ضرورت کی تمام چیزیں اُس نے گھر سے باندھ کر پیرس بھجوا دیں تاکہ وہاں مہنگے داموں نہ خریدنی پڑیں ، سب سے سستا درجہ چہارم کا ٹکٹ لیا جس میں بیٹھنے کیلئے اپنی کرسی ساتھ لانی پڑتی تھی اور کھانے پینے کیلئے سامان گھر سے ہی لے لیا کہ یہ تین دن کا سفر تھا اور راستے میں خرید کر کھانا اُس کی استطاعت سے باہر تھا۔

پیرس آ کر اسے پہلی مرتبہ آزادی کا احساس ہوا، یہاں وہ بلا کسی خوف کے پولش زبان میں بات کر سکتی تھی، یہاں کسی روسی انسپکٹر کا ڈر نہیں تھا۔پیرس میں میری کی ملاقات ایک سائنس دان پیری کیوری (Pierre Curie) سے ہوئی جس نے میری کو شادی کی پیشکش کی ۔

یہ فیصلہ میری کیلئے بہت مشکل تھا، ایک طرف وہ پیرس میں اپنی ڈاکٹریٹ مکمل کرنے کی خواہش مند تھی تو دوسر ی طرف وہ مقبوضہ پولینڈ واپس جا کر اپنے ہم وطنوں کو تعلیم دینا چاہتی تھی۔ میر ی نے شادی کی پیشکش ٹھکرا دی اور وارسا واپس آ گئی۔

پیری کیوری نے ہمت نہیں ہاری اور میری کو خطوط لکھ کر اِس بات پر آمادہ کرنے کی کوشش کرتا رہا کہ وہ اکیلی پولینڈ میں کوئی تبدیلی نہیں لا پائے گی، ایک خط میں اُس نے لکھا کہ ’ہم دونوں مل کر سائنس کے ذریعے اِس دنیا کو بہتر جگہ بنا سکتے ہیں ۔‘

ستمبر 1894میں میری پیرس آ گئی تاکہ اپنی ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کر سکے اور پھر بالاخر 1895میں میری نے پیری کیوری سے شادی کر لی، میری کی ڈاکٹریٹ مکمل ہوئے اُس وقت چار ماہ ہوئے تھے ۔

نیا شادی شدہ جوڑا اپنے سادہ سے اپارٹمنٹ میں منتقل ہو گیا جس کی کُل آرائش ایک پلنگ، ایک میز، دو کرسیوں اور ایک لیمپ پر مشتمل تھی۔اپنی شادی پر انہیں جو سلامی ملی تھی اُس سے انہوں نے دو سائیکلیں خریدیں اور فرانس کی سیر پر نکل کھڑے ہوئے، یہ اُن کا مختصر سا ہنی مون تھا۔

1897میں میری کی تین سال کی تحقیق ختم ہوئی جو اُس نے فولاد کی مقناطیسی خصوصیات پر کی تھی، تحقیق کے معاوضے کے طور پر جو رقم ملی اُس سے اِس فرشتہ سیرت خاتون نے اپنے وظیفے کے پیسے واپس کر دیے حالانکہ وہ وظیفہ اسے تحفتاً ملا تھا اور وہ اِس ادائیگی کی قطعاً پابند نہیں تھی۔

اگر یہ وظیفہ اسے نہ ملتا تو وہ کبھی ریاضی میں ماسٹرز نہ کرپاتی، یہی سوچ کر اُس نے پیسے واپس کیے کہ اب یہ وظیفہ کسی ضرورت مند ہم وطن کے کام آ جائے گا۔

حالانکہ اسے چاہیے تھا کہ کپڑوں کا کوئی برینڈ لانچ کرتی اور باقی عمر عیش کرتی!

اگر آپ آج فارغ ہیں تو اردو لغت نکالیں اور اُس میں درویش، صوفی اور سالک کا مطلب تلاش کریں اور پھر اِسے میری کیوری کی زندگی پر منطبق کرکے دیکھیں، اِن الفاظ کے معنی خود بخود آشکار ہو جائیں گے۔

مادام کیوری وہ عورت تھی جو اگر چاہتی تو اپنی سائنسی دریافت کے ذریعے جائز طریقے سے کروڑوں ڈالر کما سکتی تھی مگر اُس نے ایسا نہیں کیا، اُلٹا جو انعامی رقم اسے زندگی میں ملی وہ فلاحی کاموں میں خرچ کر دی اور اپنی جمع پونجی سائنسی کی راہ میں لُٹا دی۔

درویشی کا عالم یہ تھا کہ نمود و نمائش اور شہرت سے دور بھاگتی تھی،کبھی کوئی پہچان لیتا تو کہتی کہ میں کیوری نہیں ہوں۔ ہم اکثر یہ دلیل دیتے ہیں کہ مغربی ممالک نے پہلے ایک مثالی نظام حکومت قائم کیا اور پھر وہاں سائنسی علوم کی سرپرستی شروع ہوئی۔ یہ دلیل شاید درست نہیں۔ جس قسم کی مشکلات میری کیوری کو اپنی سائنسی تحقیق کے دوران پیش آئیں اُن کی نوعیت بالکل ویسی تھی جیسی کسی عورت کو پسماندہ ملک میں پیش آتیں۔

اپنے شوہر کے ساتھ جب اسے پہلی مرتبہ نوبل انعام ملا تو لوگوں نے کہا کہ اصل کام تو مرد نے کیا ہو گا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ دونوں میاں بیوی جب لیبارٹری میں کام کرتے تو مشترکہ نوٹس لیتے اور لکھتے کہ ’آج ہم نے یہ دیکھا‘ یا ’آج ہم میں سے ایک نے یہ دریافت کیا‘!سائنس اُن کا عشق تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے عاشق تھے۔

میری کیوری نے اپنے شوہر کے ساتھ مل کر ایک گودام نما لیبارٹری میں تحقیق شروع کی اور دو نئے عناصر دریافت کیے۔ ایک کا نام،اپنے وطن کی پولینڈ کی نسبت سے،’پلونیئم‘ رکھا اور دوسرے کا نام ’ریڈیم‘۔1903میں پیآ کیوری کو لندن کے رائل انسٹیٹیوٹ میں ریڈیم کے موضوع پر لیکچر دینے کے لیے مدعو کیا گیا۔

بیسویں صدی کے لندن کا یہ حال تھا کہ کسی عورت کومردوں کے درمیان بیٹھ کر لیکچر نہیں سننے کی اجازت نہیں تھی اور عورت کے خطاب کرنے کا تو خیر تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔مگرمصیبت یہ تھی کہ میری نے ریڈیم دریافت کیا تھا اِس لیے مجبوراً رائل انسٹیٹیوٹ کو میری کو اجازت دینی پڑی اور یوں تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی عورت نے وہاں بیٹھ کر لیکچر سنا۔

1903 ہی وہ سال تھا جب میری کو اپنے شوہر اور معاون سائنس دان کے ساتھ نوبل انعام کے لیے نامزد کیا گیا۔بدقسمتی سے اُس سال کیوریز اپنا انعام وصول کرنے نہ جا سکے کیونکہ ریڈیم کی تحقیق کے دوران ہونے والے تابکاری کے اثرات نے انہیں بیمار کر دیا تھا۔

1906میں ایک حادثے میں میری کے شوہر کی جان چلی گئی،اِس بات نے میری کو ہلا کر رکھ دیا۔فرانس کی حکومت نے میری کو وظیفے کی پیشکش کی مگر میری نے کہا کہ ’میں ابھی اتنی جوان ہوں کہ اپنے اور اپنے بچوں کو خود کما کر کھلا سکتی ہوں۔‘ پھر میری کو ایک اور دریا کا سامنا کرنا پڑا۔

برطانیہ کے سائنس دان لارڈ کیلون نے لندن ٹائمز میں مضمون لکھا جس میں اُس نے دعویٰ کیا کہ ریڈیم کوئی عنصر نہیں ہے،بالآخر چار برس کی محنت شاقہ کے بعد 1910میں مادام کیوری نے خالص ریڈیم کو دنیا کے سامنے ثابت کردیا۔ لارڈ کیلون غلط تھا مگر اسے فوت ہوئے اب تین برس ہو چکے تھے۔

1911میں پیرس کے اخبارات نے میری کا سکینڈل شائع کیا جس میں الزام لگایا کہ اُس کا ایک شادی شدہ شخص کے ساتھ معاشقہ ہے۔ اِن خبروں نے میری کے خلاف ایک فضا بنا دی، لوگ اُس کے گھر کے باہر کھڑے ہو کر نفرت انگیز نعرے لگاتے اور کہتے کہ ’اِس غیر ملکی عورت کو باہر نکالو۔‘میری نے مگر کسی الزام کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھا۔

اِس دوران 7نومبر 1911کو میری کو ایک ٹیلی گرام موصول ہوا جس میں یہ خوشخبری تھی کہ اسے دوسری مرتبہ کیمسٹری کے شعبے میں نوبل انعام دیا جا رہا ہے۔بد قسمتی سے میری کا یہ کارنامہ اُس کے سکینڈل کے نیچے دب گیا۔

کون سی رات زمانے میں گئی جس میں میر
سینہ چاک سے میں دست و گریباں نہ ہوا

میری کیوری نے انسانیت کے لیے ایک ایسا کارنامہ انجام دیا جس کے لیے شاید وہ امن کے نوبل انعام کی بھی حقدار تھی۔پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو میری نے انعام میں ملنے والی رقم سے جنگ کے بانڈ خرید لیے حالانکہ اسے اچھی طرح علم تھا کہ جنگ کے بعد ان کی قدر ایک ٹکے کی بھی نہیں ہو گی۔اُس نے اپنے تمام طلائی تمغے بھی حکومت کو عطیہ کر دیے مگر حکومت نے وہ قبول نہیں کیے۔

میری کو پھر بھی چین نہیں آیا۔اُس نے سوچا کہ جنگ کے دوران زیادہ تر اموات بر وقت ایکس رے نہ ہونے کی وجہ سے ہوتی ہیں تو کیوں نہ ایکس رے مشینیں بنائی جائیں۔ پہلے اُس نے خود ایکس رے کرنا سیکھا اور پھر دوسروں کو سکھایا،اپنی سترہ برس کی بیٹی کو بھی۔اِس بیٹی نے بعد ازاں اپنے شوہر کے ساتھ ایک اور نوبل انعام جیتا۔

جنگ کے دوران میری کیوری نے ہلال احمر کی مدد سے ایک ٹرک کو موبائل ایکس رے یونٹ میں تبدیل کیا۔اِس کا فائدہ یہ ہوا کہ کہیں بھی جھڑپ ہو تو وہ اپنا موبائل یونٹ لے کر قریبی اسپتال میں پہنچ جاتی جہاں زخمی لائے جاتے اور پھر تیس منٹ کے اندر اندر ایکس رے روم بنا کر پہلے مریض کا ایکس رے کرنے کے لیے تیار ہو جاتی۔

میری نے بہت جلد اِن اسپتالوں میں ایکس رے یونٹ بنا دیے بلکہ دو سو لوگوں کی تربیت بھی کر دی تاکہ وہ میری کی مدد کے بغیر یہ ایکس رے یونٹ چلا سکیں۔یوں میری نے بیس ایکس رے یونٹ بنائے۔ جنگ ختم ہوئی تو پتا چلاکہ میری کیوری کے تیار کردہ موبائل ایکس رے یونٹ اور اسپتالوں میں اس کے تربیت یافتہ لوگوں نے قریباً دس لاکھ زخمیوں کا ایکس رے کیا اور قیمتی جانیں بچائیں۔

سوال یہ ہے کہ کیا اللہ، جو اِس کائنات کا سب سے بڑا منصف ہے،میری کیوری کو اپنے تمام نیک کاموں سمیت محض اِس وجہ سے جہنم میں ڈال دے گا کہ وہ کلمہ نہیں پڑھ سکی تھی؟ اور کیا وہ شخص جنت میں جائے گا جو ظاہری حلیے سے مسلمان ہے مگر چار چار برس کی بچیوں کا ریپ کرتاہے؟قران سے دلیل ملتی ہے کہ ایسا نہیں ہے۔

نوٹ: اِس کالم میں بیان کیے گئے تمام واقعات اور حقائق Carla Killough کی کتاب Something out of Nothing سے لیے گئے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے