جنم دن پر آپ کے نام ایک مسکراتی سی تحریر

میرے دنیا میں آنے سے نہ تو نور کی کرنیں بکھریں ، نہ موتیے کی خوشبو میں اضافہ ہوا، نہ گلاب کی رنگت میں گہرا پن آیا ، نہ ٹھہرے پانیوں میں ارتعاش پیدا ہوا، نہ ہی سمندر کی موجوں میں طغیانی آئی ، نہ شب انتظار مختصر ہوئی ، نہ ہی جلتے دیے بند ہوئے ، نہ چراغوں کی روشنی میں کمی ہوئی ، نہ طوع سحر ہوئی ، نہ شمس وقمر جھکے ، نہ شجر وحجر گرے ، نہ چاند پر چرخا کاتتی بڑھیا کی مشکلات کم ہوئیں ۔ میری پیدائش کا ذکر نہ کسی الہامی کتاب میں آیا ۔ میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ذکر تودور کہیں اشارتا ذکر بھی نہیں ہوا۔

میں خاموشی سے بس پیدا ہو گیا تھا لیکن میری پیدائش میری ماں کے لئے شب قدر سے کم نہیں تھی ، میرا جنم میرے والد محترم کے لیے موتیے کی خوشبو سے بڑھ کر تھا ۔ میری دادی کے لیے میں نہیں بلکہ نور کی کرن طلوع ہوئی تھی ۔ بڑے بھائی کے لیے وقت پاس کرنے کا سامان ،،وہ بہت خوش ہوئے تھے ۔

امی کی روایت ہے کہ تمھاری پیدائش کے دوسرے روز لوگ مبارک بادیں دینے کے لئے آئے، لیکن جو خاتون صبح سب سے پہلے آئیں ، وہ ہمارے پڑوس میں رہتی تھیں سید زادی تھیں اورشیعہ مسلک سے تعلق رکھتی تھیں ،انہوں نے مجھے اٹھایا ، ماتھے پر بوسہ دیا سبوخ نام رکھ دیا ۔ ان کے بعد میرے جنم کی مبارک باد دینے ڈھول بجاتی خدا کی کلیاں خواجہ سرا آئے تھے ۔

میں اپنی زندگی میں شادی کے علاوہ کچھ نہیں کر سکا ، یہ دعویٰ اس لیے کیا کہ ابو نے نکاح کے وقت مجھ سے ہی پوچھا تھا کہ ، قبول ہے؟

اس وقت زندگی میں پہلی بار مجھے اپنے اختیارات اور توانائی کا بھر پور احساس ہوا کہ میری ایک "ناں ” سے پلک چھپکتے ہی کم از کم تیس چالیس لاکھ روپے کا نقصان ہو سکتا ہے ، میں نے بھی حجة اللہ البالغہ پڑھی ہوتی تھی ، مجھے احساس تھا کہ کہ میں ناں کر کے کس "کیمائے سعادت” سے محروم ہو رہا ہوں اور اپنا نام "کتاب الحیوان” میں درج کرا رہا ہوں ۔ مختصر یہ کہ میں نے اس وقت اپنے سر اقدس کو ہلکی سی جنبش دی اور پاکیزہ فلم کی نازک ہیروئین کی طرح شرماتے ہوئے ہاں کہہ دیا ۔

میں عرض کر رہا تھا کہ میں آج تک کچھ بھی نہیں کر سکا ۔ نہ میں واسکو ڈے گاما کی طرح امریکا دریافت کر سکا ، نہ ابن بطوطہ کی طرح جوتے پاؤں میں پہننے کے بجائے بغل میں دبائے دنیا و ما فیھا کا سفر کر سکا ۔ نہ البیرونی کی طرح الجبرے کے کلیے دریافت کر سکا ۔ ہمارے واش روم میں ٹب تھا ہی نہیں اور ہم بالٹی میں پانی نلکے سے ذخیرہ کر کے نہاتے تھے ،جس کی وجہ سے میں ارشمیدس جیسے اصول وضع نہ کر سکا ۔ میری پیدائش سے پہلے پہلے تمام بڑی دریافتیں ہو چکی تھیں ، چھوٹے کاموں کا کبھی شوق ہی نہیں رہا سو میرے لئے کچھ بچا ہی نہیں تھا جو میں کرتا ۔ میری حالت تو یہ ہے کہ میں آج تک تربوز کا ملک شیک بھی نہیں پی سکا ۔

میں کرتا بھی تو کیا کرتا ، جو کچھ میں نے سوچا تھا ، وہ سب مجھ سے صدیوں سے پہلے افلاطون ، ارسطو ، سقراط ، بقراط کہہ چکے تھے ۔ کر چکے تھے ۔

فلفسے کی جو گھتیاں میں نہ سلجھا سکا ، وہ مجھ سے پہلے والے بھی نہ سلجھا سکے ، اس لیے میں نے اس فضول اور سعی لاحاصل میں ٹانگ اڑانے کی کوشش ہی نہیں کی ۔

میں کوئی اچھا موسیقار بھی نہیں بن سکا ،اس کی وجہ یہ تھی کہ اس ملک میں موسیقار کو کنجر اور مراثی کہا جاتا ہے ۔

قدرت نے یہاں میرے ساتھ ایک ہاتھ نہیں بلکہ دو دو ہاتھ کیے ، جتنے اچھے موسیقار تھے ، وہ مجھ سے پہلے پیدا کر دیے گیے ۔ یوں آپ کو بری موسیقی سننے کو ہی نہیں ملی اور آپ اچھی موسیقی کی پہچان سے محروم ہو گئے ۔ لیکن خیر اس عالم رنگ و بو میں میرے لئے یو ٹیوب پر وہ پرانی موسیقی رکھ دی گئی ہے جو میں بھی ہوں اور تم بھی ہو۔

محدود خواہشات کی وجہ سے میں ملک ریا ض نہ بن سکا ، میری بزدلی کی انتہا ملاحظہ فرمائیے کہ میں ملک ریاض سے ایک پلاٹ بھی نہ حاصل کر سکا جو وہ صحافیوں ،سیاستدانوں ، جرنیلوں اور ججوں کی شکلیں دیکھ دیکھ کر پھینکتے پھر رہے تھے ۔

میں نے بدنامی کے خوف کے سبب امی اور ابو کے پیسے چرانے کے علاوہ کوئی نمایاں چوری بھی نہ کی اور چھوٹو گینگ کا رکن بننے سے رہ گیا ۔ مجھ پر کسی تھانے میں ایف آئی آر کٹی اور نا ہی مجھے جیل ہوئی ۔ میں قتل کے خوف اور جیل کی وجہ سے بڑا لیڈر بھی نہ بن سکا ۔

کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے اور پھر میں سوچتا ہوں کہ ہائے اللہ کیسا کیسا خیال آتا ہے اور میں اپنی ہی بانہوں میں سمٹ سمٹ کر خود سے ہی چپکتارہتا ہوں۔

میں اتنا کمزور آدمی ہوں کہ آج تک کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا ، اتنی کوششوں اور خواہشات کے باوجود خود بھی نہ بگڑ سکا ، مجھ میں سیکھنے کی صلاحیت بہت سست واقع ہوئی ہے ، میرے دوست میرے سامنے بگڑتے رہے اور میں ان سے کچھ نہ سیکھ سکا ۔

اپنی زندگی سے الحمدللہ مطمئن ہوں ۔ خوش ہوں ، بہت ہی خوش ، کسی سے لڑا ہوں تو ٹکا کر لڑا ہوں ، کسی کا ساتھ دیا تو دل جلا کر ، کسی کو سنائی ہیں تو پورے جگر کی توانائی کے ساتھ ، پنگا لیا تو اسے گھر تک پہنچا کر چھوڑا ۔ کسی طاقتور سے پھڈا ہوا تو فورا سوری کہہ کر گاڑی میں جا بیٹھا ، مسکراتے ہوئے گاڑی کا شیشہ چڑھایا اور مسکراتے مسکراتے اسے خوب گالیاں دیں ، وہ بھی میرے اخلاق کی داد دیتے ہوئے مسکراتے ہوئے نکل گیا ۔ اگر کہیں میری غلطی ثابت ہو گئی تو ” مغلوط ” سے خود کو زبردستی معاف کروا لیا ۔

کبھی منافقت نہیں کی ، اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ میں نے کبھی کسی کے منہ پر اس کے خلاف کوئی بات نہیں کی ، جونہی وہ اٹھ کر گیا ، تب جا کر کہیں اس کے خلاف منہ کھولا کہ کہیں سچ سن کر اس کا دل نہ دکھے ۔ کیونکہ میں نے پڑھا تھا کسی مسلمان کی دل آزاری کرنے کا بہت بڑا گناہ ہے ، غیر مسلموں نے مجھے دل آزاری کے موقع ہی کم دیے کیونکہ ان کی اکثریت مسلمان ہو چکی تھی ، مسلمان کر دی گئی تھی یا وہ ملک سے فرار ہو چکی تھی ۔ ہمارے ہاں غیر مسلموں کا وہ قحط پڑا ہوا ہے کہ آنکھ میں ڈالنے کے لیے سرمچو برابر غیر مسلم میسر نہیں ۔

ایک مولوی صاحب نے کہا کہ کسی کے پیٹھ پیچھے باتیں کرنا غیبت کہلاتا ہے تو میں نے جھٹ کہا کہ مرے ہوؤں کی غیبت کو تاریخ کہتے ہو اور ہماری بات کو غیبت ۔ راوی کہتا ہے کہ مولوی صاحب اس دن کے بعد اپنی انگلیاں دانتوں میں رکھ رکھ کر کاٹتا رہتا ہے ۔ دروغ بر گردن راوی ، اس نے اب کاٹنے کا سلسلہ وسیع کر دیا ہے ۔

میں نے ادھار یا قرض کسی سے لیا ہی نہیں ، حساب کسی کا چھوڑا نہیں تاکہ اس کا امکان ہی نہ رہے کہ یوم حساب کو اس کی نیکیاں میرے نامہ اعمال میں تل کر مجھے پار کر سکتی ہیں ۔ میں نے کسی کی محنت یہاں نہیں کھائی تو وہاں کیسے کھا سکتا ہوں ، سو جہاں معاملہ بیٹھا ، حساب سولہ آنے برابر کر دیا ۔ اب وہاں اپنی ہی دکان سے حساب کتاب چلاؤں گا۔

بس دعا کیجئے کہ جیسی گذر رہی ہے ، ویسے ہی گذر جائے ۔ کسی کو مجھ سے تکلیف ہوئی ہوتو اس سے معذرت اور معافی کا خواستگار ہوں ۔

رکیے ، جاتے جاتے کام کی بات تو سنتے جائیے،،،،

کوشش کریں کہ جس کی جہاں تک مدد کر سکیں ، ضرور کریں ، خود بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھیں. خوش رہنا مشکل بھی بہت ہے اور بہت آسان بھی ہے ۔ آپ کے ارد گرد خوشیاں اتنی سستی اور اتنی وافر مقدار میں پڑی ہیں کہ کیا کہیے ، بلکہ کیا ہی کہیے ،،،، کسی روز ویسے ہی ریڑھی والے سے چالیس روپے کلو خربوزہ خرید کر کسی غریب کے ہاتھ پکڑا دیں اور پھر کمال دیکھیں ، خربوزہ وہ خریدیں جسے دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑے نہ پکڑے ، دوسرا بندہ آپ جیسا رنگ ضرور پکڑے ۔

ایک دوسرے کو خوش دلی کے ساتھ قبول کریں. خواہ مخواہ مسکراتے رہیں ۔نفرتوں کا خاتمہ کرنے کے لئے اپنا کوئی کردار ادا کریں ۔مظلوم کے ساتھ ضرور کھڑے ہوں ، چاہے ایک قدم ہی ساتھ چل سکتے ہوں ۔اپنے جسم اور لباس کے ساتھ ساتھ اپنی سوچ اور فکر کو بھی صاف رکھئے ۔ورنہ آپ جتنے بھی اجلے کپڑے پہن لیں ،آپ کی گلی ، محلے اور سڑکوں کے کنارے نظر آنے والی گندگی خود آپ کا تعارف کرا دے گی ۔

آخر میں درخواست ہے کہ تمام لوگ اپنی قریبی بیکری سے کیک لیکر کھالیں اور اپنے گھر والوں کو بھی کھلائیں ۔ آپ خوش ہیں تو مجھے میرے جنم دن کا تحفہ مل گیا ۔ اور ہاں ایسی کوئی روایت نہیں ہے جس میں لکھا ہو کہ جس نے آج خوشی منائی ، وہ پورا سال خوش رہے گا لیکن پھر بھی آزما کر دیکھ لو ، شاید ۔۔۔۔۔

آپ کی دعاؤں کا طالب

سبوخ سید

18 اپریل 2016

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے