موضوعات کی ’’پھینٹی‘‘

اس طرح تو پرجوش جواری تاش نہیں پھینٹتے جس طرح کابینہ پھینٹی جارہی ہے لیکن اس کا فیصلہ بہرحال وقت ہی کرے گا کہ اس پھینٹا پھینٹی کا کوئی نتیجہ نکلتا بھی ہے یا تمام تر آبپاشی اور گوڈی کرنے کے باوجود ہر بار ڈھاک کے تین پات ہی نکلیں گے نتیجہ جو بھی ہو محنتی، متین اور ذہین حماد اظہر کے ساتھ اچھا نہیں ہوا جسے بیٹھے بٹھائے ’’حماد‘‘ سے اس کا ہم وزن ’’کچھ‘‘اور بنا دیا گیا حالانکہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اصیل گھوڑے سے کم نہیں۔

زندگی میں عموماً پھینٹا پھینٹی نتیجہ خیز ہی ثابت ہوتی ہے مثلاً فصل کاشت کرنے سے پہلے لوگ ہل اور اب ٹریکٹر چلاتے ہیں تو دراصل وہ مٹی کو ’’پھینٹ‘‘ ہی رہے ہوتے ہیں جسے انگریزی میں لینڈ پریپریشن یعنی زمین کی تیاری کہا جاتا ہے یعنی نچلی مٹی اوپر اور اوپر والی کو نیچا کرنا۔

یہی حال بہتے پانی کا بھی ہے جس کے بارے کہتے ہیں کہ ’’پاک‘‘ ہوتا ہے کیونکہ نان سٹاپ بدلتا رہتا ہے لیکن ان دو مثالوں میں ایک معصوم سی منطق بھی پوشیدہ ہے جسے سمجھنے کیلئے ارسطو، افلاطون ہونا ضروری نہیں اور وہ معصوم منطق یہ ہے کہ زمین کو پھینٹنے سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ زمین زرخیز بھی ہے یا نہیں۔

بنجر زمین یا ریت کو جتنا مرضی پھینٹ لو، جتنا مرضی گہرا ہل چلا لو، یہاں تک کہ آب زم زم سے بھی سیراب کرلو، فصل پیدا نہیں ہوگی کیونکہ قدرت کبھی اپنے قوانین پامال نہیں کرتی۔ مختلف اجناس کیلئے مختلف قسم کی مٹی اور موسم درکار ہوتے ہیں ۔

یہی حال پانی کا ہے کہ ہر چلتا پانی ’’پاک‘‘ نہیں ہوتا کیونکہ گندی نالیاں بھی کہنے کو تو ’’چل‘‘ ہی رہی ہوتی ہیں لیکن ان کا پانی تمام تر چلائو بہائو کے باوجود ’’پاک‘‘ نہیں ’’ناپاک‘‘ ہی ہوتا ہے ۔خلاصہ یہ ہوا کہ پھینٹا پھینٹی سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ زمین زرخیز یا پانی صاف ہے کہ نہیں ۔’’تحریک انصاف ‘‘ کی ’’مٹی ‘‘ کی کوالٹی کیا ہے ؟ اور اگر PTI بہتا پانی ہے تو اس ’’پانی ‘‘ کی کوالٹی کیا ہے ؟

ہمارے ایک دوست اور سینئر بیوروکریٹ سید انور محمود نےتو حکومت کو یہی مشورہ دیا ہے کہ اب ٹیم کو آخری اوورز بغیر کسی مداخلت کے کھیلنے دو کیونکہ پہلے ہی بہت سا قیمتی وقت ضائع ہو چکا ہے۔

مزید تبدیلیاں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوں گی۔ دوسرا موضوع احتسابی مشیر شہزاد اکبر کا ایک بیان ہے کہ’’بندہ چور ہو تو نیلی بتی سے بھی ڈرتا ہے ‘‘ بظاہر بیان جان دار لیکن حقیقت میں بے جان ہے کیونکہ صرف چھوٹے موٹے چور ہی نیلی بتی سے ڈرتے ہیں جبکہ ڈاکوئوں، راہزنوں، ٹھگوں کو کسی رنگ کی بتی کی قطعاً کوئی پروا نہیں ہوتی بلکہ وہ تو واردات ہی پولیس گاڑیوں کی نیلی بتیوں کے حصار میں کرتے ہیں اور اسے اپنا استحقاق بھی سمجھتے ہیں ۔

یہ سیون سٹار چوروں کی وہ قسم ہے جو چوکیداروں کے نرغے میں کام دکھانے کے بعد لوگوں کو آنکھیں بھی دکھاتی ہے ورنہ عالمی ادارہ کو یہ نہ کہنا پڑتا کہ ’’پاکستان میں مٹھی بھر لوگ ملکی آمدن کے 50فیصد پر قابض ہیں اور پاکستانی ’’اشرافیہ ‘‘ساڑھے 26کھرب اپنی مراعات پہ خرچ کرتی ہے۔کارپوریٹ سیکٹر کے ساتھ ساتھ جاگیردار اور سیاست دانوں سمیت اشرافیہ کو حاصل مراعات ملکی معیشت کا 6فیصد ہیں ۔

مڈل کلاس 2009ء میں آبادی کا 42فیصد تھی جو 2019ء میں کم ہو کر 36فیصد رہ گئی ‘‘۔عالمی ادارہ کو چھوڑیں مقامی خوشخبری یہ ہے کہ ریلویز کی 4ہزار 740ایکڑ اراضی واگزار کرانے کیلئے متعلقہ وزیر خود حکام سے ملاقاتیں کرے گا۔ 1335ایکڑ پر قبضہ صرف کراچی ڈویژن میں ہوا…..کراچی جو شہر قائد اور ملک کا اقتصادی حب اور ریڑھ کی ہڈی کہلاتا ہے ۔آج کے آخری موضوع کا تعلق دو برادر اسلامی ملکوں یعنی سعودی عرب اور پاکستان سے ہے۔

سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے ساتھ میری بے شمار یادیں وابستہ ہیں اور اسی شہر میں کسی بے شرم پالتو شیر نے اپنے ہی مالک کو چیرپھاڑ کے رکھ دیا تو بندہ پوچھے پاکستان سے اس کا کیا تعلق ؟ تو برادران ملت ! پاکستان میں بھی ایک ’’شیر‘‘ ہوتا تھا جو پہلے سعودی عرب فرار ہو گیا، آج کل لندن میں مفرور ہے۔

یہ 70سالہ شیر کچھ عرصہ پہلے ہی ’’نظریاتی ‘‘ اور ’’انقلابی ‘‘ ہوا ہے اور اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ اس نے پاکستان کے جسد مالی کو چیرپھاڑ کر رکھ دیا اور آئندہ کیلئے بھی پرامید ہے۔

اس کے لئے مشہور ہے کہ اپنے مالکان کو کھاتا ہے تو ان پر کچھ نہ کچھ لگاتا بھی ہے۔ چاہے موٹر وے کی موٹر وے ہی کیوں نہ ہو۔

بشکریہ جنگ نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے