اہلِ علم ایسے ہوتے ہیں

ان دنوں میں ایک کام کر رہا ہوں، اپنے پچاس سال کے جمع کئے ہوئے کاغذوں کو چھانٹ رہا ہوں۔کون سا رکھنا ہے اور کون سا نہیں، یہ فیصلہ کوئی دوسرا نہ کرپائے گا،اس خیال سے میں نے اس سمندر میں خود ہی غوطہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس تلاش میں جو گوہر نایاب ہاتھ لگ رہے ہیں وہ سارے کے سارے ان لوگوں کے خط ہیں جنہیں علم سے لگاؤ تھا اور جن پر خود علم فریفتہ تھا۔کچھ خط مجھے یاد تھے، وہ مل گئے۔کچھ بھول چکا تھا، انہیں پاکر خوشی سے نہال ہوا، دوچار خط ایسے بھی تھے جو مجھے یاد ہیں اور جو اس تلاش کے دوران نہیں ملے۔

خیر۔ چند کاغذ ایسے بھی ہیں جن کا میں اپنے قارئین کو حصہ دار بنانا چاہوں گا۔انہیں پڑھئے اور میری طرح حیرت کے سمندر میں اتر جائیے۔یہ پہلا خط ذرا تصور کیجئے کس نے لکھا تھا، ان کا نام بھی لوں تو عقیدت کی جبیں جھک جاتی ہیں، یہ خط مولانا امتیاز علی خاں عرشی نے سنہ 76 میں لکھا تھا اور کیا انکسار تھا ، آپ بھی جانئے، یہ علم کا اعجاز تھا کہ جس شاخ پر پھل اور پھول زیادہ ہوں ، کس شان سے جھک جاتی ہے۔ مولانا عرشی ہندوستان کے علم کے تاج میں نگینے کی طرح جڑی ہوئی رضا لائبریری کے سرپرست تھے۔ انہوں نے اس عظیم کتب خانے کی دیکھ بھال اولاد کی طرح کی تھی اور یقین ہے کہ فرش سے عرش تک چنی ہوئی کتابوں کی روح اپنے اندر اتار لی تھی۔یاد دلا دوں کہ اُن دنوں میں برطانیہ کی نشر گاہ بی بی سی لندن سے وابستہ تھا۔خط کا متن یوں ہے:

رضا لائبریری، رامپور

7دسمبر سنہ76

مکرمی، تسلیم

امید ہے کہ مزاج بخیر ہوگا۔ میں ایک غرض سے آپ کی خدمت میں حاضر ہورہا ہوں،اور بغیر سابقہ معرفت کے اس حاضری کی جرا ت اس لیے کی ہے کہ مدت سے روزانہ رات کو آپ کی باتیں سنا کرتا ہوں، اوراُن سے اپنا علم تازہ بھی کرتا ہوں اور بڑھاتا بھی ہوں۔ بالفاظِ دیگرآپ کا شاگرد ہوں۔ آپ سے اپنی علمی دشواری دور کرنے کی درخواست نہ کروں تو کس سے کروں۔یہ آپ کے علم میں ہے کہ بابر کی بیٹی گل بدن بیگم نے اکبر کی فرمائش پر ہمایوں نامہ تصنیف کیا تھا۔ برٹش میوزیم میں اس کا مخطوطہ محفوظ ہے جو غالباً یکتا ہے۔ اس کے شروع میں شاہ جہاں کی توثیق اس کی قدر و قیمت کو چار چاند لگاتی ہے۔

ایک انگریز خاتون مسز بیورج نے اسے انگریزی ترجمے کے ساتھ 1902میں چھاپ دیا تھا۔ وہی مطبوعہ نسخہ میرے پیشِ نظر ہے۔ اس مطبوعہ کے صفحہ 21 میں ہمایوں کی بیماری اور بابر کی فداکاری کا بیان ان لفظوں میں مذکور ہوا ہے:

’’وقتے کہ ایشان (ہمایوں)بیمار بودند،حضرت (بابر)حضرت مرتضی علی کرم ﷲ وجہہ،نگاہ داشتندواں روندہ رااز روزِچہار شنبہ نگاہ می دارند۔ ایشان از اضطراب و بیطاقتی از روز سہ شنبہ نگاہ داشتند۔ ہوا بغایت گرم بود۔دل و جگر ایشان تفید۔ و درروندہء مذکور دعا خوا ستندکہ خدایا اگر بعوضِ جان جان مبدل شود ، من کہ بابرم،عمر و جانِ خود رابہ ہمایوں بخشیدم۔و در ہما ں روز حضرت فردوس مکا ن را تشویش شد، و ھمایوں بادشاہ بر سرِ خود آب ریختند،و بیرون آمدہ بار داند‘‘۔

مذکور ہ بالا عبارت میں لفظ روندہ تین بار آیا ہے۔ بیگم بیورج نے اس کا ترجمہ کیا ہے walking roundاورgoing round جسے میں طواف کہہ سکتا ہوں۔مگر تعجب ہے کہ کسی لغت میں یہ معنی مذکور نہیں۔ اس کا صاف تلفظ رَوِ ندَہ اور معنی چلنے والا ہیں جو یہاں درست نہیں معلوم ہوتے۔ میرا خیال ہے کہ بیگم بیورج نے اس لفظ کو غلط پڑھا اور سنی سنائی بات سے اس کے مطلب کے تعین میں مدد لی۔آپ سے میری درخواست ہے کہ مخطوطے کے اُس صفحے کا فوٹو جس میں یہ لفظ تین بارآیا ہے حاصل فرماکر میرے پاس بھیج دیجئے۔ میں بیحد ممنون ہوں گا۔ آخر میں عرض کردوں کہ اس سلسلے میں جو مصارف ہو ںگے وہ میں ادا کروں گا۔

میرے سب بچے آپ کو اور آپ کے رفقا کو سلام لکھواتے ہیں۔والسلام

دعاگو۔ امتیاز علی عرشی

یہ ہے علم کے پیاسے اور تجسس کے مارے ہوئے ایک محقق کی کیفیت۔مجھے اس خط نے کچھ دیر کے لئے خود غرض بنا دیا، مجھ سے رہا نہ گیا اور خود ہی اس مخطوطے کا مطالعہ شروع کردیا۔ اس میں لفظ ’روندہ‘ جو عرشی صاحب کو پریشان کر رہا تھا،مجھے لفظ ’روزہ‘ نظر آیا۔کتاب کے خطاط کا کوئی ایسا مسئلہ تھا کہ وہ حرف ز اس طرح لکھتا تھا جو ’ند‘پڑھا جاتا تھا۔ چنانچہ پوری کتاب میں جہاں جہاں بھی حرف ’زے‘ آیا ہے وہ ’ند‘ دکھائی دیتا ہے۔ بیورج نے بھی اس لفظ کو روزہ کی بجائے روندہ پڑھا ہوگا۔ اور اسی کتب خانے میں محفوظ فارسی کی ایک ضخیم لغت دیکھی ہوگی جس میں روندہ کے معنی چکّی لکھے ہوئے ہیں۔اس سے خاتون نے قیاس کیا کہ باپ نے بیمار بیٹے کے گرد چکر لگائے ہوں گے۔ یہی کہانی آج تک چلی آرہی ہے۔ میرا خیال ہے کہ باپ نے روزہ رکھنے کی منّت مانی ہوگی۔خیروہ الگ بحث ہے۔میں نے مولانا کی فرمائش پوری کی اور مخطوطے کا عکس انہیں بھجوادیا۔انہوں نے لکھا کہ میں اپنے مضمون میں آپ کی رائے جوں کی توں نقل کر رہا ہوں۔ میں چند برس بعد رام پور گیا، مولاناعرشی پہلے ہی عرش کوسدھار چکے تھے۔رضا لائبریری کی شاندار عمارت کی بنیاد میں ان کو دفن کیا گیا تھا۔ یقین ہے یہ مقام ان ہی کے اصرار پر چنا گیا ہوگا۔ لیکن یقین سا ہے کہ عمارت سے اس قرب کے باوجود ان کی روح مضطرب ہوگی کہ جو کتابیں ان کی نگاہ سے نہیں گزریں ،ان پر بھی ایک نگاہ دوڑا دیں۔میں نے خاموشی سے سورہ فاتحہ پڑھی اور ملاقات کی آرزو وہیں چھوڑ آیا۔

کاغذو ں کی الٹ پلٹ جاری ہے، ایسے ہی جواہر آب دار ہاتھ لگے تو قارئین کو پیش کروں گا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے