خالد خورشید حکومت کی اونچی اڑان

وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید خان نے جن حالات میں اقتدار سنبھالا، وہ انتہائی کمزور تھے۔ یہ روش اس سے پہلے نگران حکومت میں دہرائی گئی تھی کہ وزیراعلیٰ کو اپنی کابینہ کے انتخاب کا نہ اختیار تھا نہ ہی علم۔ یہی مشق خالد خورشید کے حکومت میں بھی دہرایا کہ اسے اپنے کابینہ کے اراکین کا علم بھی نہیں تھا، یہ بات اس لئے باعث حیرت نہیں کہ گلگت بلتستان انتخابات سے پہلے تحریک انصاف کی تیاری کا سب کو علم تھا، صوبائی قیادت کی عدم موجودگی بلکہ اس کے دکھ کے ساتھ جس طرح انتخابات لڑے گئے ہیں وہ تاریخ میں درج ہے۔

گلگت بلتستان کابینہ کی حلف برداری تقریب میں وزیراعظم پاکستان کی شرکت اس حوالے سے تشویشناک رہی تھی کہ انہوں نے کوئی اعلان اور کوئی گائیڈ لائن نہیں دی بلکہ ایک فرضی تقریر کرکے چلے گئے تھے۔ وزیراعظم نے مذکورہ تقریب کو بھی نوازشریف، آصف علی زرداری، اسحاق ڈار اور پی ڈی ایم کے گرد سجائے رکھا تھا جس کا کبھی مثبت ردعمل نہیں آیا ہے۔گلگت بلتستان میں آکر پی ڈی ایم اور دیگر معاملات پر تقاریر کرنے کی وجہ سے میڈیا کی ساری توجہ بھی گلگت بلتستان حکومت کی بجائے ملکی سیاست اور عدم استحکام کی طرف چلی گئی۔

خالد خورشید حکومت کو اقتدار میں آئے پانچ مہینے گزرگئے لیکن ان پانچ مہینوں میں صرف زبانی جمع خرچ کی گئی، نئی حکومت کا یہ آغاز یقینا بہت کمزور تھا۔ نہ اہداف کاتعین کیا گیا اور اپنی ترجیحات کا اعلان کیا گیا۔ صورتحال ایسی تھی کہ کچھ کریں گے تو نہیں تو کسی حوالے سے پوچھا بھی نہیں جائے گا۔ البتہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید کی اسمبلی کی پہلی تقریر اس حوالے سے منفرد تھی کہ انہوں نے علاقائی امور پر اپنی گرفت اور فہم کو واضح کردیا۔ اس کے بعد بھی جہاں کہیں پر خالد خورشید کو بولنے کا موقع ملا انہوں نے اچھا بولا لیکن بولنے کی حد تک چیزوں کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا جاسکتا ہے۔

خالدخورشید حکومت کو زمہ داریاں سنبھالنے کے ساتھ ہی نیشنل پارکس کے قیام کا معاملہ اپوزیشن کو دعوت تنقید دے گیا۔ ناتجربہ کاری کا عنصر زیادہ ہونے کی وجہ سے اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر بھاری پڑنے کی بھرپور کوشش کی اور کسی حد تک حکومت کو دباؤ میں بھی رکھالیکن شاید معاملے اندر سے کھوکھلا تھا اس وجہ سے یہ معاملہ زیادہ آگے نہیں چل سکا۔
خالد خورشید کابینہ میں فتح اللہ خان، جاوید منوا،کاظم میثم کے علاوہ مشیرسہیل عباس اور ڈپٹی سپیکر نذیر احمد تمام معاملات میں متحرک ہیں اور ان پانچ مہینوں کے دوران گلگت بلتستان مالیاتی پیکج کی تیاری میں اپنا کردار ادا کرتے رہے ہیں۔ یہ بہت بڑا چیلنج تھا کہ صوبائی حکومت ایسی وفاقی حکومت سے کس طرح فندز حاصل کرتی ہے جو منصوبوں کا افتتاح کرنے کی بجائے پنک بک کے زریعے اڑانے پر زیادہ یقین رکھتی ہے۔

وزیراعظم پاکستان نے جس طرح چنار باغ کے خطاب میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان خالد خورشید پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ خالد خورشید اپنے ویژن اور فہم کے مطابق کام کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ گلگت بلتستان کے لئے 370 ارب مالیت کا پیکج تمام سوالات کے باوجود ایک تاریخی قدم ہے۔ گلگت بلتستان کو ملنے والے گرانٹ اور اے ڈی پی منصوبوں کو بھی شامل کرکے 370 ارب کا اعلان کردیا گیا ہے، ڈپٹی سپیکر نذیر احمد کے مطابق اس 370 میں غذر روڈ کے 50ارب روپے بھی شامل ہیں۔

صوبائی حکومت نے پہلا مرحلہ کامیابی سے سر کرلیا ہے۔ عمران خان حکومت سے 370ارب کے منصوبوں کی منظوری لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اصل امتحان اور اہم مرحلہ اب شروع ہوچکا ہے۔ ان منصوبوں پر عملدرآمد کس طریقے سے کرایا جاتا ہے؟ آمدہ اڑھائی سال اس حوالے سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ پاکستان کا دستور رہا ہے کہ کسی بھی حکومت کو مینڈیٹ کے مطابق پانچ سال پورے کرنے نہیں دئے جاتے ہیں، بالخصوص آخری دو سالوں میں تو ہر سوراخ سے بچھو سر اٹھاتے ہیں جنہیں روکتے روکتے حکومت انتہائی کمزور ہوجاتی ہے۔

مذہبی کرداروں کو سڑکوں پر لانے کے تجربے ہوتے ہیں جس میں معمولی سی بھی غلطی کی گنجائش نہیں رہتی ہے۔ خدا کرے کہ عمران خان ہی وہ پہلے وزیراعظم بن جائیں جو پانچ سال پورے کرلے ورنہ پانچ سال پورے کرنے دینا تو نظریہ پاکستان پر سوال اٹھانے کے مترادف بنا رہا ہے۔ گلگت بلتستان اور مرکزی حکومت دونوں میں اب تک بیوروکریسی اور حکومت کا ورکنگ ریلیشن کا تعین نہیں ہوسکا ہے۔ مرکز میں تو حکومت کے ساتھ شدید چپقلش جاری ہے تاہم گلگت بلتستان میں اب تک بیوروکریسی نے سر نہیں اٹھایا ہے، گلگت بلتستان اسمبلی میں گاڑیوں کی تفصیلات سے شاید اس کا آغاز ہوجائے گا۔ ایسی صورتحال میں حکومت کے پاس اپنے ناتجربہ کاری کا روتے رہنے کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر صوبائی حکومت بیوروکریسی کے ساتھ معاملات بہتر چلاتے ہوئے اصولی طور پر کام کرنے کی پالیسی پر گامزن ہوتی ہے تو کوئی بعید نہیں کہ گلگت بلتستان کا ایک نیا ترقیاتی دور شروع ہوگیا ہے۔تاہم اضلاع میں ضروریات کا تعین کرنا لازمی ہے ورنہ آواز اٹھتی رہے گی۔

گلگت بلتستان حکومت اور تحریک انصاف پر اس حوالے سے بھی بڑی تنقید ہوتی رہی ہے کہ پی ایس ڈی پی منصوبوں کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ چیزیں انتہائی اہمیت کے حامل ہیں کہ مسلم لیگ ن کے دور میں بھرپور کوشش کے باوجود پی ایس ڈی پی کا پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر جی بی کے چیف سیکریٹری کو نہیں بنوایا جاسکا، اور اسی بات پر اس وقت کے چیف سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کے ساتھ اختلافات شروع ہوئے تھے۔ البتہ مسلم لیگ ن کے دور میں کچھ منصوبوں کے ٹینڈر گلگت میں ہی ہوئے تھے۔ باوجود اس کے کہ پی ایس ڈی پی منصوبوں کا پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کشمیر افیئرز کا سیکریٹری ہے، وزارت کی جانب سے اس پر سخت الفاظ پر لیٹر بھیجنا سوالیہ نشان ہے؟ کیا گنڈاپور صوبائی حکومت کو اپنے دباؤ میں لانا چاہتے تھے؟ وزارت امور کشمیر و جی بی اب تک کی ارتقائی صورتحال سے بے خبر تو ہو نہیں سکتی کہ ان سے ہی اختیارات گلگت منتقل کئے جاتے رہے ہیں، تو کیا یہ اپنا بدلہ لینا چاہ رہے تھے؟

لیکن وزیراعلیٰ گلگت بلتستان اپنی تقریر میں اس موضوع کو شامل کرلیا اور وزیراعظم کے سامنے مقدمہ رکھتے ہوئے استدعا کی کہ گلگت بلتستان کو اختیارات منتقل کردئے جائیں۔ وفاقی وزیر کی موجودگی میں وزیراعظم پاکستان نے جن کھلے لفظوں میں خالد خورشید کی قابلیت اور استقامت کا اعتراف کیا ہے وہ صوبائی حکومت کے لئے بہت حوصلہ افزاء ہے۔ اس دورے میں اگر منصوبوں کو ایک طرف رکھا جائے تو بھی پی ایس ڈی پی منصوبوں کے اختیارات گلگت منتقل ہونا سب سے بڑی کامیابی ہے، اور امید واثق ہے کہ وزیراعظم پاکستان اپنے اعلان کے مطابق پی ایس ڈی پی منصوبوں کے متعلق بھی جلد عملی اقدامات اٹھائیں گے۔ یہ بات بطور یادداشت نقل کی جاتی ہے کہ اعلانات کا سلسلہ بہت پہلے سے شروع ہوا ہے اور یہ اب تک کا بڑا اعلان ہے تاہم شرط عملی اقدامات سے ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے