مافیا در مافیا۔۔مدتوں سے ہمیں چمٹے ہوئے

’’کرنٹ افیئرز‘‘ پر بات کرنے سے پہلے اک واردات کی سمری سن لیں جو اس ٹریجڈی کا ثبوت ہے کہ اس سسٹم میں کسی اپ رائٹ آدمی کی گنجائش ہی نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ۔اگر کہیں کوئی ڈھنگ کا دیانتدار بندہ موجود ہے تو وہ کسی معجزہ سے کم نہیں۔ امجد نون وزیراعظم کی انسپکشن ٹیم کا سربراہ، بیرون ملک پاکستان کا سفیر اور اک اہم ضلع کا ناظم اعلیٰ رہ چکا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب انہیں خود بلا کر لاہور ویسٹ مینجمنٹ کی چیئرمین شپ سنبھالنے کی درخواست کرتے ہیں۔ امجد نون یہ کہتے ہوئے معذرت کرتے ہیں کہ اہم منصبوں پر کام کرنے کے بعد اس ادارہ کیلئے کام کرنا مناسب نہیں ہو گا لیکن پھر وزیر اعلیٰ کے مخلصانہ اصرار پر ادارہ کو دوبارہ ٹریک پر لانے کیلئے یہ عہدہ قبول کر لیتے ہیں تو چارج سنبھالتے ہی اک اہم بیوروکریٹ نمودار ہو کر کہتا ہے کہ ’’نون صاحب ! آپ نے کوئی تکلیف نہیں کرنی، سب کچھ مجھ پر چھوڑ دیں ‘‘امجد نون کے پلے کچھ نہیں پڑتا تو دوسری طرف ایم ڈی عمران سلطان بری طرح انڈر پریشر ہے کہ وزیر اعلیٰ ہائوس سے ایم ڈی کیلئے سرزنش کا خط موصول ہوتا ہے تو چیئرمین امجد نون اس شریف آدمی کا دفاع کرتے ہیں تو ان کے مقابل ’’لابی ‘‘ ایک سیاست دان کو لانچ کرتی ہے جو امجد نون کو بے دست وپا اور کارنر کرنے کی مہم شروع کرتا ہے جس کے نتیجہ میں لاہور کے اندر کوڑے کے ڈھیر لگنے شروع ہو جاتے ہیں ۔

خود ڈھیر لگوانے والے خود ہی اس صورتحال کو میڈیا میں اچھالتے ہیں تاکہ چیئرمین صرف ’’ڈیکوریش پیس ‘‘ کے کردار تک اکتفا کرلے۔ نوٹنکی میں چند اور کردار داخل ہوتے ہیں اور MDکی مزید دھلائی شروع ہو جاتی ہے ساری کمپنی عملاً مفلوج کر دی جاتی ہے تو امجد نون اسلام آباد جاکر اپنا استعفیٰ وزیر اعظم کو پیش کر دیتے ہیں۔ وجہ پوچھنے پر سب کچھ گوش گزار کر دیا جاتا ہے۔ استعفیٰ نامنظور کرکے فون کرنے کے بعد بزدار صاحب سے ملنے کی ہدایت کی جاتی ہے ۔ڈھائی گھنٹے کی بے نتیجہ بے سود ملاقات کے بعد امجد نون استعفیٰ وزیر اعلیٰ کے سپرد کر دیتے ہیں اور اب اربوں روپے کی خریداری پائپ لائن میں ہے ۔اگلی قسط کا انتظار فرمائیے ۔

اور اب چلتے ہیں مستقل قسم کے ’’کرنٹ افیئرز‘‘ کی طرف جو خون آشام جونکوں کی طرح قوم کا خون چوس رہے ہیں ۔راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے رنگ روڈ منصوبہ کی تحقیقات کا حکم وزیراعظم نے دیا تھا جس کے نتیجہ میں RDA کے ریکارڈ میں پراسرار طریقے سے آگ لگ گئی اور اربوں روپے کے فراڈ کا ’’جمہوری ‘‘ ریکارڈ جل کر راکھ ہو گیا۔کھیر پکائی جتن سے اور چرخہ دیا جلاآیا کتا کھاگیا تو بیٹھی ڈھول بجاچور، چوکیداروں سے کئی گنا زیادہ سیانے اور تجربہ کار ہیں کہ ان کے تجربات عشروں پر محیط ہیں جبکہ عمران خان ….’’نواں آیا ایں سوہنیا‘‘حسب توقع ’’ بلاول بھائی ‘‘ اور ’’باجی مریم ‘‘ ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہیں کہ پہلے بھی ’’حبِ علی ‘‘ نہیں ’’بغضِ معاویہ ‘‘ والا کیس ہی تھا لیکن کیسے صاحبان کردار ہیں ہم لوگ جو اسی عطار کے لونڈے لونڈیوں سے دوا لینے کے مرض میں مبتلا ہیں جس کے سبب بستر مرگ پر حالت نزع میں ہیں۔ 5ویں نمبر پر ’’آئی آئی پی ٹی آئی ‘‘ کو یہ کریڈٹ ضرور دیا جانا چاہئے کہ اس نے دھاندلی کوئی نہیں کی ۔

اب سن لیں عوام کی۔FBRنے 1700ارب کی ٹیکس چوری کا سراغ لگا لیا ۔پاکستان میں پہلی بار 3750بڑی کمپنیوں، کارپوریشنوں اور امیرترین افراد کا خصوصی آڈٹ کرانے کے بعد ٹیکس ادائیگی کے نوٹسز جاری کر دیئے گئے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ معاملہ منطقی انجام تک پہنچتا بھی ہے یا نہیں ۔بدعنوان افسران کو جبری طور پر ریٹائر کرنے کا فیصلہ بھی درست ہے لیکن اگر اس فیصلے کی آڑ میں ’’ٹارگٹ کلنگ‘‘ کی بدنیتی شامل ہوئی تو نہ صرف یہ نتیجہ خیز نہ ہو گا بلکہ بائونس بیک بھی کر سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے