” نفرت کی گولی "

حسد ، بغض ،عناد، نفرت ،تعصب ، یا انتہاپسندی چاہے ذاتی ہو ، گروہی ہو ، سیاسی ہو مسلکی ہو یا مذہبی ہو اس کے نتیجے میں کیا جانے کام کبھی درست نہیں ہوتا۔نفرت ،انتہاپسندی اور فرقہ واریت کی آگ میں ہمارے ملک میں ہزاروں لوگ جل چکے ہیں۔بے گناہ اور معصوم لوگ اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا پا گئے۔

نارووال میں 6 مئی 2018 کو نواحی قصبہ کنجروڑ میں مسیحی برادری نے ایک جلسہ منعقد کیا۔جلسہ میں مہمان خصوصی کے طور پر اس وقت کے وزیرداخلہ پروفیسر احسن اقبال صاحب نے شرکت کی اور ان سے خطاب کیا۔دوران خطاب انہوں نے مذہبی ہم آہنگی اور رواداری پر زور دیا ۔ملک عزیز پاکستان کو درپیش اندرونی و بیرونی سازشوں کا مل کر مقابلہ کرنے کا پیغام دیا۔

اس جلسہ میں پورے ضلع نارووال سے ہزاروں مسیحیوں نے شرکت کی اور پاکستان سے والہانہ عقیدت و محبت کا اظہار کیا ۔چونکہ یہ جلسہ احسن اقبال صاحب (جو اس وقت وفاقی وزیر داخلہ بھی تھے) کے اپنے حلقے میں منعقد ہوا تھا اس لیے تمام مسیحیوں نے احسن اقبال صاحب پر اعتماد کا اظہار کیا اور آنے والے الیکشن میں انکی بھرپور حمایت کا اعلان بھی کردیا۔

پروفیسر احسن اقبال نے اپنے حلقہ میں اپنے 2008 سے لے کر 2018 تک خوب ترقیاتی کام کروائے ۔جس میں کافی بڑے بڑے منصوبے شامل ہیں،جس میں کینسر ہسپتال کا قیام ، انتہائی خستہ حال اور کھنڈرات کا منظر پیش کرتی ہوئی ریلوے اسٹیشن کی عمارت کو جدید اور خوبصورت عمارت میں تبدیل کیا۔

کئی نئے کالجز اور تین سرکاری یونیورسٹیاں بنوائیں ، میڈیکل کالج منظور کروایا جس کو موجودہ حکومت نے اپنے ایک رہنماء کے پرائیوٹ کالج پر اثر انداز ہونے کے ڈر سے روک رکھا ہے۔پاکستان کے آخری ضلع نارووال میں بہترین سہولیات سے مزین جدید ہسپتال کا قیام عمل میں لایا گیا اور پاکستان کا منفرد منصوبہ سپورٹس سٹی کا قیام بھی اسی ضلع میں لایا گیا۔یہ وہی سپورٹس سٹی ہے جس پر نیب نے منصوبہ نارووال میں بنانے پر احسن اقبال پر کیس کررکھا ہے۔نارووال میں سڑکوں پر بہت زیادہ کام کروائے ہیں اور پورے ضلع میں چھوٹے چھوٹے قصبوں تک نئی سڑکیں بنائی گئیں۔اس وجہ سے نارووال کی عوام نے احسن اقبال صاحب کو پانچویں دفعہ 160,000 ووٹ دیکر ایم این اے منتخب کروایا۔
احسن اقبال صاحب انتہائی معتدل مزاج سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں -1980 میں اسلامی جمیعت طلباء کے پلیٹ فارم سے یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکینالوجی لاہور سے سیاست کا آغاز کیا اور طلباء یونین کے صدر منتخب ہوئے.۔

1993 میں نارووال سے مسلم لیگ ن کے پلیٹ فارم سے ایم این اے کا الیکشن لڑا اور پہلی دفعہ ایم این اے منتخب ہوئے.۔

1997 میں دوبارہ اسی حلقہ سے ایم این اے منتخب ہوئے اور منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین کے عہدے پر رہے جہاں انہوں نے وژن 2010 پیش کیا اور اس پر کام کیا ۔

2002 کے الیکشن میں پرویز مشرف کے دور میں ان کو دھاندلی سے کروایا گیا البتہ 2008 کے الیکشن میں دوبارہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور وزارت اقلیتی امور اور وزارت تعلیم کے قلمدان سنبھالے۔

2013 کے الیکشن میں چوتھی بار نارووال سے بھاری اکثریت کے ساتھ کامیاب ہوئے اور وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور وزارت داخلہ میں کام کیا، منصوبہ بندی کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین بھی رہے اور وژن 2025 پیش کیا۔

پاکستان کی تاریخ کےسب سے بڑے منصوبے "سی پیک” پر دن رات کام کیا اور ریکارڈ مدت میں اس کو تعمیر کیا جس پر دوست ملک چین نے کئی دفعہ تعریف کی اور صلاحیات کا برملا اعتراف کیا۔

اس وقت کہ جب سیاست میں نفرت، حقارت، بدتمیزی اور بدتہذیبی اپنے عروج پر ہے اس وقت بھی احسن اقبال صاحب کو انکی شائستگی تحمل مزاجی اور منطقی انداز گفتگو کی وجہ سے منفرد مقام حاصل ہے۔

نارووال کی سطح تک واحد جبکہ ملک کی سطح تک چند ان گنے چنے افراد میں شامل ہیں جنہوں نے ایک ہی سیاسی پارٹی سے وابستگی رکھی اور روز روز اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل نہیں کیں.
اس جلسہ میں بھی مسیحی برادری کو پیار ،محبت ، امن ، رواداری اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دے کر احسن اقبال صاحب سٹیج سے اترے تو راقم الحروف بھی انکے ہمراہ تھا-احسن اقبال صاحب اسٹیج سے اتر کر مجمع میں بنائے ہوئے راستے سے گزر کر گاڑی کی جانب جا رہے تھے کہ اچانک ایک شخص نے محض چند فٹ کے فاصلے سے گولی مار دی۔قسمت نے انکا ساتھ دیا کہ انکا بازو آڑے آگیا اور گولی کہنی کو پار کرکے پیٹ میں لگ گئی۔

احسن صاحب شدید لہولہان ہوچکے تھے انہیں رانا منان صاحب ، میں اور چند سیکیورٹی گارڈز نے جلدی سے اٹھا کر گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال منتقل کردیا گیا۔افسوس ناک امر یہ تھا کہ انہیں بھی نفرت کی گولی کا سامنا کرنا پڑا۔یہ نفرت ذاتی نہیں بلکہ مذہب کی آڑ میں اس کا اظہار کیا گیا۔مارنے والے نے موقف اختیار کیا کہ احسن اقبال کو ختم نبوت کی وجہ سے مارا جبکہ وہ بھول گیا کہ پارلیمنٹ میں ناموس رسالت کے لیے پہلا بل پاس کروانے والی آپا نثار فاطمہ احسن اقبال کی ماں تھی ۔

احسن اقبال کا تعلق ایک پرانے سیاسی گھرانے سے ہے۔ انکے دادا ڈاکٹر مشتاق صاحب نے تقسیم ہند سے قبل اعلی تعلیمی خدمات پر خان بہادر کا خطاب حاصل کیا۔انکے نانا جان برصغیر کے زیرک سیاست دان تھے اور ضلع جالندھر سے 22 برس ایم ایل اے منتخب ہوتے رہے۔

ان کی والدہ 1985 سے 1988 تک ممبر قومی اسمبلی رہیں- ان کا تعلق علمی اور مذہبی گھرانے سے تھا- امریکہ میں دوران تعلیم یونیورسٹی آف پنسیلوینیا میں 35 مسلم ممالک کے طلبہ کی مسلم سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے-

انکی والدہ کی ناموس رسالت کے لیے پیش کی جانے والی خدمات سے ناآشنا لوگوں نے نفرت ، تعصب اور انتہاپسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے 6 مئی 2018 کو انہیں قتل کرنے کی کوشش کی۔ یہ انتہا پسندانہ اقدام یقینا قابل مذمت ہے جس کی روک تھام کے لیے ہمیں محبت ، بھائی چارے،امن، رواداری اور سب سے بڑھ کر برداشت پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

دوسرے افراد کے جذبات ،احساسات ، رائے ،مذہب ، اور اسکے نظریات کو برداشت کرنا سیکھنا چاہیے تاکہ میرے ملک عزیز پاکستان سے اس نفرت کی فضا کا خاتمہ ہوسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے