پیرس کانفرنس میں عالمی ماحولیاتی معاہدہ طے پا گیا

پیرس میں ماحولیاتی کانفرنس میں 2050 تک دنیا کے درجہ حرارت میں اضافے کو دو ڈگری تک محدود کرنے کا معاہدہ طے پا گیا ہے۔

پیرس میں دو ہفتوں تک جاری رہنے بالی بات چیت میں عدلمی درجہ حرارت کو محدود کرنے کا معاہدہ ہوا ہے۔

یہ پہلا عالمی معاہدہ ہے جس میں تمام ممالک نے کاربن کے اخراج میں کمی کا وعدہ کیا ہے۔

معاہدے میں اس بات پر تفاق کیا گیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے لاحق خطرہ پہلے کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے اور اس میں کاربن کے اخراج میں کمی کرنے کا عزم کیا گیا ہے۔

معاہدے کے تحت عالمی درجہ حرات میں اضافے کو دو ڈگری سے نیچے رکھا جائے گا اور مزید کوششیں کر کہ اس کو 1.5 ڈگری تک محدود کیا جائے گا۔

اس معاہدے کے تحت ہونے والی پیش رفت کا ہر پانچ برس بعد جائزہ لیا جائے گائے گا۔

2020 سے ترقی پذیر ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے سالانہ ایک سو ارب ڈالر کی مالی مدد فراہم کی جائے گی اور اس مستقبل میں اس اضافہ کیا جائے گا۔

معاہدے کے حتمی مسودے پر بات کرتے ہوئے فرانس کے وزیرِ خارجہ لوراں فیبیوس کا کہنا ہے کہ دنیا درجہ حرارت کو دو درجے اضافے تک محدود کیا جائے گا اور تمام ممالک قانونی طور پر اس پر عملدرآمد کے پابند ہونگے۔

لوراں فیبیوس نے کانفرنس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’میری نظر میں ہم نے ایک جرات مندانہ اور متوازن معاہدے کیا ہے۔‘

خیال رہے کہ کانفرنس کے شرکا تقریباً دو ہفتے کی سرتوڑ کوششوں کے بعد وہ ماحولیات کے حتمی معاہدے پر رضامند ہوئے ہیں۔

فرانس کے دارالحکومت میں اس معاہدے پر رضا مندی میں تقریباً 16 گھنٹوں سے زیادہ کی تاخیر ہوئی۔

معاہدہ طے پانے سے پہلے فرانس کی وزارتِِ خارجہ کے اہلکار نے اس سے قبل ذرائع ابلاغ کے نمائندؤں کو بتایا تھا کہ بالآخر ہمارے پاس پیش کرنے کے لیے ایک معاہدہ تیار ہے جسے اقوامِ متحدہ کی چھ زبانوں میں ترجمہ کیا جائے گا۔

انھوں نے مزید کہا کہ پیرس کانفرنس میں شرکت کرنے والے ممالک جو درجۂ حرارت میں دو سینٹی گریڈ کے ہدف کے حق میں تھے انھوں نے اس بات پر رضامندی ظاہر کی ہے کہ وہ درجۂ حرارت میں اضافے کو حتی الامکان ڈیڑھ سینٹی گریڈ تک رکھنے کی کوشش کر یں گے۔

بہر حال کاربن کے اخراج میں کمی کے طویل مدتی منصوبے کی زبان کو حوصلے پر پانی پھیرنے کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا گيا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے