حبیب جالب: ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم …

حبیب جالب سے میرا تعارف اُس وقت ہوا جب میں پرائمری کلاس میں پڑھتا تھا۔ ہم ان دنوں راولپنڈی کے ایک معروف علاقے ٹینچ بھاٹہ میں رہتے تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا گھر تھا جس میں ایک مختصر برآمدہ اور کچا صحن تھا‘ جس میں میٹھے رسیلے شہتوت کا ایک درخت تھا۔ ہمارے گھر کے سامنے دور دور تک کھیت پھیلے ہوئے تھے اور بائی ںطرف ایک وسیع میدان تھا‘ جہاں مجھ سے بڑی عمر کے لڑکے کھیلنے آتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹیلی ویژن اور ٹیلی فون گھر گھر نہیں پہنچے تھے اور موبائل فون کا تصور بھی ہمارے حاشیۂ خیال میں کبھی نہیں آیا تھا۔ گرمیوں کی شاموں میں گھر کے باہر کچی زمین پر کُرسیاں بچھ جاتیں اور گرمی کی شدت کم کرنے کیلئے پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا۔ کُرسیوں پر گھر کے بڑے بیٹھتے ہم بچے آتے جاتے کچھ دیر رُکتے اُن کی باتیں سنتے اور پھر کھیل میں مصروف ہو جاتے۔ اُردو ادب سے میری دلچسپی کی بڑی وجہ گھر کا ماحول تھا۔ میرے والد اُردو، فارسی اور پنجابی کے شاعر تھے۔ والدہ کو پڑھنے کا شوق تھا۔ انہی دنوں میرے بڑے بھائی اور ماموں ایم اے اُردو کا امتحان دے رہے تھے۔

انہوں نے پڑھائی کیلئے گھر کے قریب ایک کمرہ کرائے پر لیا ہوا تھا‘ جہاں وہ کتابوں کے ڈھیر میں پڑھا کرتے تھے۔ یہیں سے مجھے مطالعے کا شوق پیدا ہوا۔ گھر میں کتابوں اور رسالوں کی فراوانی تھی۔ یوں میں کم عمری میں ہی شعروادب کے ذائقے سے آگاہ ہو چکا تھا۔ شعروادب سے اوائل عمری میں آشنائی حبیب جالب کو جاننے کا باعث بنی۔ ایک روز میں نے سُنا ہمارے گھر کے بڑے ہمیشہ کی طرح گھر کے باہر کچی زمین پر کرسیاں ڈالے بیٹھے ہیں اور ایک نوجوان شاعر حبیب جالب کا ذکر ہو رہا ہے جس نے مری کے ایک سرکاری مشاعرے میں حکومت مخالف نظم سُنا کر ایک ہلچل مچا دی تھی۔ سب اس کی جرأت اور حوصلے پر حیران ہو رہے تھے۔ میرے ننھے سے ذہن میں حبیب جالب کا نام چپک کر رہ گیا۔ بہت بعد میں جب میں ہائی سکول پہنچا تو ان کے بارے میں مزید جاننے کا موقع ملا کہ حبیب جالب 1928ء میں ضلع ہوشیار پور کے ایک گاؤں میانی افغاناں میں پیدا ہوئے تھے۔ جالب کے گھر پر مستقل غربت اور مفلسی کے سائے تھے۔ بارشوں میں گھر کی کچی چھت ٹپکنے لگتی لیکن اس افلاس میں امید کی کرن علم و ادب کی روشنی تھی۔ ان کے والد صوفی عنایت لکھنے پڑھنے کے رسیا تھے۔ ان کی جوتوں کی دکان تھی۔ ننھے جالب کو سکول داخل کرایا گیا۔ جالب کے گھر کے افراد دہلی چلے گئے تھے لیکن وہ اپنی نانی کے پاس گائوں میں رک گیا تھا۔ جالب کی نانی کی نظر تقریباً ختم ہو چکی تھی لیکن خاندانی وقار کا تقاضا تھاکہ وہ کسی کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کریں۔

وہ گھر میں ازاربند اور جرابیں بناتی تھیں۔ پھر وہ اور کم سن جالب ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے گلیوں میں ازاربند اور جرابیں فروخت کرتے۔ اسی غربت کے عالم میں جالب نے گاؤں کے سکول میں سات جماعتیں پاس کیں اور پھر وہ بھی دہلی چلے گئے‘ جہاں ان کے گھر کے دوسرے افراد رہتے تھے۔ اسی دوران پاکستان بننے کی تحریک عروج پر پہنچ گئی اور پھر 14 اگست 1947ء کو پاکستان وجود میں آگیا۔ اسی سال جالب اور اس کے گھر والے بھی دہلی چھوڑ کر اپنے خوابوں کے نگرپاکستان آگئے‘ جہاں ان کا پہلا پڑاؤ کراچی میں تھا۔ کراچی میں مشاعروں کی روایت نے جالب کی شاعری کے شوق کو ہوا دی۔ اُس وقت تک وہ حبیب جالب نہیں صرف حبیب احمد تھا۔ جالب کو پتا تھاکہ شاعر ہونے کیلئے تخلص ہونا بھی ضروری ہے۔ تخلص کیلئے اسے ”مست‘‘ کا لاحقہ اچھا لگا۔ یوں اب وہ مشاعروں میں حبیب احمد مست کے نام سے شرکت کرنے لگا۔ مست کا تخلص اس کی شخصیت سے قریب تھا۔ کراچی کا قیام نو دس برس کا ہوگا۔ یہیں جالب کی دوستی علاؤالدین سے ہوئی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب علاؤالدین صاحب پاکستانی فلموں میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ جالب سے علاؤالدین کی قریبی دوستی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کراچی سے لاہور آیا تو ابتدائی دنوں میں علاؤالدین کے گھر میں قیام کیا‘ اور پھرتو لاہور جالب کا دلبر شہر بن گیا۔ لاہور آکر جلد ہی شعری حلقوں میں اس کی شناسائی ہوگئی تھی۔ اب ان کا قلمی نام حبیب جالب ہوگیا تھا۔

لاہور آکر بھی اس کی پارہ صفت طبیعت کو چین نہیں تھا۔ تب ملکی سیاست نے ایک نیا موڑ لیا جب ملک میں ایوب خان کے مارشل لا کا آغاز ہوا۔ جالب کی آزاد پسند طبیعت کو یوں لگا جیسے یکلخت ہوا میں آکسیجن کم ہوگئی ہو۔ ملک میں ایک سناٹے کا عالم تھا۔ اگر کوئی آواز تھی تو ان درباریوںکی جو ستائش اور تعریف میں مصروف تھے۔ پھر 1962ء کا سال آگیا‘ جب صدر ایوب کی حکومت کی طرف سے قوم کو ایک نیا آئین دیا گیا۔ اس پر درباری مدح خواہوں نے تعریفوں کے ڈونگرے برسانا شروع کر دیے جیسے یہ آئین قوم کے ہر دکھ اور درد کا مداوا بن کے آیا ہے۔ اس کے خلاف رائے دینے پر پابندی تھی۔ اس وقت صرف ایک توانا آواز جسٹس ایم آر کیانی کی تھی جو عدل کے ایوانوں میں گونج رہی تھی۔

جالب ایک دلِ حساس رکھتا تھا۔ یہ سناٹا اس کی جان کو آرہا تھا۔ اسے اپنے جذبات کے اظہار کا موقع نہیں مل رہا تھا لیکن جلد ہی اس کا بندبست بھی ہوگیا۔ اس زمانے میں مری میں ڈسٹرکٹ ایڈمنسٹریشن کے زیرِ اہتمام ایک عظیم الشان مشاعرہ ہوا کرتا تھا جس میں پاکستان بھر سے معروف شاعروں کو دعوت دی جاتی تھی۔ سامعین میں ایک بڑی تعداد سرکاری افسران کی ہوتی تھی۔ حبیب جالب باقی شاعروں کے ہمراہ مشاعرے میں شرکت کیلئے ایک دن پہلے ہی مری پہنچ گئے تھے۔ رات کو مال روڈ پر گھومتے ہوئے انہیں ہائیکورٹ کے ایک جج مل گئے۔ وہ بھی ان کے ساتھ چہل قدمی کرنے لگے۔ باتوں باتوں میں جج صاحب نے جالب سے پوچھا کہ کل کے مشاعرے میں وہ کیا سُنائیں گے۔ جالب نے بے ساختہ جواب دیا میں کل کے مشاعرے میں نظم ”دستور‘‘ پڑھوں گا۔ یہ سُن کر جج صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا آپ یہ نظم نہ پڑھیں کیونکہ اس کے نتائج خطرناک ہوسکتے ہیں۔ جالب نے سنی ان سنی کردی۔

جج صاحب نے جالب کے خطرناک ارادوں کا تذکرہ مشاعرے کے منتظمین سے بھی کردیا۔ یہ ایک سنجیدہ صورتحال تھی۔ مشاعرے کے منتظمین کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ حالات یہ رُخ اختیار کر جائیں گے۔ جالب کا شاعری میں ابتدائی تعارف ایک رومانوی شاعر کا تھا۔ ان کی پہلی کتاب ”برگِ آوارہ ‘‘ تھی۔ برگِ آوارہ ان کی رومانوی شاعری کا دور تھا لیکن حالات کی تلخی اب ان کی شاعری میں اُتر آئی تھی۔ انہوں نے خود سے عہد کیا تھاکہ مری کے مشاعرے میں اپنے دل کی بات ضرور کہے گا اور صدر ایوب کے دستور کی حقیقت سب کے سامنے کھول دے گا۔ ادھر مشاعرے کے منتظمین کو جالب کے ارادوں کی خبر ہو چکی تھی۔ انہوں نے ایک چال چلی‘ مشاعرے میں تین مقبول مزاحیہ شاعر شوکت تھانوی، سید محمد جعفری، اور ظریف جیلپوری بھی شریک تھے جن کے بارے میں مشہور تھاکہ اپنے کلام سے مشاعرہ لوٹ لیتے ہیں۔ منصوبے کے تحت حبیب جالب سے پہلے مزاحیہ شعراکو بُلایا گیا تاکہ اس کے بعد جالب کی ہوا اکھڑ جائے اور وہ اپنا کلام نہ سنا سکے۔ ان شعرا کو سامعین کُھل کر داد دے رہے تھے۔ لوگوں کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اسی شوروغُل میں حبیب جالب کا نام پُکارا گیا۔ اب وہ گھڑی آن پہنچی تھی جس کا حبیب جالب کو عرصے سے انتظار تھا۔ جالب نے مائیک پر آکر اپنی گمبھیر آواز میں کہا ”خواتین و حضرات میری نظم کا عنوان ہے ”دستور‘‘۔ یہ سننا تھا کہ مشاعرہ کے منتظمین کے چہرے فق ہوگئے۔ ناظمِ مشاعرہ تیزی سے جالب کی طرف لپکا اور ہوئے چیختے ہوئے کہا ”کیا کررہے ہو؟ کیا کررہے ہو؟‘‘۔

مری کے مشاعرے میں مختلف مکاتبِ فکر کے لوگوں کے علاوہ سرکاری ملازمین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ سب کے ذہنوں پر خوف اور مصلحت کے پہرے تھے۔ ایسے میں جب حبیب جالب نے اپنی نظم ”دستور‘‘ پڑھنے کا اعلان کیا تو ناظمِ مشاعرہ نے لپک کر جالب کو روکنے کی کوشش کی لیکن جالب نے اسے سختی سے جھٹک دیا تھا۔آج ہی تو جالب کو دل کی بات کہنے کا موقع ملا تھا۔ جالب نے ایک نگاہ سامعین پر ڈالی اور گرج دار آواز میں ترنم کے ساتھ اپنی نظم ”دستور‘‘ سُنانا شروع کی۔
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لوگوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے پلے
ایسے دستور کو‘ صبحِ بے نور کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا

نظم کی ابتدائی سطروں نے ہی سامعین میں بجلی کی لہر دوڑا دی تھی۔ لوگوں کو یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہیں‘ ورنہ یہ کیسے ممکن تھا کہ جبر کی اس کڑکتی دوپہر میں کوئی اہلِ اقتدار سے اختلاف کی جرأت کرے۔ جالب لوگوں کے چہروں پر خوف کے آتے جاتے رنگ دیکھ رہا تھا۔ وہ خوف کے اس حصار کو توڑنا چاہتا تھا۔ اب وہ جبر کے علم برداروں کو براہِ راست للکار رہا تھا۔
میں بھی خائف نہیں تختۂ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زنداں کی دیوار سے
ظلم کی بات کو‘ جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا‘ میں نہیں جانتا

اب مشاعرے میں بیٹھے لوگوں میں سرگوشیاں شروع ہو گئی تھیں۔ وہ آج سے پہلے نئے دستور کی صرف برکات کے بارے میں سنتے آئے تھے۔ آج جالب اس دستور کا پردہ چاک کرکے تصویر کا دوسرا رخ دکھا رہا تھا۔
پھول شاخوں پر کھلنے لگے تم کہو ؍ جام رندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو ؍ اس کھلے جھوٹ کو
ذہن کی لُوٹ کو ؍ میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

اب لوگوں کی سرگوشیاں بلند ہونے لگی تھیں۔ جالب کی نظم جیسے گُنگ لوگوں کے دلوں کی آواز بن گئی تھی۔ وہ بات جو ان کے بند لبوں پر پھڑپھڑا کر رہ جاتی تھی آج جالب کی شاعری میں گونج رہی تھی۔ اب جالب براہِ راست جبر کے کارپردازوں سے مخاطب تھا۔
تم نے لُوٹا ہے صدیوں ہمارا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمہارا فسوں
چارہ گر میں تمھیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر‘ کوئی مانے مگر
میں نہیں مانتا میں نہیں جانتا

نظم کی ایک ایک سطر سامعین کے لہو میں بجلیاں بھر رہی تھی۔ جالب نے جب نظم ختم کی تو مشاعرہ ایک جلسے میں بدل چکا تھا۔ جالب کے ساتھ ہی لوگ بھی اُٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اگرچہ اس کے بعد بھی شعرا نے پڑھنا تھا لیکن اب مشاعرہ اکھڑ چکا تھا۔ لوگ جالب کے اردگرد جمع ہو گئے تھے اور اب یہ ہجوم جالب کے ہمراہ مری کی مال روڈ پر چلنے لگا تھا۔ آج جالب نے آمریت کے مضبوط قلعے میں پہلا شگاف ڈال دیا تھا۔ جالب نے لوگوں کے خوف کی زنجیر توڑ دی تھیں لیکن اب اسے اس بغاوت کی کڑی قیمت چکانا تھی۔ اس کی ابتلا کا دور شروع ہو گیا تھا۔ مشاعرے کے بعد ایک سینئر شاعر نے جالب سے ناصحانہ انداز میں کہا تھا ”یہ اس نظم کا موقع نہیں تھا‘‘ جالب نے اسے ترکی بہ ترکی جواب دیا تھا ”میں موقع پرست نہیں ہوں‘‘۔

اس زمانے میں معروف وکیل منظور قادر صدر ایوب کے وزیر قانون تھے۔ وہی منظور قادر جو ایوب خان کے 1962 کے دستور کے خالق تھے۔ روایت ہے کہ جالب کی نظم دستور کی مقبولیت کے بعد وہ محترمہ عاصمہ جہانگیر کے والد ملک غلام جیلانی صاحب سے ملے تو انہیں یہ کہا کہ ایک نوجوان شاعر جالب کی نظم نے ہمارے ”دستور‘‘ کو ختم کر دیا ہے۔ جالب کی یہ نظم جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ جالب کا کمال یہ تھا کہ وہ سادہ الفاظ میں اپنے اردگرد کے مسائل پرعام آدمی کیلئے لکھ رہے تھے۔ یوں ان کی شاعری کا ابلاغ عام آدمی تک براہِ راست ہوتا تھا۔ انہی دنوں کی بات ہے‘ آٹے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا اور آٹا 20 روپے من ہوگیا۔ یہ اس زمانے کے لحاظ سے کافی قیمت تھی جس سے عام غریب آدمی براہِ راست متاثر ہوا تھا۔اس پر حبیب جالب نے نظم لکھی:بیس روپے من آٹا / اس پر بھی ہے سناٹا/ گوہر‘ سہگل‘ آدم جی/ بنے ہیں برلا اور ٹاٹا/ ملک کے دشمن کہلاتے ہیں/ جب ہم کرتے ہیں فریاد/ صدرایوب زندہ باد!

پھر صدارتی الیکشن کا ڈول ڈالا گیا۔ صدر ایوب کے مقابلے میں قائدِ اعظم کی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح اپوزیشن کی امیدوار تھیں۔ مجھے گھر کے بڑوں کی گفتگو سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ محترمہ فاطمہ جناح کے حامی ہیں۔ محترمہ فاطمہ کا انتخابی نشان لالٹین اور صدر ایوب کا انتخابی نشان پھول تھا۔ اپنے گھر سے بازار تک جاتے ہوئے میں دیوا ر پر محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے ایک انتخابی اشتہار بھی دیکھتا تھا۔ اس میں لالٹین کی تصویر کے اوپر ایک معروف شعر ذرا سی تبدیلی سے لکھا ہوتا تھا ”نورِ خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن/ ”پھولوں‘‘ سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا‘‘ پھول چونکہ صدر ایوب کا انتخابی نشان تھا اور محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی نشان لالٹین کا ”چراغ‘‘ سے ربط تھا۔ اس طرح شعر میں ایک نئی معنویت پیدا ہو گئی تھی۔ 1965 کا صدارتی الیکشن ایک انوکھا الیکشن تھا جس میں کمپین کے لیے صرف ایک ماہ کا عرصہ دیا گیا تھا۔ الیکشن کمیشن کی کڑی نگرانی میں ان جلسوں میں لوگوں کی محدود تعداد کو شرکت کی اجازت تھی۔ عوام میں فاطمہ جناح کی مقبولیت کا بڑا سبب یہ تھاکہ وہ قوم کے محبوب رہنما قائداعظم کی بہن تھیں۔ ان کی مقبولیت کا دوسرا بڑا سبب یہ تھا کہ لوگ ان کی صورت میں آمریت کی تاریک رات میں روشنی کی کرن دیکھ رہے تھے‘ لیکن انتخابات بی ڈی (Basic Democracy) سسٹم کے تحت ہو رہے تھے جس میں عام لوگوں نے نہیں بی ڈی ممبرز نے ووٹ دینا تھے۔ حکمران طبقے نے لالچ اور دھونس سے بی ڈی ممبران کو اپنی حمایت پہ مجبور کر دیا۔ یوں ایوب خان الیکشن جیت گئے۔ اس دھونس اور دھاندلی کے باوجود فاطمہ جناح کراچی اور ڈھاکہ میں کامیاب ہو گئیں۔ ان دنوں میں چوتھی کلاس میں پڑھتا تھا۔ اگلی صبح جب میں محلے کی ایک دکان پر کوئی چیز لینے گیا تو وہاں لوگ نوائے وقت اخبار پڑھ رہے تھے جس کی سرخی تھی انتخابات میں جھرلو چل گیا۔ بہت بعد میں مجھے پتا چلاکہ جھرلو کا مطلب کیا ہوتا ہے۔

جالب کی زندگی اب ایک نئے دور میں داخل ہوگئی تھی جس میں پولیس‘ مقدمے اور جیل اس کی زندگی کا حصہ بن گئے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی پاکستان میں گورنر ملک امیر محمد خان کا دبدبہ اور خوف ہر طرف چھایا ہوا تھا‘ جس نے جالب کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا تھا‘ اور جس کے شکاری کارندے جالب کی تلاش میں تھے۔ ایک رات گھپ تاریک گلی میں چلتے ہوئے جالب کو اچانک اپنے دوست ٹیپو کا خیال آ گیا۔ وہی ٹیپو جو اس پر جان چھڑکتا تھا۔ ہمیشہ بھرا ہوا پستول جس کی جیب میں ہوتا تھا اور جو بمبئی میں بھی سائے کی طرح اس کا محافظ بنا رہا تھا۔ پتا نہیں ٹیپو آج کل کہاں ہو گا؟ تاریک گلی میں جالب اپنے خیالوں میں گُم چلا جا رہا تھا کہ اچانک سامنے سے ٹارچ کی روشنی اس کے چہرے پر پڑی اور اس کی آنکھیں چندھیا گئیں۔

رات کے وقت تاریک گلی میں اچانک ٹارچ کی روشنی نے جالب کی آنکھیں چندھیا دی تھیں۔منظر صاف ہوا تو اس نے دیکھا کہ وہ اس کے محلے کا چوکیدار تھا۔اس نے جالب کو پہچان لیا تھا ۔ اس نے جالب کو اطلاح دی کہ تھانے سے سے پولیس کے سپاہی اس کی تلاش میں اس کے گھر پہنچے تھے ‘اسے گھر نہ پا کرو ہ واپس تو چلے گئے لیکن کل پھر آئیں گے۔ اس نے جالب کو مشورہ دیا کہ رات گھر گزار کر صبح سورج نکلنے سے پہلے گھر سے چلا جائے۔ پھر تو پولیس سے آنکھ مچولی ایک معمول بن گئی۔پھر ایک دن جالب کا دوست فضل الرحمن ٹیپو اس سے آملا ‘اب وہ مسلح گارڈ بن کر سائے کی طرح جالب کے ساتھ رہتا۔ حکومت نے الیکشن میں اپوزیشن کو دھاندلی کے ذریعے شکست تو دے دی تھی لیکن محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں نے قوم میں حریت کا شعلہ جگا دیا تھا‘ بیداری کے اس سفر میں جالب قدم بقدم محترمہ فاطمہ جنا ح کے ساتھ تھا۔اس کی شاعری ایک طرف تو جمہوریت پسندوں کا حوصلہ بڑھا رہی تھی اور دوسری طرف پاکستان کی سیاسی تاریخ کے اہم پہلوؤں کو رقم کر رہی تھی ۔

مجھے وہ نظم یاد آرہی ہے جو جالب نے یونیورسٹی کے طلبا پر فائرنگ کے حوالے سے لکھی تھی۔نظم کیا تھی جذبوں کی ایک پھوار تھی۔جالب نے یہ نظم محترمہ فاطمہ جناح کے جلسے میں ان کی موجودگی میں پڑھی تھی۔اُس دن نظم کے آہنگ‘ جالب کی پڑھت ‘ محترمہ فاطمہ جناح کی موجودگی اور لوگوں کے والہانہ رد ِعمل نے ایک سماں باندھ دیا۔آئیں کچھ دیر کے لیے ہم بھی اس تاریخ ساز دن کا حصہ بن جاتے ہیں۔یہ ہزاروں کا مجمع ہے اور جالب کی آواز گونج رہی ہے:

بچوں پہ چلی گولی/ ماں دیکھ کے یوں بولی/ یہ دل کے مرے ٹکڑے/ یوںروئیں مرے ہوتے/ میں دُور کھڑی دیکھوں/ یہ مجھ سے نہیں ہو گا/ میداں میں نکل آئی/ اک برق سی لہرائی/ ہر دستِ ستم کانپا/ بندوق بھی تھرائی/ ہر سمت صدا گونجی/ میں آتی ہوں میں آئی/ میں آتی ہوں میں آئی۔ جالب کی یہ نظم بھی ان کی دوسری نظموں کی طرح ملک کے طول وعرض میں پھیل گئی۔
1966 ء میں سیاسی فضا میں ایک جواربھاٹا آیا جب معاہدہ تاشقند کے حوالے سے بھٹو اور ایوب خان میں اختلافات کے نتیجے میں بھٹو ایوب خان کابینہ سے علیحدہ ہو گئے اور اعلان کیا کہ وہ راولپنڈی سے لاڑکانہ ریل کے ذریعے جائیں گے۔بھٹو کی کرشماتی شخصیت نے ٹھہری ہوئی سیاسی فضا میں ہلچل پیدا کر دی۔ ریل کے سفر میں ہر سٹیشن پر لوگوں نے ان کا والہانہ خیر مقدم کیا اسی دوران بھٹو نے اعلان کیا کہ وہ البانیہ جا رہے ہیں ۔ اس موقع پر جالب نے ”چھوڑ کے نہ جا ‘‘ کے عنوان سے ایک اثر انگیز نظم لکھی ۔ ان دنوں میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھایہ نظم ”نوائے وقت‘‘ میں نمایاں طور پر شائع ہوئی تھی اس نظم کی وجہ سے اُس دن کا اخبار مہنگے داموں فروخت ہوا۔ نظم کے چند اشعار مجھے یاد آرہے ہیں۔
دستِ خزاں میں اپنا چمن چھوڑ کے نہ جا/ آواز دے رہا ہے وطن چھوڑ کے نہ جا/ دل تنگ کیوں ہے رات کی تاریکیوں سے تو/ پھوٹے گی صبحِ نو کی کرن چھوڑ کے نہ جا/ اے ذوالفقار تجھ کو قسم ہے حسین کی/ کر احترامِ رسمِ کہن چھوڑ کے نہ جا۔

بھٹو بیرونی دورے پر چلے گئے۔ وہ واپس وطن آئے تو لاہور بھی آئے اور حبیب جالب سے ملنے کی خواہش کی۔ پتہ چلا کہ حبیب جالب کافی ہائوس میں دوستوں کے پاس بیٹھے ہیں۔ بھٹو وہیں آ گئے ۔ گپ شپ کے دوران بولے: جالب صاحب وہ نظم تو سنا ئیں جو آپ نے میرے لیے لکھی تھی۔ جالب نے ہنس کر کہا اس نظم کا مقصد آپ کو باہر جانے سے روکنا تھالیکن آپ تو رکے نہیں اب اس نظم کو سنانے کا کیا فائدہ ؟یوں بات ہنسی میں اُڑ گئی۔ بعد میں جالب نے بتایا کہ میں بھٹو کو ان کے بارے میں لکھی ہوئی نظم سنا کر خوشامد کا مرتکب نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن معاشرے میں خوشامدیوں کی کمی نہیں تھی۔ اس سلسلے میں جالب اکثر ایک دلچسپ واقعہ سنایا کرتے تھے کہ کیسے ایک دن سرِ راہ ان کی ملاقات حفیظ جالندھری سے ہو گئی ‘ باتوں کے دوران حفیظ صاحب نے آسمان کی طرف انگلی اٹھا کر کہا میں اس کا مشیر ہو گیا ہوں ۔ مزید وضاحت پر انہوں نے بتایا صدر ایوب ان سے مشورے کرتے ہیں اور حفیظ صاحب انہیں بتاتے ہیں کہ عوام سے کیسے نپٹا جائے۔ جالب کیلئے یہ ساری صورتحال دلچسپ تھی جسے بعد میں انہوں نے اپنی معروف نظم ”مشیر‘‘ میں قلمبند کیا ۔ کہ کس طرح بادشاہِ وقت کے مشیر عوام کو جہل کا مرکب قرار دیتے اورحکمرانِ وقت کو نجات دہندہ قرار دیتے ہیں:

میں نے اس سے یہ کہا/یہ جو دس کروڑ ہیں /جہل کا نچوڑ ہیں /ان کی فکر سو گئی /ہر اُمید کی کرن/ظلمتوں میں کھو گئی/بے شعور لوگ ہیں/زندگی کا روگ ہیں/تو خدا کا نور ہے /عقل ہے شعور ہے /قوم تیرے ساتھ ہے/تیرے ہی وجود سے/ملک کی نجات ہے/تو ہے مہر ِصبح نور /تیرے بعد رات ہے /بولتے جو چند ہیں/سب یہ شر پسند ہیں /ان کی کھینچ لے زباں/ان کا گھونٹ دے گلا/دس کروڑ یہ گدھے/جن کا نام ہے عوام/کیا بنیں گے حکمران /تو یقیں ہے یہ گماں/اپنی تو دعا ہے یہ/صدر تو رہے سدا /میں نے اس سے یہ کہاـ

مزاحمت کا یہ سفر آسان نہ تھا۔جالب جیل میں ہوتا تو گھر میں فاقوں کی نوبت آجاتی لیکن اس کے گھر والے بھی اس کی طرح خود دار تھے۔کسی کے سامنے دستِ طلب دراز کرنا ان کی خصلت میں نہ تھا۔جالب کو حکومتی کارپردازوں کی طرف سے بہت سی مراعات کا لالچ بھی دیا گیا۔لیکن اس کا آزادی اور جمہوریت کا خواب اسے زیادہ عزیز تھااور وہ اسے کسی مصلحت کی بھینٹ نہیں چڑھا سکتا تھا۔ بقول جالب :فرنگی کا جو میں دربان ہوتا/تو جینا کس قدر آسان ہوتا/میرے بچے بھی امریکہ میں پڑھتے/میں ہر گرمی میں انگلستان ہوتا/جھکا کے سرکو ہو جاتا جوسر میں/تو لیڈر بھی عظیم الشان ہوتا۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں جبر کے خلاف مزاحمت کی تاریخ میں جالب کی قربانیاںہمیشہ جگمگاتی رہیں گی۔اور اب مجھے وہ دن یاد آرہا ہے جسے میں کبھی بھول نہ پائوں گایہ 1966ء کی بات ہے جب میں پانچویں جماعت میں پڑھتا تھا۔ ایک شام میں سکول کا ہوم ورک کر رہا تھا‘ سب کچھ معمول کے مطابق تھا کہ اچانک دروازے پر دستک ہوئی‘ میں نے بھاگ کر دروازہ کھولا‘ باہر میرے ماموں کھڑے تھے۔ انہوں نے جلدی سے پلٹ کر دروازے کو چٹخنی لگائی اور کوئی بات کیے بغیر تیزی سے کمرے میں چلے گئے ۔یہ سب کچھ خلافِ معمول تھا۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے کمرے میں چلا گیا۔میں نے دیکھا وہ ایک کرسی پر بیٹھے تھے اور ان کے چہرے پر سنجیدگی اور پریشانی کے ملے جلے تاثرات تھے۔کمرے میں سناٹا بھرا ہوا تھا۔

پھر انہوں نے خاموشی سے اپنے کوٹ کی اندرونی جیب سے ایک کتاب نکالی اور مدھم سرگوشی میں مجھے کہا : دیکھو اس کتا ب کا کسی کو علم نہ ہو‘ نہ گھر میں نہ سکول میں کیونکہ اس کتاب کا رکھنا اور پڑھناجرم ہے اور کسی کو پتہ چل گیا کہ ہمارے گھرمیں یہ کتاب ہے تو ہم سب پکڑے جائیں گے۔مجھ سے وعدہ لینے کے بعد انہوں نے مجھے کتاب کا سر ورق دکھا یا جس پر جلی حروف میں لکھا تھا”سرِ مقتل‘‘ ۔

”سرِ مقتل‘‘ جالب کی انقلابی شاعری کی کتاب تھی جس نے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ برپا کر دیا تھا لیکن جو عام لوگوں کے لیے حبس کے موسم میں تازہ ہوا کا جھونکا تھی۔ ایک مہینے میں اس کے چار ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوگئے۔ جالب کی یہ ”باغیانہ‘‘ شاعری حکومت کے لیے قطعی قابلِ قبول نہ تھی۔ اسی لیے ”سرِ مقتل‘‘ پر پابندی لگا دی گئی تھی جس کے مطابق اس کتاب کو بیچنا، خریدنا اور قبضے میں رکھنا جرم قرار دیا گیا تھا۔ ”سرِ مقتل‘‘ کی بیشتر نظمیں میں نے زبانی یاد کر لی تھیں۔ کتاب پر پابندی کا فیصلہ حبیب جالب کا حوصلہ پست نہ کر سکا بلکہ ان کی آواز اور توانا ہوگئی۔ اس موقع پر حبیب جالب نے اپنا مشہور قطعہ لکھا تھا:
مرے ہاتھ میں قلم ہے مرے ذہن میں اُجالا
مجھے کیا ڈرا سکے گاکوئی ظلمتوں کا پالا
مجھے فکرِ امن عالم تجھے اپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں تو غروب ہونے والا

جمہوریت کا ساتھ دینے والا ہر فرد جالب کیلئے محترم اور آمریت کا ہر پشت پناہ اس کیلئے قابلِ نفرت تھا۔ اس زمانے میں ایوب خان کے وزیرِ اطلاعات عبدالوحید خان نے شاہ سے وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے مادرِ ملت کے خلاف بیان دیا۔ جالب‘ جو مادرِ ملت کے جلسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتا تھا اور فاطمہ جناح کے قافلے کا سپاہی تھا‘ نے عبدالوحیدکو آڑے ہاتھوں لیا:
مس فاطمہ جناح کی باتیں بھی ہیں غلط
منطق ملاحظہ ہو یہ عبدالوحید کی
اس بے ادب نے مادرِ ملت کی شان میں
گستاخ ہو کے اپنی ہی مٹی پلید کی

اب جالب کی آشفتہ سری کو آمریت کی رات سحر کرنے کا خواب مل گیا تھا۔ اب وہ براہِ راست حکومت اور اس سے جڑے ہوئے لوگوں کو اپنی تنقید کے نشانے پر رکھ رہا تھا۔ انہی دنوں کا ایک واقعہ ہے کہ ایک غیرملکی سربراہِ مملکت کے دورے کے موقع پر اداکارہ نیلو کو بُلایا گیا اور اس کے انکار پر اسے جبری طور پر وہاں لے جایا گیا۔ اس پر جالب نے اپنی مشہور نظم لکھی:
تو کہ ناواقف آدابِ غلامی ہے ابھی
رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے
تجھ کو انکار کی جرأت جو ہوئی تو کیونکر
سایۂ شاہ میں اسی طرح جیا جاتا ہے

آخرکار زبردست عوامی دباؤ کے باعث ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور یحییٰ خان نے اقتدار سنبھال لیا۔ جالب کو یوں لگاکہ وہ ایک بار پھر سے سفر کے پہلے سنگِ میل پر آکھڑا ہوا ہے۔ ایوب خان کے دور میں مری کے مشاعرے کو ایک مدت گزر چکی تھی لیکن جبر کی رات ابھی باقی تھی۔ اتفاق دیکھیے کہ سالوں کے الٹ پھیر کے بعد ایک بار پھر مری میں ہی مشاعرہ تھا۔ اس بار حبیب جالب نے نظم کے بجائے غزل سنائی۔ اس کا مطلع سناتے ہوئے انہوں نے دیوار پر لگی حاکمِ وقت کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہی یہ شعر پڑھا:
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا

یہ جالب کا ہی حوصلہ تھاکہ اس نے جبر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ آخر یحییٰ خان کا دورِ ابتلا بھی گزر گیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے عنانِ اقتدار سنبھالی۔ وہی بھٹو جو جالب کی دوستی کا دم بھرتا تھا اور جس کے شانے سے شانہ ملاکر جالب نے صدر ایوب کے اقتدار کے خلاف مزاحمت کی تھی۔ جالب نے اس سے پہلے ہی نیشنل عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی تھی۔ بھٹو نے جالب کو پیپلزپارٹی میں شمولیت کی دعوت دی لیکن جالب نے انکار کر دیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا جب بھٹو کے دور میں جالب کو جیل جانا پڑا۔ بھٹو کے دور میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی گونج ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ ہوا یوں کہ غیرملکی مہمانوں کیلئے ایک تقریب لاڑکانہ میں ہورہی تھی‘ وہاں اداکارہ ممتاز کو زبردستی شرکت پر مجبور کیا گیا۔ جس پر جالب نے ایک نظم لکھی:
قصرِ شاہی سے یہ حکم صادر ہوا/لاڑکانے چلو، ورنہ تھانے چلو
اپنے ہونٹوں کی خوشبو لٹانے چلو/ گیت گانے چلو، ورنہ تھانے چلو

جالب نے لاہور سے الیکشن میں حصہ بھی لیا لیکن الیکشن کیلئے سرمایہ چاہیے جو اس کے پاس نہیں تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیاکہ بھٹو اور جالب میں اختلافات کی خلیج حائل ہوگئی۔ اب بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریک میں جالب بھی شریک تھا۔ بھٹو کا عہد اس وقت اچانک ختم ہو گیا جب ملک میں ضیاالحق کے مارشل لا کا آغاز ہوا۔ جالب جب بھی سوچتا ایک رات کا اختتام ہو رہا ہے وہیں سے ایک نئی شب کا آغاز ہو جاتا۔ جالب نے پہلے ادوار بھی دیکھے تھے لیکن یہ دور ان سب ادوار سے کڑا تھا۔ انہیں دنوں کراچی پریس کلب میں جالب کو بلایا گیا جہاں اس نے وہ نظم ترنم سے پڑھی جس نے اقتدار کے ایوانوں میں زلزلہ پیدا کردیا۔
ظلمت کو ضیا‘ صرصر کو صبا‘ بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر‘ دیوار کو در‘ کرگس کو ہما کیا لکھنا

یہ نظم جنوں پیشہ جالب کا اپنے وقت کے حکمران کو براہ راست چیلنج تھا۔ جالب کو اس دور میں بھی جیل جانا پڑا۔ یہی زمانہ تھا جب حدود آرڈیننس کا اعلان کیا گیا‘ جس پر عورتوں اور سول سوسائٹی نے احتجاج کا اعلان کیا۔ عاصمہ جہانگیر کہتی ہیں کہ انہوں نے حبیب جالب سے درخواست کی کہ وہ بھی اس احتجاج میں آئیں۔ جالب صاحب نے عاصمہ جہانگیر سے وعدہ کرلیا کہ وہ ضرور اس مظاہرہ میں آئیں گے۔ مال روڈ پر مظاہرہ شروع ہوا تو پولیس نے اس مظاہرے پر لاٹھی چارج شروع کر دیا۔ جالب صاحب کو بھی بد ترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس واقعے کے حوالے سے جالب صاحب نے ایک نظم لکھی جو مزاحمت کے راستے کی صعوبتوں کا احاطہ کرتی ہے۔ اس کا مطلع ملاحظہ کریں:
بڑے بنے تھے جالب صاحب پِٹے سڑک کے بیچ
گولی کھائی لاٹھی کھائی گرے سڑک کے بیچ

اب حبیب جالب کے گرد گھیرا تنگ ہو رہا تھا۔ پولیس ان کی گرفتاری کے لیے جگہ جگہ چھاپے مار رہی تھی۔ پھر ایک دن پولیس جالب کی تلاش میں عاصمہ جہانگیر کے والد ملک جیلانی صاحب کے گھر پہنچ گئی۔ انہیں خبر ملی تھی کہ جالب یہاں موجود ہیں۔ پولیس کو صدر دروازے پر روکنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ زبردستی گھرمیں داخل ہوگئی۔ جالب صاحب اس روز جیلانی صاحب کے گھر میں ہی تھے لیکن وہ جیل سے باہر رہ کر عملی جدوجہد کرنا چاہتے تھے۔ پولیس اب گھر میں داخل ہوچکی تھی۔ انہوں نے سب کمروں کو الٹ پلٹ دیا تھا۔ وہاں ان کا مطلوبہ ملزم نہیں تھا۔ اچانک ان میں سے ایک نے درشت لہجے میں پوچھا گھر کے سرونٹ کوارٹر کس طرف ہیں؟

ضیاء الحق کے دور کا ایک اہم واقعہ ریفرنڈم تھا۔یہ ریفرنڈم دراصل قوم کے ساتھ ایک بھونڈامذاق تھا ۔عام لوگوں کی اکثریت نے اس ریفرنڈم کا بائیکاٹ کیا تھا لیکن نتیجہ تو پہلے سے ہی تیار ہو چکا تھا۔ یوںریفرنڈم میں اسلامی اصلاحات کی حمایت میں 98.5 فیصدووٹ آئے تھے جس کے نتیجے میں ضیاء الحق نے پانچ سال کے لیے اپنے اقتدار کی مدت میں اضافہ کر لیا ۔حبیب جالب نے ریفرنڈم کی اصلیت کا پول اپنی نظم ریفرنڈم میں یوں کھولا:
شہر میں ہُو کا عالم تھا جِن تھا یا ریفرنڈم تھا
قید تھے دیواروں میں لوگ باہر شور بہت کم تھا
کچھ باریش سے چہرے تھے اور ایمان کا ماتم تھا
مرحومین شریک ہوئے سچائی کا چہلم تھا

ضیاء الحق کے دور میں بھٹو کو قتل کے جرم میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دراصل عدالتی قتل تھا۔اس وقت بھٹو کے دونوں بیٹے ملک سے باہر تھے ایسے میں بے نظیر بھٹو نے احتجاج کا پرچم اٹھایا۔ اس موقع پر جالب نے بے نظیر کیلئے نظم لکھی جو آناً فاناً گلیوں محلوں میں پھیل گئی ۔ نظم کا آغاز اس طرح سے تھا:ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے /پھیلے ہیں ہمت کے اجالے ایک نہتی لڑکی سے۔

اس نظم نے بے نظیر کے لیے ملکی سطح پر ہمدردی کے جذبات پیدا کر دیے تھے لیکن پھر جب بے نظیر حکومت میں آ گئیں اور عوام کی کسمپرسی کا عالم وہی رہا تو جالب چپ نہ رہ سکا اور بول اٹھا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے دن پھرے ہیں تو بس وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے

اب جالب کا دمِ آخریں قریب آ رہا تھا ۔ پاکستانی سیاست میں مزاحمت کا سب سے روشن چراغ ٹمٹما رہا تھا ۔ وہ جس کی شاعری نے کتنے ہی دلوں کو ولولہ ٔ تازہ دیا تھا ‘وہ جس کی جمہوریت کے لیے قربانیاں ہمیشہ یاد رہیں گی‘ وہ جس نے گھر کی آسائش کیے بجائے عام لوگوں کے مفادات کے لیے جدو جہد پر توجہ دی۔ جالب کو کیا پتہ تھا کہ اس کے بعد بھی اس کی شاعری کی تپش لوگوں کے دلوں کو گرماتی رہے گی اور مزاحمت کے قافلوں کی پیشوائی کرتی رہے گی ۔ جب پرویز مشرف کے زمانے میں ججوں کو گھر بھیج دیا گیا تو عدلیہ بحالی تحریک چلی اس تحریک کا حصہ بننے کے لیے حبیب جالب موجود نہیں تھے کیونکہ اس سے پہلے ان کا انتقال ہو چکا تھا ‘ لیکن ان کا کلام اس تحریک کا ترانہ بن گیا ۔ ریلیاں شروع ہو گئیں جن میںوکیلوں کے علاوہ سول سوسائٹی کے لوگ بھی شریک ہوتے۔ لندن میں احتجاجی ریلیوں میں شاہرام اور تیمور (لال بینڈ)جالب کے کلام سے دلوں کو گرماتے تھے۔ احتجاجی ریلیوں میں شاہرام کی دل نشیں آواز میں ”دستور‘ ‘، ”مشیر‘‘ اور جالب کی دوسری نظموں نے ایک سماں باندھ دیا تھا ۔ عدلیہ بحالی تحریک کامیاب ہو گئی‘ تحریک کی کامیابی میں دوسرے عوامل کے علاوہ جالب کی انقلابی نظموں کا بھی حصہ تھا۔

یہ ہے زندہ کلام کی تاثیر جو کبھی پرانانہیں ہوتا‘ جو ہر دور میں مظلوموں ‘ محنت کشوں اور مفلسوں کی دل کی آواز بن جاتا ہے۔ اس کلام میں جالب کی ذاتی جدوجہد کی روشنی بھی شامل تھی۔

جالب ہر دور میں جابر حکمرانوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا لیکن وہ معاشرے کے پسے ہوئے طبقے کی ترجمانی پوری ایمانداری سے کرتا رہا۔ جس نے قوم کے لیے اپنے گھر اور پیاروں کو فراموش کر دیا‘ جس کی موت کے بعد اس کے گھر والے شدید معاشی مشکلات کا شکار ہو گئے ۔ جس کی بیٹی طاہرہ ٹیکسی چلاتی ہے لیکن شاید ہر با اصول شخص کا مقدر یہی ہوتا ہے۔حبیب جالب کی کہانی نئی نہیں۔ازل سے ابد تک انسانی تاریخ کی یہی داستان ہے ۔ وہی جبر کی سیاہ رات‘ وہی تعزیر کی تیز ہوا ئیں اور وہی ان ہواؤں سے الجھتے مزاحمت کے چراغ۔ جالب بھی ایک ایسا ہی چراغ تھا جو عمر بھر منہ زور حکمرانوں سے الجھتا رہا۔ جو آمریت کی سیاہ رات میں امید کی روشن کرن تھا اور جس کی روشنی جبر کی راتوں میں امید کی راہیں اجالتی رہے گی۔

اب جالب کی صحت ایک گرتی ہوئی دیوار تھی اسے لاہور کے شیخ زید ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا۔نقاہت نے جالب کو بستر سے لگا دیا تھا لیکن اس عالم میں بھی وہ ذہنی طور پر چوکس اور مستعد تھا۔ معروف صحافی مجاہد بریلوی راوی ہیں کہ جب جالب ہسپتال میں تھے تو نواز شریف کی حکومت تھی انہی دنوں نواز شریف نے ایک جلسے میں عوام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں آپ کے لیے جان بھی دے دوں گا‘ جالب نے بستر پر لیٹے لیٹے ایک نظم لکھی جس کا مطلع تھا:
نہ جاں دے دو نہ دل دے دو
بس اپنی ایک مل دے دوـ

ہسپتال کی طویل راتوں میں جب جالب تنہا ہوتا تو اسے ان سب ہم سفروں کا خیال آتا جنہوں نے جمہوریت کے لیے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگا دیا تھا ۔پھر اسے اپنی زندگی کے وہ سارے مرحلے یاد آ جاتے جب ایک جنون اس کی زندگی کا زادِ راہ تھا اورجب وہ جمہوریت کی نیلم پری کے تعاقب میں بہت دور نکل گیا تھا۔ پھر اسے اپنی نظم ”جمہوریت نہ آئی‘‘کا ایک بند یاد آ گیا اور اس کے چہرے پر ملال کا رنگ چھا گیا۔نظم کی سطر سطر میں اداسی جھلک رہی تھی:
بنگال بھی گنوایا/ اپنا ہی خوں بہایا /دار و رسن سے کھیلے /پاپڑ ہزار بیلے/محنت نہ رنگ لائی /جاں رات دن کھپائی/ جمہوریت نہ آئی

تب رات کے گھپ اندھیرے میں اسے ایک بہت پرانی بات یاد آ گئی اور اس کے چہرے پر خود بخود مسکراہٹ پھیل گئی۔اسے وہ دن یاد آ گیا جب پولیس اسے ہتھکڑیاں لگا کر اس کے گھر لائی تھی تا کہ وہ اپنی ضبط شدہ کتاب بر آمد کرائے۔ ایسے میں اس کی ننھی سی معصوم بیٹی باپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی دیکھ کر ہنس پڑی تھی ۔ شاید وہ ہتھکڑی کو کھلونا سمجھی تھی۔جالب کو اس موقع پرلکھی ہوئی اپنی نظم یاد آ گئی:
اس کو شاید کھلونا لگی ہتھکڑی
میری بچی مجھے دیکھ کر ہنس پڑی
یہ ہنسی تھی سحر کی بشارت مجھے
یہ ہنسی دے گئی کتنی طاقت مجھے
کس قدر زندگی کو سہارا ملا
ایک تابندہ کل کا اشارہ ملا

ہسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے جالب کی نظروں کے سامنے سے ماضی کے سارے منظر گزر گئے ۔ اس نے سوچاکیسا کٹھن راستہ تھا لیکن کیسا دل ربا سفر تھا جب وہ ایک خواب کی انگلی پکڑ کر چل رہا تھا۔ اسے اپنا ایک شعر یاد آگیا جو زندگی کے سفر میں اس کا منشور رہا۔ نہ ڈگمگائے کبھی ہم وفا کے رستے میں /چراغ ہم نے جلائے وفا کے رستے میں۔اس کے چہرے پر اطمینان اور تشکر کی روشنی پھیل گئی۔ پھر اس کی آنکھیں خود بخود مندنے لگیں ۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی چاندنی اترنے لگی اور ایک نئی سحر کی بشارت اس کی بند ہوتی ہوئی آنکھوں میں ہلکورے لینے لگی۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے