ریحام خان کے پہلے پروگرام کے دوران پس پردہ کیا ہوتارہا؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی سابق اہلیہ اور اینکر ریحام خان کا پہلا پروگرام نیو ٹی وی کے پلیٹ فارم سے نشر ہوچکاہے اور ایک ویب سائٹ نے دعویٰ کیاہے کہ پہلے ہی پروگرام کے دوران ریحام خان نے دفتر میں جھگڑا کردیا جس پر شوکے لیے مہمان بھی آنے سے گریزاں ہیں جبکہ دفتری عملہ بھی رویئے سے عاجز ہوچکاہے ، اسی جھگڑے سے متعلق ’وجود‘ نامی ویب سائٹ کا مبشر لقمان نے بھی حوالہ دیا اور قارئین کی دلچسپی کیلئے یہاں بھی پیش کیاجاتاہے تاہم روزنامہ پاکستان کے آزاد ذرائع سے اس جھگڑے کی کوئی تصدیق یا تردید نہیں ہوسکی ۔

ویب سائٹ کے مطابق ’تبدیلی‘ کے نام سے شروع ہونیوالے پروگرام کیلئے ریحام خان کوکوئی مہمان میسر نہیں آرہا۔ ٹی وی کے مہمانوں کے ساتھ کئے جانے والے پروگراموں کا مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف پیپلز پارٹی کے مہمانوں کے ساتھ موثر نہیں ہوتے، مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے مہمانوں کی موجودگی ضروری ہوتی ہے۔ظاہر ہے کہ ریحام خان کے پروگرام میں کسی تحریک انصاف کے رہنما کی شرکت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر مسلم لیگ ن کے رہنما بھی اس پروگرام میں شرکت کے حوالے سے نہایت محتاط ہیں۔ اب تک اسلام آباد سے اس پروگرام کے ایگزیکٹو پروڈیوسر نے جن لیگی رہنماو¿ں سے رابطے کئے ہیں۔ ان میں صف اوّل کے کسی بھی رہنما نے پروگرام میں شرکت کی حامی نہیں بھری، جبکہ درجہ دوم کے سیاست دان بھی اس پروگرام میں شامل ہونے سے گریزاں ہیں۔ اس متوقع پریشانی کا اندازہ ٹی وی انتظامیہ نے کسی بھی سطح پر نہیں لگایا تھا۔ چنانچہ اب یہ مسئلہ ایک بحران بن کر تبدیلی کے پہلے پروگرام میں اس طرح نمایاں ہو ا ہے کہ اس میں ایک مہمان کے طور پر ریحام خان نے ایک دوسری اینکر خاتون عاصمہ چوہدری کو مدعو کیا ہے۔

چینل کی نوزائیدگی اور کم مائیگی کا خیال نہ کرتے ہوئے ریحام خان نے اس پروگرام کی ریکارڈنگ میں گرجنے برسنے سے آغاز کیا اور بعض سنگین نوعیت کے مسائل پہلے پروگرام کی پہلی ہی ریکارڈنگ سے پیدا کر دیئے ہیں۔ریحام خان نے جب ریکارڈنگ کے دوران اس سمعی (آڈیو) مسئلے کا سامنا کیا تو وہ آپے سے باہر ہو گئیں۔ اورریکارڈنگ کے وقفے میں کہا کہ ”میرے اسٹاف کو ‘behave’ کرنا پڑے گا، میں جب عمران خان جیسے آدمی پر ہاتھ اٹھا سکتی ہوں تو یہ اسٹاف کیا چیز ہے؟“ اس جملے کی ادائی کے فوراً ہی بعد جو وقفے کے باوجود ریکارڈ ہو چکا ہے اور اینکر کے اس رویئے سے چینل کے مالک چوہدری عبدالرحمان کو مطلع کیا گیا۔ ریحام کا یہ فقرہ جو سیاسی طور پر خاصا کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کہاں سے ”لیک“ کیا جاتا ہے کیونکہ سٹاف نے واٹس ایپ کرنے کی دھمکی بھی دی۔ اس فقرے کی ادائی کے ساتھ ہی ریحام خان نے دراصل مشہور صحافی اور تجزیہ کار عارف نظامی کی اس خبر کو بھی خود ہی درست ثابت کر دیا ہے، جس میں انہوں نے منکشف کیا تھا کہ ریحام خان نے عمران خان پر ہاتھ اٹھانے کی بھی کوشش کی تھی۔

اس معاملے کا ایک اور حیرت انگیز اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ ریحام خان عارف نظامی کی خبروں پر بہت گرجتی برستی رہی ہیں۔ مگر عملاً وہ جب بھی اس موضوع پر لب کشائی کرتی ہیں تو وہ عارف نظامی کی خبروں کو درست ثابت کرنے کی موجب بنتی ہیں۔ اپنی اس کیفیت کے باعث وہ عارف نظامی پر گفتگو کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ انہوں نے اپنے پروگرام میں کہا ہے کہ میری کردار کشی کے لئے ایسے لوگوں نے حصہ لیا ، جن کا میں نے کبھی نام ہی نہیں سنا،عارف نظامی کو ایک غیر معروف صحافی قراردیا ہے اور کہا ہے کہ وہ میرے بارے میں غلط خبریں دیتے ہوئے دراصل صحافت میں اپنا قد بلند کرتے رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ریحام خان کے پروگرام ”تبدیلی“ کی ریکارڈنگ کے دوران مزید کچھ واقعات بھی نہایت دلچسپی کے حامل ہیں۔ موصوفہ نے اپنے پہلے پروگرام میں ایگزیکٹو پروڈیوسر مبین رشید کے ساتھ انتہائی نامناسب رویہ اختیار کیا۔ مبین رشید لندن میں ہونے والی میڈیا کانفرنس کے میزبانوں میں شامل تھے ، انہوں نے ہی ریحام خان کے نیو میں معاملات طے کرانے کی حکمت عملی میں حصہ لیا اور ریحام کا تین اقساط پر مشتمل تفصیلی انٹرویو بھی کیا۔ مگر اب وہ اس پروگرام اور خود نیو انتظامیہ کے لئے بھی شاید بوجھ بن گئے ہیں اسی لئے جب وہ اسلام آباد میں پروگرام کے ایگزیکٹو پروڈیوسر کی حیثیت میں ریکارڈنگ والے روز پہنچے تو انہیں ریحام خان نے کمرے میں داخل ہوتے ہوئے روک دیا ، اور کہا کہ وہ باہر تشریف رکھیں کیونکہ وہ اپنے اسٹاف کے ساتھ میٹنگ میں مصروف ہیں۔

ریحام خان نے پروگرام کی ریکارڈنگ سے قبل ، ریکارڈنگ کے دوران میں اورریکارڈنگ کے بعد انتہائی سخت الفاظ ٹی وی انتظامیہ کے لئے باربار اور متواتر استعمال کئے۔ وہ مسلسل نیو کی خرابیوں اورکمیوں کی نشاندہی کرتی رہیں۔ اور ایک موقع پر تو یہاں تک کہہ دیا کہ ”میں نے تین دن پہلے یہ فیصلہ کیا تھا کہ یہاں سے چلی جاو¿ں ، مگر مجھے کسی نے یہ مشورہ دیا کہ ابھی فوراً ادارے کو چھوڑنا مناسب نہیں۔ اگر انتظامیہ نے میری ضرورتیں پوری نہیں کی تو میں یہاں پر نہیں رہوں گی،یہ بھی سناگیاکہ ادارہ صرف ریحام خان اور بابر اعوان کے دو پروگرامات پر 86 لاکھ کے بھاری اخراجات اٹھا رہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے