سولہ دسمبر آیا ہی کرتے ہیں !!

میدان کے عین درمیان میں لکڑی کی سادہ سی میز رکھی ہے جس کے دونوں جانب بھارتی فوج کےسپاہی الگ الگ قطار میں کھڑے ہیں، میز کے گرد پہلے جنرل اروڑا بیٹھتے ہیں، ان کے برابر جنرل نیازی بیٹھ جاتے ھیں ۔۔۔۔۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے زیادہ ذلّت آمیز لمحہ ہے، ایک مسّودہ میز پر رکھا ہے،جنرل نیازی کا ہاتھ آگے بڑھتا ہے اور ان کا قلم مسودے پر اپنے دستخط ثبت کر دیتا ہے۔۔۔ یوں پاکستان کا پرچم سرزمین ڈھاکہ میں سرنگوں ہوگیا۔۔۔ جنرل نیازی اپنا ریوالور کھولتے ہیں اور گولیوں سے خالی کر کے جنرل اروڑا کے ہاتھ میں تھما دیتے ہیں ۔۔۔ جنرل نیازی کے تمغے اور رینک سرعام اتارے جاتے ہیں۔۔۔۔ ہجوم کی طرف سے گالیوں کی بوچھاڑ شروع ہوتی ھے۔۔۔ جنرل نیازی اپنی جیپ کی طرف آتے ہیں جس کا بھارتی فوجیوں نے محاصرہ کر رکھا ہے ۔۔۔۔” قصاب،بھیڑیے اور قاتل‘‘ کا شور اُٹھتا ہے، جنرل نیازی اپنی گاڑی میں بیٹھنے والے ہیں، ایک آدمی محاصرہ توڑ کر آگے بڑھتا ہے، اور اُن کے سر پر جوتا کھینچ کر مارتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہائے ! یہ رُسوائی ، یہ بے بسی اور یہ بےچارگی ، یہ ذلّت اور یہ ہزیمت ، ہماری تاریخ نے پہلے کبھی نہ دیکھی تھی ۔‘‘( سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک )

لکھنے کو بڑا حوصلہ درکار تھا، کوئی افسانہ تو نہیں لکھنے جارہے تھے کہ بس قلم اٹھایا اور چلا دیا ۔۔۔۔۔ یہ تو اپنی ہی آپ بیتی تھی، اپنے ہی لہو کی داستاں تھی، نام نہاد اپنوں ہی کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کی دردناک روداد ۔

سرا پکڑنے کی تلاش میں بہت دیرتک تاریخ کے جھروکوں میں جھانکتی رہی، سامنے ہی صدیق سالک کی کربناک سچائیاں لیے ایک ایک حقیقت میری تلاش کا جواب دیتی ” میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا ‘‘ ہاں! ہم نے بھی اس میں حقیقتا ڈھاکہ کو ڈوبتے دیکھا‘‘ لمحہ لمحہ ڈوبتے ڈھاکہ میں کئی بار آنکھیں دھندلائیں، کئی بار الفاظ آپس میں گڈ مڈ ہوئے۔۔۔۔۔ کئی بار دل اپنوں کے ہاتھوں اپنوں کے اس خون ناحق پر بہت زور سے نوحہ کناں ہوا۔۔۔۔!! مگر وہ نوحے کون سنتا۔۔؟؟ غلطیوں،زیادتیوں،اور ناانصافیوں کے شور میں ایسے نوحے دب جایا کرتے ہیں ۔۔۔
وہ خواب وہ نظریہ یوں دو لخت کیوں ہوا ؟؟؟

اس سوال میں خود بہت کچھ ہے مگر سیکھنے اور سمجھنے والوں کیلیے ۔۔۔ تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سقوط ڈھاکہ پرصرف آنسو بہانے کی بجائے ہم تلخ حقائق کا جائزہ لیں جن کے سبب ہمیں مشرقی پاکستان میں ذلت و رسوائی کا سامنا ہوا۔ خرابیاں تو پاکستان بننے کے بعد ہی واضح ہو گئی تھیں جن کا احاطہ کرنا تفصیل طلب ہے اس لئے صرف1971ءسے مختصر تجزیہ ضروری ہے۔
سن1970 ء میں جنرل یحیی خان نے انتخابات کرائے جن کے نتیجے میں ملک سیاسی اعتبار سے تقسیم ہو گیا۔ اس تقسیم کو سیاسی حکمت عملی سے دور کیا جا سکتا تھا لیکن دانستہ طور پر طاقت کے زور پر اسے حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ ذرا غور کیجئے کہ جنرل یحییٰ خان جنوری 1971 ءمیں ڈھاکہ جاتے ہیں اور وہاں جھوٹا اعلان کرتے ہیں کہ قومی اسمبلی کا پہلا اجلاس 9 مارچ کو ڈھاکہ میں ہوگا۔ اسلام آباد واپس آتے ہی اپنا وعدہ بدل دیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کو ملتوی کردیا اور نئی شرائط عائد کر دیں۔ ہماری کوتاہیاں دشمن کی راہ ہموار کرتی گئیں اور بالاخراس نے ہمیں یوں زیر کیا کہ ہم اٹھ بھی نہیں پائے مگر افسوس صد افسوس کہ ہمیں اس کا احساس تک نہیں تھا کہ ہم کیا کھو رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ بلکہ ہماری مغربی پاکستان کی اعلٰی سیاسی قیادت کی جانب سے ”خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بچ گیا۔“ تو کبھی ” ادھر ہم ادھر تم ‘‘کی بازگشت سنائی دی ۔

16دسمبر کو پاکستان میں سقوط ڈھاکہ کے المیہ پر ملک بھر میں بے شمار جگہوں پر تقریبات ہوتی ہیں، اس المیہ کے اسباب کا ذکرہوتا ہے، مقالے پڑھے جاتے ہیں اور ملک کے دانشور اپنے خیالات کا بڑے پر زور الفاظ میں اظہار کرتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستانی قوم کو اس سانحے پر بڑا دکھ ہے اور قوم اس سے سبق سیکھنا چاہتی ہے اور ملک کی تقسیم سے نظریہ پاکستان کو جو نقصان پہنچا ہے ‘اس پر پشیمان ہے اور اس نظریے کی مضبوط حصار بندی کی ضرورت سے آگاہ ہے۔ در اصل یہ تمام باتیں خود فریبی ہے ۔ حقیقت بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے رہنما مولانا عبدالقادر ملا کو پھانسی دینے سے عیاں ہو گئی ہے جنہیں اس جرم میں پھانسی دے دی گئی کہ انہوں نے 1971 ءمیں مشرقی پاکستان میں فوج کا ساتھ دیاتھا، وہاں حکومت کی رٹ قائم کرنے کیلئے جنگ لڑی تھی۔ یادرہے کہ آرمی کے ایک میجر نے جماعت اسلامی کے نوجوانوں پر مشتمل ایک تنظیم ’البدر‘ کے نام سے بنائی جس نے پاک فوج کے شانہ بشانہ پاکستان کی جنگ لڑتے ہوئے بے شمار قربانیاں دیں۔ عبدالقادر ملا پر الزام تھا کہ ’البدر‘ کا حصہ ہوتے ہوئے‘انہوں نے بنگالیوں پر ظلم کیا‘ انہیں قتل کیا اور خواتین کی بے حرمتی کی۔ ایسے الزامات جن کی کوئی بنیاد ہی نہیں تھی اور ان الزامات کی بنیاد پر انہیں اور دوسرے جماعت اسلامی کے قائدین کو اس عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جسے جنگی جرائم کے خلاف انٹرنیشنل ٹرائل کورٹ کا نام دیا گیا(اس ٹرائل کورٹ کو اقوام متحدہ مسترد کرچکی تھی) ۔
افسوس! اس ظالمانہ فیصلے کے خلاف ہماری فوج، ہماری حکومت کوئی اسٹینڈ نہ لے سکی اور اس ظالم حسینہ واجد نے ظلم و بربریت کی انتہا کردی، ملا عبدالقادر کے بعد قتل عام کا ایسا سلسلہ شروع کیا جو محمد قمرالزماں سے ہوتا ہوا اب تک چھ بےگناہوں کوپاکستان کی محبت کے جرم میں پھانسی پر لٹکا چکی ہے، ان میں سے ایک رہنما علی احسن مجاہد جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سیکرٹری جنرل تھے اور بنگلہ دیشی پارلیمنٹ کے سابق رکن ، سابق وفاقی وزیر تھے، انھیں24 نومبر کی رات پھانسی دے دی گئی اور ابھی اس کے انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوئی، اس کے منہ کو جو خون کا چسکا لگا وہ کسی طرح ختم ہوتا نظرنہیں آرہا ۔

کاش! ہم یہ جان سکتے کہ یہ بنگلہ دیش کا اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ نظریہ پاکستان کے تقدس کا معاملہ ہے۔ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے اس لئے کہ ہمارا مشرقی پاکستان کا علاقہ کہ جہاں مسلم لیگ ایک جماعت کی حیثیت سے معرض وجود میں آئی تھی اور جہاں کے مسلمانوں نے یک زبان ہو کر پاکستان کے حق میں ووٹ دیا‘ آج ہم ان سے اس قدر بیگانہ ہو چکا ہے کہ ہم اپنے ہم وطنوں کو بھی بھلا بیٹھے ہیں کہ جنہوں نے ہماری فوج کے ساتھ مل کر ملک کی بقا کی جنگ لڑی‘ قربانیاں دیں۔ ہمارے فوجی جوان اور آفیسر اس جنگ میں شہید ہوئے اور ان میں اکثر وہاں گمنام قبروں میں دفن ہیں۔ ہماری حکومت نے ان کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کی کوئی کوشش نہیں کی جبکہ ویتنام کی جنگ ختم ہونے کے نصف صدی گزرنے کے بعد بھی امریکہ اپنے گمنام سپاہیوں کو تلاش کرتا پھر رہا ہے۔ اس لئے کہ امریکی قوم کو حب الوطنی کے معنی معلوم ہیں۔

تجزیہ نگارمانتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے بزرگ رہنماﺅں کو بھارتی اشارے پر اسلام اور پاکستان سے محبت کی سزا دی جا رہی ہے۔ بنگلہ دیشی عوام حسینہ واجد حکومت کی اسلام اور پاکستان دشمن پالیسیوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔عبدالقادرملا کا قصور کیا تھا‘ پاکستان سے محبت‘ وہ پاکستان کی تقسیم کامخالف تھا۔ اس محب وطن پاکستانی کا خیال تھا کہ بھارت سے ساز باز کر کے پاکستان کو توڑنے کی سازش کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کی اس سازش کو کامیاب نہیں ہوناچاہئے۔ اس باہمت نوجوان نے پاکستان‘ نظریہ پاکستان اوراسلام کی حفاظت کا بیڑا اٹھایا۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ پاکستان سے محبت کی خاطر اپنی جان قربان کرنے والا 65 سالہ بوڑھا شخص آج پاکستانیوں کی نظر میں اجنبی ہے‘ خود پاکستانی میڈیا اسے جنگی جرائم کا مرتکب سمجھ رہا ہے۔ وہ شخص جو دین و وطن کی خاطر پھانسی کے پھندے پر جھول گیا اسے مجرم قرار دیا جا رہا ہے۔

اپنے دور اقتدار میں جنرل پرویز مشرف بنگلہ دیش گئے اور یادگار پر پھول چڑھائے اور ”غلطیوں کی معافی مانگی۔“ کون سی غلطیاں؟ کیا وطن کی بقا کی جنگ لڑنا غلطی ہے؟ ہمارے فوجی شمال مغربی سرحدوں پر جو جنگ لڑ رہے ہیں اور جانوں کی قربانیاں دے رہے ہیں کیا یہ بھی غلطی ہے؟ یاد رہے جو قومیں اپنے ماضی سے سبق نہیں حاصل کرتیں اور محسنوں کو فراموش کردیتی ہیں وقت پھر انہیں یوں فراموش کردیتا ہے کہ وہ تاریخ کے اوراق میں بھی جگہ نہیں پاتے ۔۔

کون نہیں جانتا کہ بنگلہ دیش کا قتل عام ، یہ سب بھارتی ایما پر کیا جارہا ہے، کل بھی جو دشمن ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں لگا ہوا تھا وہی دشمن آج بھی ہماری شہہ رگ کا لہو چاٹ رہاہے ۔۔ ہم نے دشمن کو فراموش کردیا مگر دشمن نے ہمیں فراموش نہیں کیا اور سولہ دسمبر 1971 کا سورج جو تباہی لے کر طلوع ہوا تھا جب ہم نے اسے بھلا دیا تو دشمن نے پھر سولہ دسمبر 2014 کو ہمارے جگر گوشوں پر وار کیا۔

یاد رکھیے ۔۔۔!!! جو قومیں اپنی زندگی میں آنے والے سولہ دسمبر1971 کو بھول جایا کرتی ہیں تو ان کی زندگیوں میں سولہ دسمبر 2014 آیا ہی کرتے ہیں ۔۔۔۔!!

نوٹ : اس کالم میں کچھ معلومات جنرل اسلم بیگ کے ایک کالم سے لی گئی ہیں !!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے