پاک فوج کے خلاف نیا پروپیگنڈا

پچھلے دو دنوں کے دوران سوشل میڈیا کی بعض پوسٹوں پر مجھے شدید حیرت، افسوس اور غصہ بھی آ رہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ پاک فوج کے خلاف ایک باقاعدہ مہم شروع ہوچکی ہے۔ ایک عجیب وغریب بیانیہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ آج بی بی سی پر فوج کے خلاف ایک نہیں بلکہ تین چار رپورٹیں ہیں۔ واضح طور پر یہ ایک خاص ٹرینڈ کو ظاہر کر رہا ہے۔ شائد بعض قوتوں کو یہ افسوس ہے کہ سانحہ پشاور کے حوالے سے لوگ متحد اور یکسو کیوں‌ہیں، فوج اور منتخب حکومت بلکہ سیاسی قیادت بھی ایک ہی صفحے پر کیوں آ‌گئے، آج پشاور سکول میں برسی تقریب میں سب اکٹھے کیوں‌ہوگئےہیں؟

پشاور سکول کے شہدا بچوں کے بعض والدین نے احتجاج کیا ہے، عمران خان نے انہیں سٹیج پر بلا کر ان کی بات سنی اور یوں ان کا احتجاج مین سٹریم میڈیا پر آ سکا۔ جن کے بچے شہید ہوئے ہیں، ان کی تلخی، برہمی سمجھ میں آنے والی بات ہے، دکھی لوگ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، ان کی بات برداشت کرنی چاہیے، انہیں سخت وتلخ بات کہنے کا بھی حق ہے، ایسی کیفیت میں تو لوگ خدا سے بھی شکوہ کناں‌ہوجاتے ہیں، بعض تو شدت جذبات میں‌خدا کے وجود ہی سے منکر ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس احتجاج کی ویڈیو سے جس طرح فائدہ اٹھایا جا رہا ہے، وہ حیران کن ہے۔ دو تین حلقے اس مہم میں پیش پیش ہیں۔ وہ مذہبی حلقے جو دل سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے حامی ہیں، تکفیر ان کا مسلک بن چکا اور ٹی ٹی پی کا ہر مخالف ان کے نزدیک کافر اور واجب القتل ہے۔ چونکہ سانحہ پشاور کے بعد کے حالات میں یہ لوگ دبک گئے اور اپنے خیالات کے اعلانیہ اظہار کی جرات نہ کر سکے۔ اب ایک سال گزر گیا ، ان کے پیٹ میں‌مروڑ‌بھی اٹھ رہی اورانتقامی جذبہ بھی زوروں‌پر ہے۔ فوج کے خلاف جاری ہر مہم میں یہ پیش پیش ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہیں جو فوج کے خلاف دشمنی اپنے ذہن ودماغ‌میں نقش کر چکے ہیں، فکری طور پر یہ آج تک ضیا الحق کے دور سے باہر نہیں آئے، جنرل ضیا کے دور میں انہوں‌نے فوج دشمنی اور نفرت سیکھی تھی، آج تک وہ سبق بھلا نہیں پائے۔ تیسرا طبقہ ایم کیو ایم کا ہے، جسے کراچی آپریشن سے شدید ناگواری اور تکلیف ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ صرف فوج ہی ان کے ظلم اور فسطائیت کا خاتمہ کر سکتی ہے، سوشل میڈیا پر یہ لوگ بہت متحرک ہیں۔پیپلزپارٹی کا جذباتی اور ناراض طبقہ بھی کسی حد تک اس میں شامل ہے کہ زرداری صآحب کے فرنٹ مین کا پکڑا جانا انہیں بہت ناگوار گزرا ہے۔ میں نے دو الگ الگ پوسٹؤں پر اس حوالے سے کمنٹس کئے تھے، انہیں یہاں اکٹھا کر رہا ہوں۔ پہلا کمنٹ ایک ویڈیو پر کیا تھا، جو ایم کیو ایم کے ایک حامی نے پوسٹ کی تھی اور مقصد صرف پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا تھا۔ میں‌نے لکھا تھا:

’’معذرت کے ساتھ اس سب کچھ کا مقصد صرف پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈہ کرنا ہے۔ میں‌نے ایک صاحب کی بعض پوسٹیں دیکھی ہیں، ان میں‌ایم کیو ایم کی زبردست حمایت اور کراچی آپریشن پر تنقید تھی۔ جو ایم کیو ایم جیسی بدمعاش، فسطائی اور دہشت گرد تنظیم کا حامی ہو، اس سے کیا بات ہوسکتی ہے۔ ویسے ان صاحب کو اتنا بھی نہیں معلوم کہ سکول میں‌ میجر نہیں بلکہ کرنل تھا اور وہ کوئی فوجی نہیں بلکہ ڈاکٹر تھا، جو فرسٹ ایڈ کی تربیت دینے آیا تھا اور فوج میں‌پندرہ بیس سال گزارنے کی وجہ سے کرنل بن گیا تھا۔ جس طرح سکول کے کئی اساتذہ اور آیڈیٹوریم میں موجود متعدد طلبہ حملے اور فائرنگ سے بچ گئے ، اسی طرح وہ ڈاکٹر صاحب بھی بچ گئے ہوں گے۔ پھر یہ صریحآ جھوٹ کہ اس سکول پر سولہ پولیس والوں‌کی ڈیوٹی تھی، مگر اس دن صرف دو پولیس والے تھے۔ پھر یہ بھی درست نہیں‌کہ سکول پر حملے کا سکیورٹی الرٹ چلا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ روزانہ بے شمار سکیورٹی الرٹ جاری ہوتے ہیں، جن میں کسی نہ کسی جگہ پر حملے کی پیش گوئی کی ہوتی ہے، اس لئے کوئی بھی ادارہ کسی بھی سکیورٹی الرٹ کو سیریس نہیں لیتا۔ یہ حقیقت ہے کہ کسی کے وہم وگمان میں‌بھی نہیں تھا کہ ٹی ٹی پی والے ایسا بزدلانہ حملہ کریں گے۔ دہشت گردوں‌کو یہی تو ایڈؤانٹیج ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کا ہدف چنتے ہیں۔اس کا علاج یہ ہے کہ ان کا نیٹ ورک مکمل طور پر تباہ کر دیا جائے، ہزاروں‌کی تعداد میں‌سہولت کار پکڑے اور جیلوں میں بھر دئیے جائیں، جیسا کہ اب آپریشن ضرب عضب کے بعد کیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ اب دہشت گرد حملے نہایت کم ہوگئے، مگر ظاہر ہے یہ انتہائی اقدام تھا ،جو ہنگامی اور انتہائی قسم کے حالات میں ممکن تھا، سکول حملے کے بعد کی فضا میں تو اس انتہا تک جانا ممکن ہوسکا، پہلے ممکن نہیں تھا۔ اصل میں فوج دشمن لابی اس پر پریشان ہے کہ ضرب عضب میں‌فوج اور حکومت دونوں یکسو کیوں‌ہیں۔ اصل تکلیف یہی ہے۔ ‘‘
۔۔۔۔۔۔

دوسرا کمنٹ‌ایک نوجوان دوست کی پوسٹ پر کیا، جس میں انہوں نے نہایت سخت لہجے میں سانحہ پشاور کے حوالے سے قربانیوں کی اصطلاح استعمال کرنے والے پر سخت تنقید کی اور انہیں بے غیرت کہہ کر پکارا۔ میں‌نے لکھا:’’اظہار کے معاملے میں زبان پہلا دروازہ ہے، جب زبان وبیان میں کوتاہی برتی جائے، الفاظ کا درست چنائو نہ ہو تو آگے کون بڑھے گا۔ اس پوسٹ میں مجھے پہلے تو یہ سمجھ نہیں آئی کہ نقطہ ہے کون سا؟ پہلے سقوط ڈھاکہ کو کوریج نہ ملنے کا رونا رویا گیا، اس کی وجوہات سب کے سامنے ہیں،آپ بھی جانتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟ قارئین جس معاملے میں دلچسپی کم لیں، اس کو نیوز کوریج ہمیشہ کم ملتی ہے۔ یہ ایک سامنے کی مگر تلخ حقیقت ہے۔ ذرا اپنے گھر کے بچوں سے پوچھ لیجئے، میٹرک ، انٹر تک کے طالب علموں سے پوچھ لیں کہ سقوط ڈھاکہ کیا ہے، کیا ہوا تھا، کیوں‌ہوا تھا وغیرہ۔ جواب حسب منشا نہ ملنے پر اس کی ذمہ داری میڈیا اور تعلیمی نصاب پر نہ ڈال دیں، پھر یہ بھی سوچ لیجئے گا کہ گھر والوں نے کتنا ایک سمجھایا یہ ایشو اپنے بچوں کو۔

باقی مجھے یہ سمجھ نہیں‌آئی کہ قربانی لفظ استعمال کرنے سے اتنا چڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ ان بدبختوں نے ایک نہایت گھٹیا، بلو دا بیلٹ وار کیا۔ وار کر گئے ،نقصان تو ہوچکا۔ اب کیا کیا جاتا۔ کیا اپنے کپڑے اتار کربے لباس ہو کر بیٹھ جایا جائے کہ دہشت گرد جیت گئے اور وہ ہمیں نقصان پہنچا گئے؟ یا اس کے بجائے ایک بیانیہ بنایا جاتا، جس میں نقصان کو قربانی کہا گیا اور وہ سب کچھ جو آج ہم سب دیکھ رہے ہیں۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ دہشت گردوں‌کے ساتھ رعایت نہیں برتی گئی، ان کی کمر توڑ دی گئی۔ ایکشن پلان کے تحت ترپن ہزار لوگ پکڑے گئے، جن میں ہزاروں سہولت کار ہیں۔ بے شمار مارے گئے، میں لفظ بے شمار استعمال کر رہا ہوں‌کہ ان کی گنتی شائد نہ ہوسکے۔ القاعدہ، ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی ان سب کا جو بندہ ہاتھ لگا، کسی سے رعایت نہیں‌برتی گئی۔ یہ نیٹ ورک تباہ ہونے کی وجہ ہے کہ یہ دہشت گرد چاہتے ہوئے بھی پچھلے ایک سال کے دوران کوئی بڑی کارروائی نہیں کر سکے، ورنہ تو اندازے یہی تھے کہ ملک میں‌قیامت آجائے گی۔ پاکستان آج پہلے کی نسبت دہشت گردوں سے کئی گنا زیادہ محفوظ ہے۔ یہ سامنے کی حقیقت ہے ۔ جن کو بے شرم، بے غیرت کہا گیا، انہوں ہی نے اپنی جان کی بازی لگا کر ایسا کیا۔ اس ایک سال کے دوران آپریشنز کے دوران ہی سینکڑوں جوان شہید ہوئے، شائد ہزاروں میں تعداد ہو۔ ایسا اس صورت میں‌کیا گیا، جب ہم ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے اپنی مرضی کی فلمیں دیکھتے اور لذیذ کھانے کھاتے رہے ہیں۔ اس لئے ان لوگوں کے لئے ، جو آپریشن کر رہے ہیں، جو میدان جنگ میں عملآ موجود ہیں، ایسے الفاظ استعمال کرنے زیادتی کے مترادف ہیں۔‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بعض لوگوں نے پشاور سکول کے بچوں‌کا باجوڑ حادثے میں ہلاک ہونے والے بچوں سے موازنہ کیا ہے۔ یہ انتہائی احمقانہ اور شرانگیز موازنہ ہے۔ یہ دونوں‌واقعات یکسر مختلف نوعیت کے ہیں۔ باجوڑ میں‌حملہ امریکی ڈرون کے ذریعے ہوا اور مقصد ایمن الزوایری کو نشانہ بنانا تھا۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ تھا اور پرویز مشرف نے دانستہ طور پر اس حملے کو امریکی حملہ قرار نہیں دیا تھا کہ کہیں عوامی ردعمل نہ ہوجائے۔ امریکہ کے دیگر ڈرون حملوں‌ کی طرح‌یہ بھی غلط اور قابل مذمت تھا، لیکن اس کی کچھ ذمہ داری ایمن الزوایری پر بھی عائد ہوتی ہے، جس نے اس بچوں والے مدرسے میں‌پناہ لی اور میزائل حملے کا سبب بنا۔ یاد رہے کہ الزوایری کی اس حوالے سے ایک ویڈیو آئی تھی، جس میں اس نے کہا کہ اللہ نے مجھے بچا لیا، جب میں‌نصف شب کو اس مدرسے سے نکل گیا، جس کے کچھ دیر بعد وہاں امریکیوں‌نے میزائل مارا تھا۔ بہرحال باجوڑ میں ہونے والا وہ ظلم قابل مذمت ہے ، معصوم بچے نشانہ بنے۔

سانحہ پشاور میں تو دانستہ طور پر ، جان بوجھ کر ٹی ٹی پی کے سفاک، بے رحم اور درندے نما دہشت گردوں‌نے حملہ کیا، جو اس قدر بزدل ، کم ہمت اور نامرد تھے کہ معصوم بچوں پر گولیاں برساتے رہے۔ انہیں شرم سے ڈوب مرنا چاہیے، کہ انہوں‌نے پختون قوم کی روایات، ،شجاعت اور غیرت کا بھی مذاق اڑایا اور بدنامی کا باعث بنے۔ پشاور حملے کے جواز میں باجوڑ یا اسی طرح کی کوئی مثال دینے والے بھی عملی طور پر دہشت گردوں‌کے سپورٹر ہیں اور دہشت گردوں کو اپنی خوفناک ، بھیانک دہشت گردی کا جواز فراہم کرنا چاہتے ہیں۔ میرے نزدیک یہ لوگ سوشل میڈیا پر ٹی ٹی پی کے سہولت کار ہیں، ان کے خلاف باقاعدہ قانون سازی ہونی چاہیے اور جو لوگ فیک آئی ڈیز کے ذریعے چھپتے ہیں، انہیں‌قانون کے شکنجے میں‌لانا چاہیے۔ ایسے سہولت کار سائبر دہشت گردوں سے کوئی رعایت نہیں ہونی چاہیے۔ اس کا وقت گزر چکا۔ اب اس ملک میں‌یا تو دہشت گرد رہیں‌یا پاکستانی عوام۔ تیسری آپشن نہیں ہے، آستین کے سانپوں کو دودھ پلانے کے بجائے انہیں کچلنے کا وقت آ گیا ہے۔ اس میں‌ہم سب کو اپنا حصہ ڈالنا چاہیے۔ پاک فوج کے خلاف جس جس کو اپنا پوائنٹ سکور کرنا ہے، وہ کچھ انتظار کر لے، دہشت گردوں‌کا خاتمہ ہوجائے، پھر سیاسی بیانیہ، سیاسی تنقیدیں چلتی رہتی ہیں۔ ہم بھی برا نہیں‌مانیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے