فلسطینی وڈیوز حذف کرنے کے لیے اسرائیل کا گوگل اور یوٹیوب سے رابطہ

فلسطین سے منظر عام پر آنے والی چند وڈیوز نے گزشتہ کچھ ہفتوں میں دنیا بھر میں تہلکہ مچایا ہے۔ معصوم نوجوانوں اور بچوں کو قتل کرنے کی وڈیوز کے بعد اسرائیل نے روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجائے مظالم کم کرنے کے گوگل اور یوٹیوب سے رابطہ کرلیا ہے کہ وہ فلسطین سے آنے والی وڈیوز کو سنسر کردے۔

اس سلسلے میں اسرائیل کی نائب وزیر خارجہ زپی ہتوولی نے حال ہی میں گوگل اور اس کے ماتحت ادارے یوٹیوب کے نمائندوں سے باضابطہ ملاقات کی ہے۔ جس میں معروف سرچ انجن اور مشہور وڈیو شیئرنگ ویب سائٹ کے ساتھ "اشتعال انگیز مواد” کو سنسر کرنے کے طریقے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ ہتوولی کا کہنا ہے کہ اس مطالبے کا مقصد "تشدد اور دہشت گردی” کے خلاف جنگ کی کوششوں کو وسیع پیمانے پر پھیلانا ہے۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ اسرائیل نے گوگل سے "ناپسندیدہ” مواد سنسر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ گوگل کی ٹرانسپیرنسی رپورٹ پر نظر ڈالیں تو گزشتہ چند سالوں میں ہمیں ایسے تین مواقع نظر آتے ہیں جن میں اسرائیل کے کسی سرکاری ادارے نے مواد ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ابتدائی دونوں درخواستیں جولائی سے دسمبر 2012ء کی ششماہی کے دوران دی گئیں جن میں پہلے دو یوٹیوب وڈیوز کو حذف کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا جنہیں "ہتک آمیز” قرار دیا گیا تھا۔ گوگل نے یہ وڈیوز نہیں ہٹائیں۔ بعد ازاں اسرائیلی عدالت نے کوئی مواد ہٹانے کی درخواست کی تھی۔ جس پر گوگل نے مزید معلومات طلب کیں البتہ اس کا جواب نہیں دیا گیا۔ لیکن جولائی سے دسمبر 2014ء کے دوران اسرائیلی وزارت انصاف کی جانب سے ایک بلاگ کی پوسٹ کو رپورٹ کیا گیا تھا جس پر گوگل نے اسے google.co.il میں تلاش کے نتائج سے نکال دیا تھا۔ گوگل کی یہ رپورٹ 2009ء سے پہلے کے نتائج نہیں بتاتی، اس لیے یقینی طور پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسرائیل نے کل کتنی درخواستیں گوگل کو پیش کیں۔

مندرجہ بالا تینوں شکایتیں بہت معمولی نوعیت کی تھیں لیکن اب اسرائیل کی نائب وزیر خارجہ کا براہ راست اس معاملے میں پڑنا اور گوگل اور یوٹیوب کے نمائندوں سے رابطہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ سنسر اب نئے مرحلے میں داخل ہوگا اور صحافیوں کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔

اس وقت یہ حال ہے کہ اسرائیل میں موجود تمام صحافیوں کو فوج کے پاس رجسٹریشن کروانا پڑتی ہے اور ان کی تمام خبریں سنسر کے کڑے مراحل سے گزرنے کے بعد چھپتی ہیں۔ اس صورت حال میں یوٹیوب اور بلاگنگ درست معلومات کا اہم ذریعہ تھا اور اسرائیلی حکومت انہی کے خلاف کریک ڈاؤن چاہتی ہے۔ اگر ایسا ہوگیا تو اسرائیل میں فلسطینی مظالم سے آگاہی کے لیے آزاد اطلاع کے اہم ذرائع ختم ہو سکتے ہیں۔

بشکریہ :وجود سائٹ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے