مخمصہ

انسانیت عجیب مخمصے میں ہے.

کاروبارِ دنیا جسے مذہبی علوم میں تکوینیات کہا جاتا ہے. ایک مکمل متوازی بلکہ مستقل سسٹم ہے. اور اس کے رواں رکھنے کی ذمہ داری باری تعالی نے جن عناصر پر رکھی ہے.

ان عناصر کیلئے قطعا اخلاقی یا مذہبی اقدار کی ذمہ داری ضروری نہیں. انسانی اقدار کی بھی ضروری نہیں.

تکوینیات کے نظام میں جو کوئی بھی طاقت اور مضبوط اقتدار کا مالک ہوگا. وہ چاہے عام انسانیت کا خیر خواہ ہو… یا بدخواہ…. اس کو حاکمیت کے ملحقات رعب، ملکیت، جنگیں مسلط کرنے کا اختیار، اقلیتوں کو دبانے اور اپنوں کو نوازنے کی سہولیات میسر ہوجاتی ہیں.

تکوینیات کے نظام میں جو کوئی بھی کمزور ہوگا. ایک مسلمہ حقیقت ہے اس کو دبایا جائے گا.. اس کا حق چھینا جائے گا.. بتائیں کون سے اصول کے تحت؟؟؟

آس پاس کا ماحول ہماری سوچ اور ہماری حرکیات پر بڑی شد ومد سے اثر انداز ہوتا رہتا ہے. وہ اچھا ہے یا برا…. اس سے اس اثر اندازی (جو ایک خالص تکوینی معاملہ ہے) کو کوئی سروکار نہیں. اس نے اثر انداز ہونا ہے.

تکوین اگر مذہب کا لحاظ کرتا تو صرف اچھے اثرات کا انفعال ہوتا. لیکن ایسا نہیں ہے.

یہ تمام تمہید اس خبر پر تھی کہ شام کے پناہ گزینوں کا یورپ کے مختلف ممالک میں بہت اچھے طریقے سے استقبال ہورہا ہے.

جب ہم شامی شہریوں پر بمباری دیکھتے ہیں. جب ہم اسکولوں، اسپتالوں اور عام آبادیوں پر گرتے بموں اور برستی گولیوں اور گولوں کے بعد سسکتے اور کٹے پٹے وجود اور خونم خوں چیختے چلاتے بچے دیکھتے ہیں.

ایسے میں انسانیت کے اس پھوڑے پر یورپ کا رویہ ہمیں کھرنڈ لگنے لگتا ہے. اور ہمیں بہت معمولی سا سہی لیکن تسکین اور اطمینان ہونے لگتا ہے کہ شکر ہے جو یورپ کے کسی نہ کسی ملک پہنچ گئے. بقیہ زندگی کی سانسوں کو سکون سے، امن (وہ امن جو آج میری دنیا کی مہنگی ترین عیاشی بن چکی ہے) سے گزار سکیں گے.
دوسری طرف تکوین کا سفاک اصول ہے. ہجرت کرنے والا ہمیشہ اس ملک کے ماحول میں رنگ جاتا ہے جس کی طرف ہجرت کی ہو.. ان کیلئے اپنا مذہبی اور ثقافتی پس منظر بچائے رکھنا ایک مشکل کام ہوجاتا ہے.

اسٹیو جانز ایک شامی النسل عرب کا بیٹا ہے.

کیا شام سے ہجرت کرنے والوں کی اگلی نسلیں اپنا مذہبی تشخص برقرار رکھ پائیں گی؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے