یہ لڑکے لڑکیاں کون ہیں؟

پاکستان میں لاکھ خامیاں سہی، یہ ریاست جیسی کیسی سہی۔ مگر اس کے لوگ ایک انمول خوبی سے مالا مال ہیں۔ یعنی سب کھونے کے بعد بھی اٹھ کھڑے ہونے کا حوصلہ، کچھ کر دکھانے کا عزم، سماجی و ثقافتی و عقیدگی حبس میں بھی تخلیقی چراغ جلانے کا جنون۔ تازہ ثبوت مجھے تیرہ تا سولہ دسمبر کراچی یونیورسٹی کے شعبہِ علومِ بصری (ویژوئل آرٹس) میں فائنل ائیر کے طلبا و طالبات کی بنائی پندرہ تا تیس منٹ دورانئے کی تیرہ شارٹ فیچر فلموں کے میلے میں جا کے ملا۔
پیرہن ارسلہ طاہر نے ڈائریکٹ کی، گلابی پاجامہ فرخ افتخار نے، کور اسٹوری بلال شاہ نے، ایکسٹنکٹ زہرہ منصور نے، لاٹری نمبر آٹھ حسن منور نے، فیساڈ انیسہ رضوانی نے، فٹے منہ سعدیہ سرفراز نے، کونج ذیشان حسنین نے، بریف کیس محمد عظیم نے، نائرہ شانم سہیل نے، اسپیچ لیس عمار ظفر نے، بہت بڑی فلم علی رضا نے اور جھولے لال حسن علی نے ڈائریکٹ کی۔ صرف ایک فلم منٹو کے افسانے انتظار پر مبنی تھی جسے عائشہ مرزا نے ڈائریکٹ کیا۔ باقی شارٹ فلموں کی کہانی، مکالمہ، اسکرین پلے اور ٹریٹمنٹ ان فلموں کے جواں سال ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ کچھ سنجیدہ، کچھ تجریدی اور ایک آدھ مزاحیہ کہانی۔

چونکہ ڈپارٹمنٹ آف میڈیا اسٹڈیز میں اداکاری سکھانے کا شعبہ نہیں لہذا نوجوان ڈائریکٹرز نے باہر سے تھیٹر اور ٹی وی کے اداکارلیے۔ ان میں اکثریت نیشنل اکیڈمی آف پرفارمنگ آرٹس(ناپا)کے گریجویٹس کی تھی۔ معاون کردار خود طلبا یا ان کے دوستوں نے نبھائے۔

مگر ان فلموں سے بھی زیادہ مزیدار ان حالات کی کہانی ہے جن میں یہ تخلیق ہوئیں۔ ڈیزانئن اینڈ میڈیا آرٹس کے چار
سالہ کورس کے ان لڑکے لڑکیوں کی اکثریت مڈل یا لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھتی ہے۔ فی سمسٹر پندرہ ہزار روپے فیس ہے جو اگلے تعلیمی سال میں بڑھ کے تیس ہزار روپے فی سمسٹر ہو جائے گی۔ ڈپارٹمنٹ آف ویژوئل اسٹڈیز کے ہاں میڈیا آرٹس کا کورس تو ہے مگر تربیتی آلات، پروڈکشن کی سہولتیں اور فلم لیبارٹری ندارد۔ یعنی تھیوری ہم سے پڑھو اور پریکٹیکل کا انتظام خود کرو۔

چنانچہ یہ جنونی طلبا و طالبات اپنے فلمی اسائنمنٹ کے لیے درکار تمام وسائل کا انتظام جیب یا ادھار سے کرتے ہیں۔ اس اضافی بوجھ میں بیرونی اداکاروں کی منت سماجت کر کے ان سے اعزازی طور پر کام کروانے سے لے کر پروڈکشن ہاؤسز سے آلات رعائتی نرخ پر حاصل کرنے، لوکیشن ڈھونڈنے اور لوکیشن تک فلم یونٹ کو لانے لے جانے اور ان کے اور اپنے لیے چائے سینڈوچ کے انتظام تک سب خرچہ طالب علموں کا اور اس کے بعد پوسٹ پروڈکشن کی پھٹیکیں اور خرچے الگ۔
میں نے اس برس کے میلے میں سب سے زیادہ پذیرائی حاصل کرنے والی فلم ’’ جھولے لال ’’کے پروڈیوسر ڈائریکٹر حسن علی سے پوچھا کہ کتنا خرچہ بیٹھا؟ کہنے لگے اسی ہزار روپے سے زائد ۔ اٹھارہ منٹ کی فلم اسپیچ لیس کے ڈائریکٹر عمار ظفر نے اپنے پروجیکٹ پر ایک لاکھ پچیس ہزار روپے خرچہ کیا۔

ایسے حالات میں ایسے دیوانے لڑکے لڑکیاں ایسی فلمیں بنا رہے ہیں کہ ان کے تجربات کی پذیرائی ہی بس ان کا انعام ہے۔ یہ فلمیں ان طالبات و طلبا کا فائنل اکیڈمک تھیسس ہیں۔اس فلمی تھیسس کی پذیرائی زیبسٹ، لمز اور آغا خان یونیورسٹی فلم فیسٹیولز میں تو خیر ہوتی ہی ہے لیکن کچھ منتخب فلمیں آسٹریا کے گولڈن ڈائنا ایوارڈ فیسٹیول، اورلینڈو فلوریڈا کے انٹرنیشنل پیس اینڈ فلم فیسٹیول، ڈیوس فلم فیسٹیول، کنساس کے سن بیک فلم فیسٹیول اور بلیک برڈز فیسٹیول ایڈنبرا تک میں جاتی ہیں اور پاکستان میں ایسا کام بھی ہو رہا ہے کہہ کے دکھائی جاتی ہیں۔
مگر حسبِ توقع ان چار دنوں میں مجھے پاکستانی کمرشل سینما، ایڈورٹائزنگ کی صنعت، ٹی وی پروڈکشن ہاؤسز، انڈی پینڈنٹ فلم میکرز اور انتہا پسندی کو سافٹ امیج سے مارنے کے سرکاری و غیر سرکاری تبلیغیوں سمیت کوئی قابلِ ذکر چہرہ میلے میں نظر نہیں آیا۔ ہو سکتا ہے آیا بھی ہو اور میں نے نہ پہچانا ہو۔

چنانچہ اب ہو گا یہ کہ فارغ التحصیل طلبا و طالبات جو نامساعد حالات میں بھی تخلیق کا چراغ جلانے پر مصر ہیں اپنا پہلا برس مرضی کا کام یا ادارہ ڈھونڈنے میں ضایع کریں گے اور پھر کانِ نمک میں نمک ہوتے جائیں گے، ثقافتی بھیڑ چال میں شامل ہو جائیں گے اور کچھ نیا کرنے کی حسرتوں کو قدم بہ قدم دابتے چلے جائیں گے اور پھر ان کی جگہ ایسے ہی پرجوش نوجوانوں کا اگلا غول نئے یا اچھوتے آئیڈیاز کے چراغ ہتھیلوں پر رکھے اردگرد کو بدل دینے کے جذبے کے ساتھ عملی زندگی کو جانے والی سفاک کنوئیر بیلٹ پر لد جائیں گے۔ جس ترتیب سے چراغ سے چراغ جلتا رہے گا اسی ترتیب سے بجھتا بھی رہے گا۔

اس فلم فیسٹیول میں شرکت سے پہلے میں نے آرٹس کونسل میں عالمی اردو کانفرنس میں شرکت کی۔ وہاں گرد و پیش میں کیا ہو رہا ہے سے بے خبر مجھ جیسے ادھیڑ عمر دانش باز اور بوڑھے ادب نواز اپنی لا علمی سے علم کاڑھنے کا کرتب دکھا رہے تھے۔ پہلے یہ ہوتا تھا اب تو کچھ بھی نہیں ہو رہا، ہم نے جو اپنے دور میں تخلیقی بھالا مارا آج کی نسل تو اس بھالے کو اٹھانے کا تصور بھی نہیں کر سکتی۔ بھلا جن لمڈے لمڈیوں کا شین قاف اور جملے کی ترتیب ہی ٹھیک نہ ہو ان سے کیا امید رکھی جاوے۔ ود کت و نا ولی فلو پتھا کچھ دھم فسق نابت لبھوجھنجھن ۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔
ایسے ماحول سے اٹھ کر جب میں اس نوجوان فلم ساز تجربے سے ٹکرایا تو چندھیانا تو بنتا ہی تھا۔ وہ بوڑھا ہی کیا جو ہنسی خوشی مان لے کہ ہر نسل اتنی ہی توانا ہے جتنی پچھلی نسل تھی۔ بس یہی تو ہوا ہے کہ صراحی فریج سے، قلم کی بورڈ سے، تار برقی وٹس ایپ اور چکنی ہانڈی مائکرو ویوو سے بدل گئی ہے۔

اگر پچھلی نسل کا اگلی نسل سے رابطہ ٹوٹا ہوا ہے تو اس میں ان نئے بچے بچیوں کا کیا قصور؟ جو ہم نے چھوڑا اسی پر تو یہ تعمیر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مگر ہائے، تھکی ہڈیاں اور اس سے بھی زیادہ تھک جانے والی سوچ اجازت نہیں دیتی کہ ہم اپنی سونچ کے مینارے سے اتر کر یہ تلاش کریں کہ آخر یہ لمڈے لمڈیاں ہاتھ پے ہاتھ دھرے تو نہیں بیٹھے ہوں گے کچھ نہ کچھ تو مکھی مار ہی رہے ہوں گے۔ چلو یہی چل کے ڈھونڈیں کہ یہ کیسے مکھی مار رہے ہیں ۔۔۔۔۔
چلیے آپ مت رابطے استوار کیجیے۔ میں نے بتا دیا نا کہ میں نے کیا دیکھا۔ اب آپ بس یوں کیجیے کہ ان بچے بچیوں کی مدد کیجیے۔ ان کے شعبے کو ٹیکنیکل گرانٹ دیجیے، آلات اور سہولتیں دان کیجیے اور ان کا کام دیکھئے۔ یہی وہ
لیبارٹریاں ہیں جن سے سافٹ اور ہیومین پاکستان نکلے گا۔ ایٹم بم بھی تو لیبارٹری میں ہی بنتا ہے۔۔۔۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے