لڑائی لیکن مونچھ نیچے رکھ کر

سادہ میاں صاحب نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں جو انہیں سادہ سمجھتے ہیں۔ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ میاں نوازشریف صرف کاروبار جانتے ہیں، سیاست نہیں۔ اسٹیٹس مین وہ قطعاً نہیں لیکن میاں صاحب الحمدللہ سرتاپا سیاست ہیں۔ بے وقوف ہم تھے جو یہ سمجھ رہے تھے کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں لیا۔ سبق انہوں نے بھرپور لیا ہے لیکن ملک کے نہیں اپنی ذات کے لئے۔ اب کی بار کے وزیراعظم نوازشریف، ماضی کے وزیراعظم نوازشریف سے یکسر مختلف ہیں۔ تب وہ خود لڑتے تھے لیکن اب دوسروں کو لڑواتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے سیاسی فلسفے کو وہ اب بروئے کار لائے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق نے سوویت یونین کے خلاف مزاحمت کا فیصلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ "لڑیں گے لیکن مونچھ نیچے رکھ کر۔” میاں صاحب اس مرتبہ ہر ایک سے لڑرہے ہیں لیکن مونچھ نیچے رکھ کر۔ باہر سے اسٹیبلشمنٹ کے تابعدار لیکن اندر اندر سے وار۔ بظاہر میڈیا کی تابعداری لیکن اندر سے مینجمنٹ اور اشتہار کی ضرب کاری۔ باہر عدلیہ کے سامنے سرتسلیم خم لیکن اندرون خانہ اسے محکوم رکھنے کے لئے سازباز اور راز و نیاز۔ میکاولی زندہ ہوتے تو مجھے یقین ہے کہ میاں صاحب کے ہاتھ پر بیعت کرنے رائے ونڈ ضرور آتے۔ اب کی بار ان کی سیاست مولانا فضل الرحمان کے "اصولوں”، آصف علی زرداری کی چالوں اور عمران خان کے یوٹرنز کا مجموعہ نظر آتی ہے۔ سوچ ان کی محمود خان اچکزئی کی طرح منتقمانہ لیکن میل ملاپ کا انداز ڈاکٹر عبدالمالک کی طرح مصالحانہ۔ رویہ بادشاہانہ اور طرز سیاست فرنگیانہ۔ زیادہ عرصہ سعودی عرب میں رہے لیکن لندن میں قیام کے دوران فرنگیوں کی، لڑائو اور حکومت کرو کی پالیسی، ازبر کر کے واپس لوٹے۔

انہیں معلوم تھا اور اچھی طرح معلوم تھا کہ تین ادارے یعنی عدلیہ، میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ رکاوٹ بنیں گے چنانچہ پہلی فرصت میں پرویز مشرف اور مسنگ پرسنز کے کیس پر عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کو لڑوایا۔ کچھ وزیروں کی ڈیوٹی پرویز مشرف کو لتاڑنے اور کچھ کی انہیں بچانے کی لگائی گئی۔ وزیرداخلہ جن سے پرویز مشرف کے خلاف غداری کے مقدمے کا اندراج کروایا گیا لیکن انہیں کی پولیس کی ڈیوٹی میں یہ شامل کروایا گیا کہ وہ پرویز مشرف کو عدالت میں لانے کی بجائے اسپتال پہنچادیں۔ مقدمہ خود بنایا تھا لیکن پھر فوج کو یہ باور کروایا جارہا تھا کہ حکومت کو تو عدلیہ کے حکم کی تعمیل کرنی پڑی۔ اب عدلیہ پرویز مشرف کو طلب کررہی ہے لیکن وہ انہیں رہے ہیں۔ اب حکومت تماشائی بنی ہے اور عدلیہ رسوا ہورہی ہے۔ اس کیس کے ذریعے عدلیہ کو اس قدر بے وقعت کیا گیا کہ اس کے سابقہ دور کا سارا دبدبہ ختم ہوکر رہ گیا۔ پھر میڈیا کو تھپکی دی۔ میڈیا میں اپنے لوگوں کو یہ باور کرایا گیا کہ اب کی بار حکومت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسٹیبلشمنٹ کی بالادستی کو ختم کرنے، ہندوستان کے ساتھ دوستی استوار کرانے اور پرویز مشرف کو پھانسی چڑھانے کے لئے پرعزم ہے۔ چنانچہ غلط فہمی کا شکار ہو کر میڈیا آپے سے باہر ہوگیا۔ لیکن پھر جب میڈیا پر جوابی حملہ ہوا تو حکومت تماشائی بن گئی۔ کبھی ایک کو اور کبھی دوسرے فریق کو سہارا دیتی تاکہ ان کی جنگ جاری رہے لیکن مکمل ساتھ کسی ایک فریق کا نہیں دیا۔ وزیراطلاعات کہتے رہے کہ وہ دلیل والوں کے ساتھ ہیں اور وزیر دفاع سے دلیل والوں کے خلاف غداری کا کیس درج کرایا گیا۔ ان کا مقصد یوں اور بھی آسان ہوگیا کہ میڈیا آپس میں دست و گریبان ہوگیا اور رہی سہی کسر عمران خان کے دھرنوں نے پوری کردی۔ چنانچہ میڈیا بے وقعت بھی ہوگیا، کمزور بھی اور ذلیل بھی۔ آج میڈیا اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہے تو وہ حکومت کا احتساب کیوں کر کرسکے گا۔

دوسری طرف اس جنگ کی فریق ثانی یعنی اسٹیبلشمنٹ کو بھی فائدہ نہیں ہوا۔ وقتی طور پر وہ فاتح اور میڈیا مفتوح نظر آتا ہے لیکن منطقی نتیجے کے طور پر اس کا ملک کو فائدہ ہوااور نہ خود اسٹیبلشمنٹ کو۔ فائدہ پہنچا تو صرف حکومت کو۔ جن دو اداروں نے حکومت پر چیک رکھنا اور گڈگورننس کے لئے دبائو ڈالنا تھا، ان کی توانائیاں آپس کی لڑائی میں صرف ہورہی ہیں۔ لیکن کمال مہارت اور سیاست کا مظاہرہ میاں صاحب نے اسٹیبلشمنٹ اور سیاستدانوں کو الجھانے بلکہ لڑانے کے حوالے سے کیا۔ انہوں نے بلوچستان سے فوج کو نکالا نہیں اور الٹا کراچی میں بھی رینجرز سے آپریشن شروع کروایا۔ بلوچستان میں بلوچوں کے ساتھ مفاہمت کے لئے سیاسی سطح پر کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی لیکن انہیں پیغام دیتے رہے کہ معاملہ فوج کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے توپوں کا رخ فوج کی طرف ہی رکھا۔ سندھ میں ڈٹ کر نہ ایم کیوایم کا ساتھ دیا اور نہ رینجرز کا۔ وفاقی حکومت پہلے دن سے نگران کمیٹی بناتی تو تنازعے کی نوبت ہی نہ آتی۔ خود ایم کیوایم کو تسلی دیتے رہے اور وزیر داخلہ کو دوسری طرف کی ترجمانی کا کام سونپ دیا۔ وزیر داخلہ الطاف حسین کو غدار ثابت کراتے رہے اورا سپیکر قومی اسمبلی سے انہیں ٹیلی فون کراتے رہے۔ ایم کیوایم اور فوج کو خوب لڑایا تو پھر فوج اور پیپلز پارٹی کو لڑانے کی طرف متوجہ ہوئے۔ اسحاق ڈار صاحب اور فواد حسن فواد صاحب کو زرداری صاحب کے ساتھ رابطے کی ڈیوٹی دے دی گئی اور وزیرداخلہ کو قائم علی شاہ کو دبانے اور پیپلز پارٹی کو لتاڑنے کی۔ جس دن آصف علی زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا بیان جاری کیا، اس دن خود تو وزیراعظم صاحب نے ان کے ساتھ ملاقات منسوخ کر لی لیکن اسی روز جب زرداری صاحب نیند سے بیدار ہورہے تھے تو فواد حسن فواد ان کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے تھے۔ وزیراعظم صاحب چاہتے اور بروقت مداخلت کرتے تو اسٹیبلشمنٹ اپنی حدود سے تجاوز کرکے مالی کرپشن کو روکنے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر کبھی نہ لیتی۔ اب بھی اگر واقعی احتساب اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر ہورہا ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ پنجاب اس سے مبرا کیوں ہے؟ پیپلز پارٹی کو باور کرایا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ ان کا احتساب کرنا اور حکومت بچانا چاہتی ہے۔ یہی کچھ اے این پی کی قیادت اور احتساب کے نرغے میں آنے والی دوسری جماعتوں کو بتایا جارہا ہے ۔حالانکہ چیئرمین نیب ایک مستقل رابطے میں ہیں اور وہ لائن وزیراعظم ہائوس سے ہی لیتے ہیں۔

اور تو اور طالبان کے ساتھ بھی آپریشن سے قبل مذاکرات کا ڈھونگ فوج کی مرضی کے بغیر اس لئے رچایا گیا کہ طالبان کو یہ باورکرایا جاسکے کہ شریف حکومت تو ان سے مفاہمت کرنا چاہتی ہے لیکن اسٹیبلشمنٹ اسے آپریشن پر مجبور کررہی ہے ۔ چنانچہ یہ ملکی تاریخ میں شاید پہلی بار ہورہا ہے کہ وفاق میں حکمران پارٹی سے بڑھ کر اپوزیشن کی جماعتوں اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین تنائو موجود ہے اور میاں صاحب ثالث بن کر کبھی ایک کو تو کبھی دوسرے کو دلاسہ دیتے ہیں۔ معاملہ صرف داخلی سیاست تک محدود نہیں بلکہ بڑے خوبصورت طریقے سے امریکہ کو بھی یہ باور کرایا گیا کہ ہم تو افغانستان اور طالبان کے معاملے پر آپ کے مطالبات پورے کرنا چاہتے تھے لیکن آپ جانتے ہیں کہ ہمیں اختیار ہی نہیں دیا جارہا ہے ۔ اسی طرح ہندوستان کو یہ باور کرایا گیا کہ ہم تو آپ سے دوستی کرنا چاہ رہے تھے لیکن ہمیں دھرنوں کے ذریعے سیدھا کیا گیا۔ یہی پیغام افغانستان کو دیا گیا ہے اور جب بھی رابطہ ہوتا ہے تو اشرف غنی صاحب امریکیوں اور یورپین کو یہی بتاتے ہیں کہ میاں نوازشریف تو مخلص ہیں لیکن پاکستان کا فلاں فلاں ادارہ رکاوٹ ہے۔

چنانچہ باہر والے بھی ان پر مہربان اور اندر والے بھی۔ لیکن باہر والے بھی فریق ثانی سے پریشان اور اندر والے بھی شاکی۔ واہ رے واہ۔ کیا زبردست سیاست ہے ۔ایسی شریفانہ سیاست کبھی دیکھی تھی اور نہ شاید دیکھ سکیں گے ۔کسی زمانے میں میاں نوازشریف کو مشورہ دیا تھا کہ وہ آصف علی زرداری کے ہاتھ پر بیعت کرلیں۔ اب معاملہ الٹ ہوگیا۔ اب آصف علی زرداری کو مشورہ دینے کو جی چاہتا ہے کہ وہ بھی زردارانہ سیاست چھوڑ کر شریفانہ سیاست اپنالیں۔ لیکن تاریخ کا سبق یہی ہے کہ حد سے زیادہ ہوشیار پرندہ جال میں پھنستا نہیں لیکن جب پھنستا ہے تو پھر بیک وقت دونوں ٹانگیں پھنسوا دیتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ”جنگ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے