ٹیلی فون

انگریزی روزنامہ ڈان کی خبر کے مطابق سینٹ کے چیئرمین رضا ربانی نے آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو ٹیلیفون کر ڈالا۔ تحریک انصاف کے رکن سینٹ نعمان وزیر نے شکایت کی تھی کہ نوشہرہ میں ایک چیک پوسٹ پر تعینات فوجی اہلکاروں نے انہیں زد وکوب کیا اور انکے ساتھ توہین آمیز سلوک اختیار کیا۔ نعمان وزیر کے مطابق وہ بطور نائب چیئرمین فنی تعلیم و ہنر کی اتھارٹی اپنے سیکریٹری کے ہمراہ تربیتی اداروں کے دورے کیلئے سفر پر روانہ تھے جب انہیں فوجی اہلکاروں نے چیک پوسٹ پر روکا، ان کی اور ان کے ہمراہ عملے کی جامعہ تلاشی لی، انہیں زمین پر بٹھا دیا، انہیں تھپڑ اور لاتیں ماریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ایسا ہوا ہے تو معزز رکن سینٹ کا استحقاق و عزت نفس دونوں ہی مجروح ہوئے ہیں اور اسی طرح ہمارے ایوان بالا کی بھی بے توقیری ہوئی ہے۔

مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا سینٹ چیئرمین رضا ربانی کو براہ راست ٹیلی فون پر آرمی چیف سے شکایت لگانی چاہئیے تھی؟ کیا ہماری پارلیمنٹ اور بالخصوص ایوان بالا کو اپنے رکن کی توہین پر اپنے ‘ آئینی’ قانونی اور ضوابط کے اختیارات استعمال کرنے کی بجائے ایک شکایت کنندہ کی حیثیت اختیار کرنی چاہئیے تھی؟ کیا ہماری پارلیمنٹ کے ضابطے اور قواعد کسی معزز رکن کے استحقاق کے مجروح ہونے پر اتنے غیر مؤثر اور بے بس ہیں کہ جن کا اطلاق پولیس کے اہلکاروں یا سرکاری افسروں پر تو ہو سکتا ہے مگر فوج کے سپاہی یا اہلکار پر نہیں؟ نہ جانے ایک حوالدار یا سپاہی کی شکایت لگاتے وقت ایوان بالا کے سربراہ کو اپنی اور اپنے ایوان کی حیثیت کا خیال کیوں نہیں آیا مگر پھر ہم کس ایوان بالا کی بات کرتے ہیں۔ چیئرمین سینٹ نے جب بڑے فخر سے سینٹ میں آرمی چیف سے ٹیلیفون پر بات ہونے کی خبر بریک کی تو ایوان بالا کے اراکین نے بڑے جوش سے ڈیسک بجائے۔

تاثر یہ دیا گیا کہ جیسے سینٹ چیئرمین نے بڑی بہادری او ر جرأت کا مظاہرہ کیا ہے۔ موجودہ سیاسی سول ملٹری توازن کی روشنی میں کسی سیاست دان کا آرمی چیف کو فون کر دینا اور آرمی چیف کا فون پر آ جانا شاید ڈیسک بجانے والے سیاست دانوں کیلئے یقینا بہادری کا کام تھا۔ اس سے پہلے تو ایوان بالا کے سربراہان اور قومی اسمبلی کے اسپیکر صاحبان اپنے اراکین کی شکایات پر پولیس کے سربراہان کو ٹیلی فونز کرتے تھے اور بیچارے پولیس کانسٹیبل، حوالدار اور زیادہ سے زیادہ ایس ایچ او معطل ہو جاتے یا ان کا تبادلہ کردیا جاتا تھا۔ اب دیکھتے ہیں کہ ملکی تاریخ میں ہمارے سینٹ چیئرمین فوج کے سپاہیوں یا حوالداروں کا تبادلہ نوشہرہ سے وزیرستان کروا سکتے ہیں کہ نہیں اور اگر ان کا تبادلہ سیاچن ہو گیا تو معزز رکن سینٹ نعمان وزیر بلکہ چیئرمین سینٹ رضا ربانی کی "بلے بلے” ہو جائے گی اور یقینا چیئرمین سینٹ یہ خوش خبری بھی جلد ہی ایوان کو سنائیں گے۔ آخر اب ہماری پارلیمنٹ کا وقار پولیس اور فوج کے حوالداروں اور سپاہیوں کی معطلیوں اور تبادلوں سے ہی تو بحال ہو گا۔

قواعد کیمطابق متاثرہ رکن سینٹ میں تحریک استحقاق جمع کراتے جو خصوصی استحقاق کمیٹی کے حوالے ہوتی، جہاں وزیر دفاع سے جواب طلبی کی جاتی اور وزارت دفاع فوج کے ادارے کو انکوائری کا حکم دیتی جس کے بعد فوج کا ادارہ اپنی رپورٹ وزارت دفاع کے ذریعے استحقاق کمیٹی میں پیش کرتا اور استحقاق کمیٹی اس پر اپنی سفارش بمعہ مجوزہ کاروائی سینٹ میں پیش کرتی۔ مگر کیا کیا جائے یہ قانونی اور آئینی عمل بیچارے چیئرمین سینٹ کے بس کی بات نہیں۔ ان کا بس تو محض صحافیوں کو توہین آمیز کلمات پر نوٹس دینے تک چلتا ہے یا کسی سرکاری ملازم پر۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے وزارتی قانونی اختیارات کا عالم یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے انصاف کے ہتھوڑے تلے لاپتہ افراد کے ایک کیس میں مالا کنڈ کے تھانے میں ایک صوبیدار کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے پہنچ گئے تھے اور پھر مڑ کر بھی اس ایف آئی آر کا نہ پوچھا۔

رضا ربانی کی آرمی چیف کو ٹیلیفون کال ایک ایسے وقت میں کی گئی کہ جب فوج اور پیپلز پارٹی کے تعلقات کچھ اتنے خوشگوار نہیں ہیں۔ خود سینٹ چیئرمین بھی فوج کے سیاسی کردار سے متعلق سخت موقف کیلئے جانے جاتے ہیں اور اس حوالے سے انکے بطور چیئرمین سینٹ جنرل مشرف کے بارے میں ریمارکس ریکارڈ کا حصہ بھی ہیں۔ ایسے میں تحریک انصاف کے رکن سینٹ کی شکایت نے بھی انہیں ایک اچھی سیاسی چال چلنے کا موقع فراہم کیا۔ یقینی طور پر رضا ربانی کی آرمی چیف کو ٹیلی فون کال کسی قانون یا قاعدے کے زمرے میں نہیں آتی اور شاید اسی لیے اسے ایک سیاسی چال ہی کہا جا سکتا ہے۔ فوج سے براہ راست رابطوں پر تنقید کرنے والوں نے دھرنے کے دوران عمران خان اور طاہر القادری کی آرمی چیف سے ملاقاتوں پر خوب طنز کے تیر چلائے تھے۔ رضا ربانی نے بھی کچھ مختلف نہیں کیا۔ نعمان وزیر سینیٹر کو انصاف ملے یا نہ ملے رضا ربانی کو فوج سے تعلقات میں سر د مہری ختم نہیں تو کم کر نے کا موقع ضرور مل گیا ہے اور اگر آرمی چیف نے انکوائری کے بعد متعلقہ اہلکاروں کو "مناسب” سزا دلوا بھی دی تو کیا یہ ایوان بالا کی ایک سپاہی یا حوالدار کیخلاف بڑی کامیابی ہو گی؟ مگر اس "کامیابی” کیلئے بھی ضروری ہے کہ اس واقعے کی شفاف تحقیقات ہوں۔ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ ہمارے معزز رکن سینٹ نعمان وزیر کا رویہ ڈیوٹی پر معمور اہلکاروں کے ساتھ کیسا تھا۔
ہمارے سیاست دان اور خصوصاََ اراکین پارلیمنٹ استحقاق کے قواعد کے ہتھیار سے سرکاری افسران اور پولیس کے اہلکاروں کا استحقاق بھی مجروح کرنے کیلئے مشہور ہیں۔ ان کا پولیس اہلکاروں کے ساتھ گالم گلوچ اور بد تمیزی جیسے واقعات روزمرہ کا معمول ہیں۔ اگر غلطی "معزز ” رکن سینٹ کی نکلی تو ایوان بالا اور چیئرمین سینٹ کے عہدے کا استحقاق مجروح ہونے کا ذمہ دار کون ہو گا؟کیا نعمان و زیر فوج کی محکمانہ انکوائری میں شامل ہونگے یا اپنا تحریری بیان و گواہان پیش کرینگے؟ یا پھر سینٹ چیئرمین او ر آرمی چیف کی براہ راست ٹیلی فون گفتگو کے بعد یہ طے ہے کہ ڈیوٹی پر تعینات اہلکاروں کو اداروں کے درمیان بہتر تعلقات کیلئے قربان کیا جائیگا؟

سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عام لوگوں سے ووٹ لیکر ان ایوانوں میں منتخب ہونے والوں کا استحقاق ان تمام شہریوں سے کتنا بڑا ہے جن کو روزانہ ان چوکیوں پر ایسی ہی تذلیل کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔ بدقسمتی سے ان لوگوں کو پاس نہ تو آرمی چیف کا ٹیلی فون نمبر ہے اور نہ ہی آئی جی پولیس کا۔ حتی کہ خیبر پختونخواہ پولیس مثال کی ایک جھلک لوئر د یر جیل میں قید محمد جان نامی ایک کیس سے عیاں ہے جس میں ملزم نے اپنی ضمانت سے انکار کرتے ہوئے کیس کا فیصلہ ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔بھائیوں سے جائیداد کا جھگڑا ہونے پر اسکے خلاف منشیات کے مقدمے تو بنائے جاتے رہے مگر کئی سال سے اعلٰی عدالتوں میں اپیل کے خوف سے انکے آج تک فیصلے نہیں کیے جاتے رہے۔ مگر پھر محمد جان اور نعمان وزیر میں بہت فرق ہے اور رہے گا۔ رضا ربانی کے آرمی چیف کو ٹیلی فون کی خبر پر ردعمل کیلئے جب چند صحافی حضرات رضا ربانی سے چیمبر میں ملے تو انکا موڈ غیر معمولی طور پر زیادہ اچھا نہیں تھا۔ سوال صرف ایک ہی کیا تھا جس پر وہ برہم ہو گئے "سر فون کی لائن پر پہلے کون آیا تھا؟”۔

بشکریہ روزنامہ ‘نوائے وقت’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے