مالاکنڈ کا یوسف خان ، جس نے خشک پہاڑ کو جنگل بنا دیا

اس وقت سوات موٹروے سے دائیں جانب تقریبا 50 منٹ کی پیدل مسافت پر پلئی کے پہاڑ پر 13 مزدور پودے لگا رہے ہیں۔

52 سالہ یوسف اپنے ساتھی مزدورں سے کہہ رہے ہیں کہ پودے ضرور لگائیں لیکن اپنا خیال بھی رکھیں کیونکہ یہ پہاڑ بہت خطرناک ہے .

رپورٹ دیکھنے کے لیے یوٹیوب پر آئی بی سی ٹی وی پاکستان کےاس لنک پر کلک کریں

مالاکنڈ خیبر پختونخواہ کا سر سبز و شاداب علاقہ ہے . 2017 کی مردم شماری کے مطابق ضلع ملاکنڈ کی کل آبادی 7 لاکھ 17 ہزار 8 سو چھ جس میں خواتین کی تعداد 3 لاکھ 57 ہزار 3 سو 33 ہے۔

یوسف کا تعلق ضلع ملاکنڈکے علاقے پلئی سے ہے. وہ پلئی کے پہاڑوں پر دس بلین ٹری پراجیکٹ کے تحت اگائے جانے والے پودوں کی حفاظت پر مامور ہیں . یوسف شجرکاری کرنے والے شجرکاروں کے انچارج بھی ہیں جو اس وقت پلئی کے پہاڑوں پر پودے لگا رہے ہیں۔

یوسف کہتے ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے میں بلین ٹری پراجیکٹ میں شجر کار تھا . دو سال سے میں ان پودوں کا سرکاری طور پر محافظ ہوں . 15 ہزار روپے ماہانہ تنخواہ ملتی ہے تاہم اگر تنخواہ زیادہ ہو جائے تو گزر بسر میں مزید آسانی ہو جائے گی ۔یوسف کہتے ہے کہ آج سے پانچ سال پہلے جب ہم پودے لگا رہے تھے تو ہمیں نہیں پتہ تھا کہ یہ پہاڑ اتنے خوبصورت ہو جائیں گے۔پانچ سال پہلے اگائے گئے پودے آج بڑے ہوگئے ہیں اور یہاں کے لوگ اب ان جنگلات کی حفاظت کر رہے ہیں .

معلومات تک رسائی کے ایکٹ 2013 کے تحت حاصل کردہ دستاویزات کے مطابق بلین ٹری پراجیکٹ سے 20 ہزار لوگ براہ راست مستفید ہوئے ہیں جبکہ بلین ٹری پراجیکٹ میں ایک کروڑ سترہ لاکھ اسی ہزار نو سو پچیس پودے لگائے جا چکے ہیں.

20 سالہ سجاد کا تعلق بھی ان 13 لیبر میں سے ہیں جو صبح سویرے یوسف کے ساتھ آتا ہے۔سجاد کا کہنا تھا کہ سارے لوگ ایک گاؤں سے ہیں۔ہم گپ شپ بھی لگاتے ہیں اور کام بھی کرتے ہیں۔اس پراجیکٹ میں مزدوری کم ہے لیکن کام اور اس کے پیسے ہر روز مل جاتے ہیں۔ میں پچھلے دو سالوں سے فارسٹ ڈیپارٹمنٹ کے ساتھ کام کرتا ہوں۔اور روزانہ 50 سے 80 تک پودے لگاتا ہوں۔پہاڑ پر کام کافی مشکل ہے کیونکہ پودے نیچے سے لانے ہوتے ہیں . پہاڑ پر اتنی آسانی کے ساتھ کام نہیں کیا جا سکتا .

شہاب علی اس وقت ملاکنڈ فارسٹ ڈویژن میں بطور دیہی ترقیاتی آفیسر کام کر رہے ہیں۔وہ کہتے ہے کہ کرونا وائرس کی وجہ سے ایک طرف لوگ بے روزگار ہو رہے تھے تو محکمہ جنگلات لوگوں کو مسلسل نوکریاں دے رہا تھا۔

بلین ٹری پراجیکٹ کے حوالے سے شہاب علی کا کہنا ہے کہ شروع میں لوگوں نے بلین ٹری پراجیکٹ کی مخالفت کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ حکومت پہاروں پر شجر کاری کر کے ان کے پہاڑوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے . جب محکمہ جنگلات نے شہریوں کو مطمئن کیا تو اب لوگ خود آتے ہیں اور شجر کاری کا کہتے ہیں . انہوں نے بتایا کہ ہم جہاں شجرکاری کرتے ہیں وہاں درختوں کی پھر تین سال تک حفاظت بھی کی جاتی ہے . اس کے بعد مقامی لوگ جنگلات کی حفاظت کرتے ہیں . لوگوں کو اب جنگلات کی اہمیت کا علم ہوا ہے .

سپارکو (Space and upper atmosphere research commission) کے مطابق ملاکنڈ میں جنگلات 14 فیصد سے بڑھ کر اب 32 فیصد ہوگئے ہیں۔

عظمی حبیب بھی ملاکنڈ فارسٹ ڈویژن میں بطور دیہی ترقیاتی آفیسر کام کر رہی ہے ۔وہ کہتی ہے کہ خواتین میں شجرکاری کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا .جب ہم ان کے پاس جاتے ہیں اور اس کے فوائد بیان کرتے ہیں تو خواتین بہت جلد مان جاتی ہے اور کام شروع کردیتی ہے۔عظمی حبیب کہتی ہے کہ ہم نے بلین ٹری پراجیکٹ میں ایک بیوہ کو ٹریننگ دی اور پھر ان کو نرسری کا پراجیکٹ دیا۔وہ بیوہ آج بھی ٹین بیلن ٹری میں ہمارے ساتھ کام کر رہی ہے ۔اس نے ان پیسوں سے گائے لی ہے اور پورا گھر خود چلا رہی ہے ۔

اسی طرح تحصیل تھانہ بائزئی کی خواتین کو بھی ٹریننگ دی۔یہ خواتین خود بیج جمع کرتی ہے اور پودے اگاتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے