راولپنڈی /اسلام آباد میں میٹرو بس سہولت کے بجائے زحمت بن گئی

وفاقی دارلحکومت اسلام آباد اور اس کے جڑواں شہر راولپنڈی میں اگرچہ میٹرو بس سروس کے اجراء سے آمدروفت کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو چکا ہے اور شہریوں نے اس کا صلہ حکمران جماعت مسلم لیگ کو بلدیاتی انتخابات میں بھاری مینڈیٹ سے اعتماد کا اظہار کر کے دیا ہے۔میٹرو بس سروس کے مخالفین کے دعوؤں کے برعکس میٹرو سروس کی بدولت سڑکوں پر گاڑیوں کا اژدہام کافی حد تک کم ہو گیا ہے جس کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی کے خطرات بھی کم ہو گئے ہیں تاہم شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے میٹرو بس کی انتظامیہ کی جانب سے بسوں کی تعداد کم کر نے پرکڑی تنقید کی ہے۔میٹرو بسوں میں صبح دفتری اوقات کے آغاز اور شام کو دفاتر سے چھٹی کے بعدتل دھرنے کو جگہ نہیں ہو تی ہے اور ہراسٹیشن پرسواریوں کی بڑی تعداد قطارمیں کھڑی نظر آتی ہے جو بس میں جگہ نہ ہو نے کی وجہ سے دفاتر میں مقررہ وقت میں نہ پہنچنے کے سبب بے چین نظر آتے ہیں۔

میٹرو بس سروس کے افتتاح سے قبل وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت نے اس امرکا اعادہ کیا تھا کہ میٹرو بس چلانے والی کمپنی کو سالانہ کی بنیاد پر دو ارب روپے سبسڈی دی جائیگی تاکہ مسافروں کی سہولت کا خیال رکھا جا سکے اور کرایہ مناسب ہو،یہ بھی فیصلہ ہوا تھا کہ اس روٹ پر اڑسٹھ بسیں چلائی جائینگی جن پر اوسطا ایک لاکھ پینتس ہزار مسافر روزانہ کی بنیاد پر سفر کر سکیں گے۔تاہم اب میٹرو انتظامیہ نے بسوں کی تعداد نصف سے بھی کم کر دی ہے اور درجنوں بسیں پشاور موڑ کے قریب میٹرو کے ٹر مینل پر کھڑی کر دی گئی ہیں۔یونیورسٹی آف لاہور اسلام آباد کیمپس کے لیکچرر جہانگیرخان کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ صبح کے اوقات میں میٹرو بس میں جگہ ملنا ممکن نہیں اور کافی دیر تک قطار میں انتظار کرنا پڑتا ہے،اس لئے وہ اب میٹرو کے بجائے موٹرسائیکل پر سفر کو ترجیح دیتے ہیں۔اسی یونیورسٹی کے اکاؤونٹینٹ نثار چوہدری کا اس حوالے سے کہنا تھا کہ میٹرو بسوں میں صبح اور شام کے اوقات میں دھکم پیل کے مناظر عام دیکھنے کو ملتے ہیں اور بس میں سواریوں کی کثیر تعداد کی وجہ سے جیب کتروں کی چاندی ہو گئی ہے۔میٹرو انتظامیہ کی غلط پالیسیوں کے سبب کو سب سے زیادہ بزرگوں اور خواتین کو دقت کا سامنا کر نا پڑ رہا ہے۔

حکومت کی جانب سے اربوں سبسڈی دینے کے باوجود میٹرو بس انتظامیہ کی جانب سے بسوں کی تعداد کم کر نا اور مسافروں کو اذیت سے دوچار کر نا سمجھ سے بالاتر ہے اور اگر اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے ٹھوس کاروائی نہ کی گئی تویہ بہترین سروس بدترین اذیت میں بدل سکتی ہے اور عوام پبلک ٹرانسپورٹ اور ذاتی گاڑیوں کو ترجیح دینگے جس کے بعد دوبارہ جڑواں شہر وں میں ٹریفک کا مسائل میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے