ماہی گیری کا قومی سرمایہ کاری میں کردار

ماہی گیری قومی سرمایہ کاری میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔فشری براہ راست 300،000 ماہی گیروں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، اضافی صنعتیں جو کام کر رہیں جن میں فشری کسی نہ کسی طرح کام میں آتی ہے

[pullquote]ماہی گیری قومی سرمایہ کاری میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔فشری براہ راست 300،000 ماہی گیروں کو روزگار فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ، اضافی صنعتیں جو کام کر رہیں جن میں فشری کسی نہ کسی طرح کام میں آتی ہے اس کے ذریعے 400،000 لوگوں کی بھی آمدنی کا ایک اہم ذریعہ ہے.فیشری جتنی اہم صنعت ہے اتنی ہی لاپر واہی کا شکارہے۔ایک مچھآری مہینے کے زیادہ سے زیادہ 15،000 روپے کماتا ہے جبکہ اس کی کوئی مقررہ تنخواہ نہیں ہے . یعنی انہیں اتنی محنت اور اتنے فاصلے طے کر نےکی بنیاد پرصرف اس کا ایک فی صد ملتا ہے پاکستان کے سمندری علاقے کا ساحل350 سمندری میل تک توسیع ہے جو 240،000 مربع کلومیٹر کے علاقےکا احاطہ کرتا ہے . الغرض پاکستان کا ماہی گیری کا شعبہ ملکی معیشت میں اہم مقام رکھتا ہے، ملکی زرعی شعبے کا جی ڈی پی میں 22 فیصد حصہ ہے جس میں سے ایک فیصد حصہ ماہی گیری کا ہے۔ پاکستان کی ساحلی پٹی سندھ اور بلوچستان کے علاقوں پر مشتمل ہے اور یہ 814 کلومیٹر سے زائد رقبے پر پھیلی ہوئی ہے۔ پاکستان میں سمندری ماہی گیری سے سالانہ ساڑھے 6 لاکھ ٹن سے زائد مچھلی پکڑی جاتی ہے جس میں سے 12 ارب روپے مالیت کی مچھلی اور دیگر سمندری خوراک یورپی یونین اور خلیجی ریاستوں سمیت امریکہ، جاپان، سری لنکا اور سنگاپور وغیرہ کو برآمد کی جاتی ہے جبکہ پاکستانی ماہی گیری کی صنعت سے 40 لاکھ سے زائد افراد کا روزگار وابستہ ہے جن میں سے 25 لاکھ کاتعلق سندھ سے ہے۔[/pullquote]

ان علاقوں سے پکڑی جانے والی مچھلیوں میں مہاشیر، روہو، ملی (لانچی یا سائمن)، کھگہ، الیمفرٹ، ٹراﺅٹ، ساول، بام اور جھینگا نسلیں شامل ہیں۔ اس کے باوجود حکومت کی جانب سے ماہی گیری کی صنعت کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے ماہی گیروں کے معاشی حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے ہیں۔ ٹھیکہ داری نظام، ضرورت سے زیادہ بننے والی کشتیوں، لانچوں اورڈیپ سی ٹرالروں اورنقصان دہ جالوں نے صدیوںسے اس پیشے سے وابستہ ماہی گیروں پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ ایک ڈیپ سی ٹرالر ایک کشتی کے مقابلے میں 52 فیصد زیادہ مچھلی پکڑتاہے جبکہ پاکستان میں وفاقی حکومت گزشتہ دو دہائیوں سے ڈیپ سی ٹرالروں کو مچھلی کے شکارکے لائسنس جاری کررہی ہے۔ ماہی گیروں کے مطابق زیادہ تر چین، ایران اور خلیجی ممالک کے ڈیپ سی ٹرالروں کو پاکستان نے سمندر میں مچھلی پکڑنے کا لائسنس دیا ہے جو مشینوں اور ممنوعہ جالوں کے ذریعے اپنی پسند کی مچھلی پکڑتے ہیں اور ناپسندیدہ مردہ مچھلی سمندر میں پھینک دیتے ہیں۔

اقتصادی زون ( ای ای جیڈ) ، کے مطابق ہماراملک مقامی کھپت کے لئے بلکہ عالمی مارکیٹ کے لئےسمندری غذا کا ایک اہم ڈویلپر بننے کی صلاحیت رکھتا ہے. فی الحال، تقریبا 400،000 لوگوں کو براہ راست پاکستان میں ماہی گیری اور ذیلی صنعتوں میں کام کر نے مواقع مل رہے ہیں اور ماہی گیر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں. ماہرین کا خیال ہے کہ ماہی گیری کی صنعت کو بہتر انداز میں چلانے کے لئے وزارت زراعت وخوراک سے الگ کر کے علیحدہ وزارت بنانے کی ضرورت ہے۔ اس اہم اقدام کی بدولت نہ صرف ماہی گیری کی صنعت پر توجہ دی جائے گی بلکہ لاکھوں ماہی گیروں کی زندگیوں میں بھی بہتری آئے گی، ان کو ماہی گیری سے متعلق بہتر سہولیات میسر آسکیں گی۔ ماہی گیری کی علیحدہ وزارت بننے سے ملک میں مختلف اقسام کی مچھلیوں سے متعلق معلومات اور ان پر سائنسی تجربات میں تیزی آئے گی اور مچھلیوں کی تمام برآمد کنندہ مصنوعات کا بہتر ریکارڈ ممکن ہوگا۔

تاہم، ہماری یہ صنعت ہے جو قیمیتی زر مبادلہ کماتی ہے جو (بنیادی طور پر چین، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک کو،367 ملین ڈالرسالانہ برآمدات کرتی ہے ۔جبکہ تھائی لینڈ، سعودی عرب، ملائیشیا، انڈونیشیا اور کوریامیں بھی بہت بڑاسرمایہ تشکیل دے سکتے ہیں ہے۔ہمارے یہاں کراچی، بلو چستان و غیرہ کے ساحل سے اہم زر مبادلہ حاصل ہو تا ہے کیونکہ یہاں سے 200 سے زائد اہم تجارتی مچھلی اور شیلفش پرجاتیاں موجود ہیں۔اس کے علاوہ بھی ایسی بندر گا ہیں ہیں جہاں سےاچھی آمدنی اور زر مبادلہ حاصل ہو تا ہے۔ جس سے اندرون ملک بیرون ملک فروخت یا برآمدکر کے منا فع حاصل کیا جا تا ہے.

ہمارے یہاں جو ایک اور اہم مسئلہ سمندری صحت کو تباہ کر نے میں کام کر رہا ہے وہ ہمارے یہاں کی فیکڑیوں کے نامیاتی فضلات، جو سمندر میں گرتے ہیں مچھلیوں کی زندگیوں کے لیے ایک بڑا خطر ہ بنے ہو ئے ہیں۔جس کے سد باب کی اشد ضرورت ہے۔ایک مناسب طریقے سے تیار کردہ مچھلی کی صنعت بڑی غیر ملکی زر مبادلہ کمانے کے لئے ایک اہم ذریعہ ہے. اس کے علاوہ بھی وٹامن سے بھرپور غذا کا ایک ذریعہ فراہم کرتی ہیں. ساتھ ہی ساتھ ماہی گیری کی ترقی بھی ساحلی پٹی اور بہت سے چھوٹے اور درمیانے سائز کمیونٹیز کو روزگار اور ترقی کے مواقع کی فراہم کر نے میں ایک اہم کردار ادا کر تی ہیں. جدید مچھلی کی صنعت کی ترقی میں ایک اہم عنصر شفریوں اور ٹراؤٹ پروسیسنگ پلانٹس، سٹوریج کی سہولیات، اور تحفظ اور مارکیٹنگ تکنیک ہے جس کے لئے کافی ہیچریاں، نرسریاں کا قیام عمل میں آیا ہے. اس کے علاوہ، ایک مناسب طریقے سے تیار مچھلی کی صنعت ایسی مچھلی صنعتوں کے لئے ضروری گئر، کشتیاں، انجن اور اسی طرح دیگر اشیاء کی مینوفیکچررز کے طور پر ملحقہ صنعتوں کے لئے بھی ایک مددگار صنعت کی حیثیت رکھتی ہے. مچھلی کی پیداوار کا مقصد نئے ہنر اور اقتصادی طور پر معاملات اور اسی کے ذریعے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے. ان تمام کاموں کو یقینی بنانے اور بہتر سے بہتر نتا ئج حاصل کر نے کے لئےفشریز قوانین اور ضابطوں استحصال بھر سے وسائل کی حفاظت کرنے کے لئے لاگو کیا جانا چاہیے. اہم تجارتی سمندری اور کنارے جانوروں اور پودوں سائنسدانوں کی براہ راست نگرانی کے تحت انتظامات کر نے چا ہیے۔تحقیق کے ذریعے جو بھی تکنیکی، مالیاتی اور تحقیق آدانوں، مچھلیوں کی پیداوار اور استعمال میں توسیع کی اور اس شرح میں اضافے کی را ہیں نکالی جا سکتی ہیں. ہمارے پانی کے وسائل کا تخمینہ صلاحیت 650 سے زائد ہزار ٹن ہے جبکہ پیداور کم تو یہ پیداوار فرق صرف تحقیق اور توسیع کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے. پاکستان ماہی گیری کے شعبے کی بدولت زرعی کمائی کو دوگنا کر سکتا ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ کومت ماہی گیری کے شعبے پر توجہ دے۔
ٹی آر ٹی اردو

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے