ہمارا مسلک ہی حق ہے (دوسری قسط

مجلس کا آغاز مختلف مذاہب کے کلام مقدس اور دعاؤں سے کیا گیا۔ افتتاحی کلمات میں مجلس کے، ایجنڈے، اغراض و مقاصد، طریقہ کار اور مراحل (proceedings) پر بات کی گئی۔ اس کے بعد باہمی تعارف کا سلسلہ شروع کیا گیا، معلوم ہوا کہ اس مجلس میں معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی کرنے والے لوگ شامل ہیں۔ ان سب کی موجودگی دگرگوں حالات پر تمام طبقات کی حساسیت اور سنجیدگی کا ایک عملی مظاہرہ قرار پایا۔ اس میں سماجی قائدین، مختلف مذاہب و مسالک کے علماء، اساتذہ، دانشور، ماہرین نفسیات، ماہرین سماجیات، سیاستدان، سکیورٹی ماہرین ، پیر وجوان، خواتین و حضرات وغیرہ شامل تھے۔ ہر ایک اپنی جگہ نہایت مطمئن ہوا کہ فتنہ و فساد اور منافرت کے دور میں وہ اکیلا پریشان نہیں، مجلس کا باقاعدہ آغاز سے پہلے ایک سہولت کار نے مکالماتی مجلس کے آداب طے کرنے کے لیے شرکاء سے آراء لی۔ وہ شرکاء کی آراء کو ایک چارٹ پر لکھتا گیا۔ مختلف شرکاء کی جانب سے بیان کیے گئے آداب یہ تھے ۔

[pullquote] کہ اس مجلس میں ہر ایک سچ بولے گا، اس میں کسی کی ذاتیات پر حملہ نہیں کیا جائے گا اور ہر ایک اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرے گا، ہر ایک کو توجہ سے سنا جائے گا۔ ایک وقت میں صرف ایک شخص ہی بات کرے گا۔ ایک دوسرے کو سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش کی جائے گی ماننے اور منوانے کی نہیں! بلاوجہ الجھنے سے اجتناب کیا جائے گا ۔ ہر ایک کو اختلاف اور اظہار کا فطری حق حاصل ہوگا۔ تمام معاملات کوباہمی احترام کے ساتھ آگے بڑھایا جائے گا۔ تمام شرکاء طے شدہ آداب اور قواعد و ضوابط کی پابندی کریں گے۔ [/pullquote]

مکالماتی مجلس شروع!

سب سے پہلے ایک ماہر نفسیات اٹھ کر گفتگو کرتا ہے

میں ایک ماہر نفسیات ہوں، مختلف ممالک سے علمی اور اطلاقی نفسیات پر اعلیٰ تعلیم اور اعزازات حاصل کرنے کے بعد اپنے وطن عزیز میں واپس آیا۔ اس معاشرے میں پچھلے دس سالوں سے مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں نفسیات کے مختلف مضامین پڑھاتا ہوں، نفسیات پر ہر سال میرے کئی تحقیقی مقالات بین الاقوامی تحقیقی جرائد میں شائع ہوتے ہیں جبکہ میں عملی طور پر نفسیاتی امراض کے علاج کے لیے اپنی ایک کلینک پر بھی بیٹھتا ہوں۔ خیر بات لمبی ہوگئی معذرت! مجھے انتہائی خوشی اور اطمینان حاصل ہو رہا ہے کہ میں اس مجلس میں شریک ہوا ہوں۔ ہمارے سماجی مسائل پر تبادلہ خیال اور حل کی تلاش کے لیے یہ ایک انتہائی قابل قدر اقدام ہے۔

محترم شرکاء کرام!

میں اپنی ایک تجویز پیش کرنا چاہتا ہوں، وہ ہے انفرادی اور سماجی مسائل کو زیر بحث اور زیر علاج لانے کا سائنسی طریقہ! میرے پاس جب کوئی مریض آتا ہے تو اسے اپنے مرض کا پتہ نہیں ہوتا اس لیے سب سے پہلے وہ

1) علامات بتاتا ہے ، پھر

(2) پھر ان علامات کو دیکھ کر ہم اس کی ہسٹری پوچھتے ہیں، چند کلینکل ٹیسٹ جیسے بلڈ پریشر، خون وغیرہ کرواتے ہیں تاکہ مذکورہ علامات یا اس سے جڑی دیگر علامات کو باریکی سے جانچا جائے

(3) تیسرے مرحلے میں تمام کلینکل رپورٹس کو دیکھتے ہوئے موضوع کی کتابوں سے رجوع اور دیگر ماہرین اور ڈاکٹروں سے مشاورت کرتے ہیں

(4) چوتھے مرحلے میں ہم تمام علامات ، شواہد تحقیقی جائزہ اور مشاورت کے نتیجے میں مرض کی تشخیص کرتے ہیں۔

(5) پانچویں مرحلے میں مرض کی موجودہ صورت حال میں حساسیت (وقت، جگہ، غذا، انفیکشن وغیرہ) کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور مزید خراب ہونے سے کیسے بچانا ہے

(6) چھٹے مرحلے میں مرض کے اسباب کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

(7) ساتویں مرحلے میں مذکورہ مخصوص مرض کے لیے علاج کے مختلف طریقوں کو جاننے کے لیے ایک بار پھر مختلف کتابوں، تحقیقی رپورٹوں، ماہر ڈاکٹروں سے رجوع کیا جاتا ہے۔

(8) آٹھویں مرحلے میں علاج شروع کیا جاتا ہے ۔ اس دوران یہ خدشہ پھر بھی لاحق رہتا ہے کہ معلوم نہیں علاج کا منتخب طریقہ کتنا موثر ، مفید، یا غیر موثر اور موذی ثابت ہو سکتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے معاشرے کے مسائل اور سماجی بیماریوں کے علاج کے لیے بھی یہ سائنٹفک طریقہ کار اپنائیں تو ہم بہتر نتائج حاصل کر سکتے ہیں۔ اس اعتبار سے سب سے پہلے ہمیں سماجی امراض کو جاننا ہے، پھر تشخیص، اسباب، اور علاج کے مراحل کی طرف بڑھ سکتے ہیں۔ ایک اہم نکتہ عرض کر کے اپنی بات تمام کر دوں، مریض کے بارے میں ہم اپنی طرف سے خود رائے قائم کرنے یا کسی اور کی رائے پر اعتماد کرنے کے میں براہ راست مریض سے ہی پوچھ کر رائے قائم کرتا ہوں۔ میں چاہے کتنی ہی مہارت اور تجربہ رکھتا ہوں کبھی بھی صرف اپنی رائے پراعتماد اور اکتفا کر کے امراض کی تشخیص یا علاج شروع نہیں کرتا، بلکہ ہمیشہ تمام مراحل میں دیگر کتب اور ماہرین کی آراء سے استفادہ کرتا ہوں۔ کیونکہ تمام ارتقا پذیر شعبوں میں انفرادی سوچ کے بجائے اجتماعی دانش و اجتہاد کا سلسلہ یوں ہی آگے بڑھ رہا ہے۔

ایک سماجی رہنما اٹھ کر کہتا ہے: ماشاء اللہ ڈاکٹر صاحب نے ہماری بہت بڑی مشکل حل کر دی، ہمیں اپنے مسائل کو کیسے دیکھنا ہے اور ان کا حل کیسے نکالنا ہے یہ سارا طریقہ آپ نے بتادیا ۔ ہم ہر مسئلے کو نہات سرسری انداز میں دیکھنے کے عادی ہو چکے ہیں اور سائنسی طریقہ تحقیق و علاج سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ ڈاکٹر صاحب آپ کا بہت شکریہ! میں سمجھتا ہوں ہم اسی طرح آگے بڑھیں گے۔ میں آپ سب کی توجہ چاہوں گا اور اس اہم امر پر تھوڑی تفصیل سے بات کروں گا۔ محترم شرکاء دیکھیں !

(باقی روداد آئندہ کالم میں )

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے