امریکا مردہ باد نہیں امریکا زندہ باد

شین امریکہ کی بحریہ کا سابق فوجی ہے ، شین کی رہائش آج کل واشنگٹن میں ہے، شین نے امریکی حکومت پر پچاس لاکھ ڈالر ہرجانے کا مقدمہ دائر کیا ہے،شین کا حکومت پر مقدمہ کرنیکا پسِ منظر بڑا دلچسپ ہے ، آپ شین کے واقعے کو پڑھئے اورپھر اپنے ملک کی طرف دیکھئے کہ ہم ذہنی سطح پہ کہاں پہ ہیں اور ایک امریکی شہری کی ذہنی سطح کیا ہے؟

ہوا یوں کہ گزشتہ اکتوبر میں شین بحریہ کا ایئر شو دیکھنے آیا ، شو کے شروع ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا ،شین وقت گزارنے کے لیے ایک پارک میں جا بیٹھا ، صنوبر کے درختوں تلے بیٹھ کے کتاب کا مطالعہ کر رہا تھا کہ اچانک سات کلو وزنی صنوبر کا مخروطی پھل اس کے سر پہ آلگا ،،، شین پھل لگتے ہی بے ہوش ہو گیا لوگ اسے فوری طور پر ہسپتال لے گئے، شین کئی دن تک موت و حیات کی کشمکش میں رہا ،، بالآخر ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ شین کی کھوپڑی کا ایک حصہ کاٹ کے علیحدہ کیا جائے، ،

ڈاکٹروں نے اپنے فیصلے پہ عمل کیا تو شین معمول کی زندگی کی طرف لوٹ پڑا، اس سانحے کے بعد شین نے عجیب کام کیا وہ گھر آکے بیٹھا نہیں اور نہ ہی اس سانحے کو قدرت کے کھاتے میں ڈالا بلکہ اس نے امریکی حکومت ، نیشنل پارک سروس محکمہ داخلہ سے نصف کرو ڑ ہرجانہ طلب کر لیا،

شین کے وکیل نے کہا کہ میرا مؤکل ہر وقت خوف کا شکار رہنے لگا ہے اسے ہر دم یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ کوئی چیز اس کے سَر سے نہ ٹکرا جائے ،

شین کے وکیل اسکاٹ کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے پارک میں آنے والوں کے لیے کوئی تنبیہی بورڈ نصب نہیں کیا، انتظامیہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پارک میں آنے والوں کو آگاہ کرے کہ درختوں کے سائے میں بیٹھنے سے اجتناب کیا جائے ، انتظامیہ نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی ، انتظامیہ کی غفلت نے میرے مؤکل کو جانی و مالی نقصان سے دو چار کیا ہے ، لہٰذا حکومت تاوان ادا کرے ،،،

اس مقدمے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے یہ تو آنے والا وقت بتائے گا لیکن شین نے حکومت سے ہر جانہ طلب کر کے اس بات کو واضح کر دیا کہ حکومتیں رعایا کی جان کی محافظ ہو ا کرتی ہے،

یہ ہے ایک شہری کی ذہنی بلند سطح ، آپ ذرا شین کو سائیڈ پہ رکھیں اور آئیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طرف کہ یہاں کی رعایا پہ کیا گزرتی ہے،

ہمارے ملک میں آئے روز لوگ مرتے ہیں ، ہر کوئی اندھی گولی لگنے کے انتظار میں ہوتا ہے ، جنرل مشرف کے دورِ اقتدار سے لیکر آج تک ساٹھ ہزارلوگ شہید ہو چکے ہیں ، مسجد یں دھماکوں سے گرائی گئیں ، مزارات کو نشانہ بنایا گیا ، بچے بوڑھے جوان ، مسلم غیر مسلم سبھی مرے ، یہ تو وہ لوگ ہیں جو جنگ کی وجہ سے مرے اور کچھ تو ایسے ہیں جو ہر سال سیلاب کی وجہ سے مَر جاتے ہیں، یہ خود ہی نہیں مرتے بلکہ انکی فصلیں، مکانات ، مال مویشی کو بھی پانی بہا کر لے جا تا ہے ، نہ رعایا کے سر پہ جوں رینگتی ہے اور نہ حکمرانوں کے سر پہ ، ، رہی عدلیہ تو وہ ابھی آزادی کے مراحل طے کر رہی ہے، وہاں سے بھی انصاف نہیں ملتا ، اسے بھی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کی فکر نہیں ،اور سچی بات یہ ہے کہ لوگ انصاف لینے عدالت جاتے ہی نہیں ،

سیلاب میں مرنے والوں کو چھوڑیں یہاں کی محافظ پولیس کے ظلم سے تنگ آکے بچیاں خود کشی کرنے لگ جاتی ہیں ، یہاں کے ڈاکٹر مریضوں کو تڑپتا چھوڑ کے احتجاج کرنے لگ جاتے ہیں جبکہ مریض ایڑیاں رگڑ رگڑ کے مر جاتے ہیں ، قوم کے مسیحاؤں کو انسانی جان کی فکر ہی نہیں ہو تی ، یہاں لڑکیاں بھٹوں میں کام کرتی ہیں اور جب کسی کام کی نہیں رہتی توانہیں دیوار وں میں چُنوا دیا جاتا ہے ، یہاں شوہر اپنی بیوی پہ تیزاب اس لیے پھینک دیتا ہے کہ اس نے لڑکی کیوں جنی، یہاں محب اپنی محبوبہ کو قتل کر دیتا ہے کہ اس کا رشتہ دوسری جگہ کیوں ہوا ، یہاں اہل سیاست دس بیس بندے مروا کے اپنی سیاست چمکا تے ہیں،یہاں میڈیا بلیک میلنگ کرتا ہے ، جس دیس کا سارا نظام ظلم پہ کھڑا ہو وہاں امن ، سکون آشتی کا ہونا نا ممکن ہے ،

جس دیس کی رعایا اپنے حکمران سے سوال نہ پوچھ سکے اس قوم کو حق نہیں کہ وہ حالات کا شکوہ کرے ، جو قوم قیادت کے غلط فیصلوں کا دفاع کرے اسے ٹھنڈک نہیں تپش ملا کر تی ہے ، امریکہ کا ایک شہری اپنی حکومت کے خلاف ڈٹ سکتا ہے تو ہمارے شہری ایسا کیوں نہیں کر تے؟

ہمارا آئین کہتا کہ شہری کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے جبکہ ہم اس کے بلکل اُلٹ چل رہے ہیں، پاکستان واحد ملک ہے جس کا شہری اپنے بَل بوتے پہ جیتا ہے ، شہری مَر رہا ہے تو حکومت اسے بچانے کیلئے کچھ نہیں کرتی ، اگر کوئی محل میں رہتاہے تو وہ بھی اپنے زور پہ ، اگر کوئی کوٹھڑی میں رہتا ہے تو وہ بھی اپنی وجہ سے ، ، ہمارے ساتھ یہ سب کچھ اسی وجہ سے ہورہا ہے کہ ہم حق نہیں مانگتے ، حق کا مطالبہ نہیں کرتے ، ہمارے ساتھ اگر زیادتی ہوتی ہے تو پہلے ہمیں اپنے صدر ، وزیراعظم اوردیگر ذمہ داروں کے خلاف پرچہ کٹوانا چاہئے ،

امریکہ کے خلاف نعرے لگاؤ لیکن یہ بھی سوچوکہ وہاں کے شہری کتنے باشعو ر ہیں اور ہم کتنے پانی میں ہیں؟

امریکی شہری کے مطالبہ سے مجھے وہ بڑھیا یاد آگئی کہ جس کے پاس حضرت فاروق اعظمؓ گئے اور اس کا حال احوال پوچھا ، بڑھیا نے بتایا کہ وقت مشکل کٹ رہا ہے ، گزر اوقات ٹھیک طریقے سے بسر نہیں ہو رہی، اور عمرؓ ہے کہ اسے میری خبر ہی نہیں،،، حضرت عمرؓ نے پوچھا بڑھیا اس جنگل میں عمرؓ کو تیرا کیا پتا ؟؟؟ اس بڑھیا نے دلچسپ جواب دیا کہ عمرؓ کو میر ی خبر ہی نہیں تو اسے حکمرانی کا حق کس نے دیا ہے ؟ اسے چاہئے کہ وہ امارت چھوڑ دے ،

حضرت عمرؓ نے جب اس کی کفالت کی اور پھر بتایا کہ میں عمرؓ ہوں تو اس نے کہا ہا ں واقعی عمرؓ ہی حکمرانی کے لائق ہے ،،، بڑھیا نے شکایت کی حضرت عمرؓ نے دور کر دی ، بڑھیا کو بھی معلوم تھا کہ میری حفاظت کی ذمہ داری عمرؓ پہ عائد ہوتی ہے ، اور حضرت عمرؓ کو بھی معلوم تھا کہ بڑھیا کی حفاظت میری ذمہ داری ہے ،

مجھے یقین ہے کہ امریکی ریاست اپنے شہری کو ہر جانہ ادا کریگی ، اور اس سے معافی بھی مانگے گی اس لیے کہ اوباما اس مسلمان بچے سے بھی معافی مانگ چکا ہے جس نے گھڑی بنائی تھی اور اساتذہ نے اسے بم سمجھتے ہوئے جیل بجھوا دیا تھا ، ہم کب ایسے بنیں گے ، یہ معلوم نہیں ؟؟؟لیکن کوشش تو کرنی چاہئے ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے