ہمارے سب فیصلے غلط نہیں تھے

اکثر اخباری کالموں، ٹی وی پروگراموں یا گفتگو کی محافل میں ایک فقرہ تواتر سے سننے کو ملتا ہے کہ ہم نے سب کچھ غلط کیا اور پاکستانی ریاست اپنے غلط فیصلوں کے باعث دنیا بھر میں تنہا رہ گئی ہے۔بعض سیاہ زبان ایسا کہتے ہوئے ملک او رقوم کے حوالے سے سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں، تان اسی پر توڑی جاتی ہے،” ہم ایک قوم بن ہی نہیں سکے ، بکھرا ہوا،منتشر ہجوم ہیں، ریاست بھی ناکام ہوگئی اورقوم بھی۔‘‘کیا واقعی ایسا ہے؟ کیا واقعی پاکستانی ریاست نے اپنے قومی سفر میں کوئی درست فیصلہ نہیں کیا؟

اگر سنجیدگی کے ساتھ ، غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو جواب اتنا مایوس کن نہیں ملتا۔ یہ درست ہے اور سو فی صد درست ہے کہ آج ہمیں جہاں ہونا چاہیے تھا، وہاں نہیں ہیں۔ یہ بھی سچ ہے کہ ہماری اکانومی کمزور اور ادارے روبہ زوال ہیں۔ اس حوالے سے بہت کچھ درست کرنے کی ضرورت ہے۔سماج میں مذہبی شدت پسندی اور عدم برداشت بھی بڑھی ہے، لیکن اس حوالے سے جس قدر پروپیگنڈا ہوتا ہے، خرابی اتنی نہیں، تاہم ہمیں بحیثیت قوم اپنے اندر زیادہ برداشت، تحمل اور رواداری لانے کی ضرورت ہے۔ادارے مضبوط اور مستحکم بنانے کی اشد ضرورت ہے، خاص کر کرپشن کے خاتمے کے لئے ایک مضبوط، شفاف اور کریڈیبلٹی والا ادارہ بنانا پڑے گا، جس پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ اس حوالے سے موجودہ صورتحال زیادہ بہتر نہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومت نے کرپٹ عناصر کی جس طرح آئوٹ آف دا وے جا کر سپورٹ کی، اس سے کئی نئے سوال پیدا ہوئے ہیں۔ یہ اب بالکل واضح ہوچکا ہے کہ اینٹی کرپشن کا محکمہ بالکل بے کار اور غیر موثر ہے، صوبائی انتظامیہ کے ماتحت ہونے کی وجہ سے یہ آزادانہ کام نہیں کر سکتا۔ ایف آئی اے کی اپنی محدودات ہیں، رہا نیب تو اس کی کارکردگی کے ڈھنڈورے تو بہت پیٹے جاتے ہیں، مگر وہ حقیقی معنوں میں کس قدر موثر ہے، اس حوالے سے کسی کو کچھ سمجھانے کی ضرورت نہیں، ہر کوئی جانتا ہے کہ پنجاب میں قدم رکھتے ہوئے نیب کے پر کیوں جلتے ہیں اور اگر سندھ میں وہ موثر کام کر پاتی تو رینجرز کو اتنا آگے آ کر ڈاکٹر عاصم اور دوسروں پر ہاتھ نہ ڈالنا پڑتا۔یہ سب ایسی باتیں ہیں جن میں وزن ہے اور اچھی گورننس کو وتیرہ بنا کر چند ہی برسوں میں ادارے مضبوط بنائے اور سسٹم کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ماننا ہوگا کہ ریاست پاکستان نے ہمیشہ غلط فیصلے نہیں کئے،کئی نازک امور پر نہایت سلیقے سے آگے بڑھا گیا ،جن کے ثمرات ہمیںملتے رہے۔ ہمارے ہاں لیفٹ کے دانشور اور لکھنے والے ہمیشہ یہ لکھتے اور کہتے آئے ہیں کہ لیاقت علی خان نے دورہ سوویت یونین کی دعوت مسترد کر کے امریکہ کا دورہ کیا اور یوں ایک غلط انتخاب کیا۔ [pullquote]بائیں بازوسے تعلق رکھنے والوں کے لئے یقیناً یہ بات صدمے کا باعث ہوگی کہ پاکستانی قیادت نے سوویت یونین کا انتخاب نہیں کیا اور اس کے بجائے مغربی بلاک کا حصہ بنناپسند کیا، مگر آج ساٹھ ، پینسٹھ سال پہلے کا فیصلہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے، جب سوویت یونین نام کا ملک دنیا کے نقشے سے غائب ہوچکا، لیفٹ بلاک شکست سے دوچار ہوا اور پرو روس بلاک کے پاس امریکہ کی جانب لوٹنے کے سوا کوئی اور آپشن نہیں بچی۔ پاکستان کا فیصلہ درست تھا، اس کے فوائد بھی حاصل ہوئے،[/pullquote] اگرچہ امریکہ کے ساتھ ہمارا تعلق اتار چڑھائو کا شکار رہا، مگر اس کی بڑی وجہ ہماری ضرورت سے زیادہ توقعات تھیں۔ عالمی تعلقات میں ہر کوئی اپنے مفادات کو دیکھ کر فیصلہ کرتا ہے۔ ہم نے امریکہ کے ساتھ تعلقات اپنے مفادات کے مطابق قائم کئے اور جہاں جہاں موقعہ ملا، ہم نے سپر پاور کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ اسی کے عشرے میں افغان تحریک مزاحمت کے دوران اگر پاکستانی عسکری قیادت اس موقعہ کو استعمال کر کے ایٹم بم نہ بنا لیتی تو بعد میں یہ موقعہ قطعی طور پر نہیں ملنا تھا۔ بعد کے برسوں میں جن مسلم ممالک نے ایسی کوشش کی، سب کوناکامی ہوئی ، ایران کے گھٹنے ٹیکنے کے بعد تو اب مستقبل میں کسی مسلم ملک کی جانب سے ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے کی کوشش کا تصور بھی ختم ہوگیا۔

خارجہ پالیسی کے حوالے سے دو تین بڑے اہم بنیادی فیصلے ساٹھ کے عشرے میں کئے گئے، امریکہ کے ساتھ تمام تر قریبی تعلقات اور چین کے لئے امریکہ کی شدید ناپسندیدگی کے باوجود پاکستان نے چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کئے، بتدریج جو سٹریٹجک پارٹنرشپ میں بدل گئے۔چین کا بطور دوست انتخاب پاکستانی منصوبہ سازوں کی اچھی سلیکشن کی ایک عمدہ مثال ہے۔ اس پالیسی کو ایوب خان سے بھٹو اور جنرل ضیا الحق سے بے نظیر بھٹو، میاں نواز شریف ، پرویز مشرف اور آصف زرداری تک ہر ایک نے آگے بڑھایا بلکہ اس میں کچھ نئے رنگ شامل کرنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ساٹھ کے عشرے ہی سے دوست مسلمان ممالک کے ساتھ بھی قریبی تعلقات قائم کئے، سعودی عرب، امارات ، کویت اور بحرین وغیرہ کے ساتھ قربت کا ایسا تعلق قائم ہوا، جسے بعد میں تواتر سے جاری رکھا گیا۔ اس حوالے سے کمال دانش مندی یہ برتی گئی کہ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات ایران کی قیمت پر قائم نہیں رکھے گئے۔ ایران عراق جنگ میں عرب بلاک کے تمام تر دبائو کے باوجود پاکستان نہ صرف غیر جانبدار رہا ،بلکہ ایران کے ساتھ خوشگوار تعلقات بھی برقرار رکھے گئے۔[pullquote] دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ پالیسی اس شخص نے اپنائی جو آج پاکستانی تاریخ کے متنازع ترین کرداروں میں سے ایک ہے، …جنرل ضیا الحق۔[/pullquote] افغانستان البتہ تاریخ کے مختلف ادوار میں درد سر بنا رہا۔ ظاہر شاہ سے لے کر سردار دائود کے زمانوں میں افغان حکومت نے مسلسل بھارت کے اشارے پر پاکستان کے خلاف پراکسی وار جاری رکھی۔ جس کے نتیجے میں پاکستانی منصوبہ سازوں کو سٹریٹجک ڈیپتھ کا نظریہ اپنانا پڑا۔ہمارے ہاں سٹریٹجک ڈیپتھ کی اصطلاح پر بلاجواز تنقید کی جاتی رہی، کسی نشست میں اس پر تفصیل سے بات کریں گے۔ہماری افغان پالیسی میں غلطیاں بھی ہوئیں، مگر اس پر تنقید کرتے ہوئے یہ ضرور یاد رکھا جائے کہ پاکستان کی افغان پالیسی ردعمل میں بنائی جاتی رہی، بھارت کی تذویراتی چالوں کے جواب میں ہمارے پاس بسا اوقات ایک ہی آپشن بچتی تھی، جسے بعض کیسز میں مجبوراً بروئے کار لایا گیا۔

مسلم دنیا کے دیگر ممالک پر نظر ڈالی جائے اور پھر پاکستان کو دیکھا جائے تو دو باتیں تسلیم کرنا پڑیں گی۔ ہمارے فیصلہ سازوں نے لچکدار رویہ اپنایا اور عالمی قوتوں کے ٹکرائو میں اپنے لئے بہتر دوستوں کا انتخاب کیا، بدلتے حالات میں اپنے دفاع کو مضبوط کیا اور غیرملکی امداد سے مسلم دنیا کی سب سے بہتر، منظم اور پروفیشنل فوج تیار کر لی۔ [pullquote]آج اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جب عراق، شام اور لبیا جیسے ممالک عسکریت پسندوں کے ہاتھوں تباہ وبرباد ہو گئے ہیں ، ان کا قومی وجود بھی خطرے میں پڑ چکا ہے اور صدیوں کے تاریخ کے حامل یہ ممالک تحلیل ہونے کے خدشے سے دوچار ہیں۔وہاں پاکستان جیسا ملک ، جس کی کل قومی تاریخ پون صدی کے لگ بھگ ہے، اس نے نہ صرف عسکریت پسندوں کی کمر توڑ ڈالی بلکہ ملک کے ہر کونے میں ریاست کی رٹ قائم کر کے دکھا دی۔[/pullquote] اس فوج کی تشکیل میں سول ملٹری لیڈرشپ کا بھرپور حصہ ہے۔ ایک بار پھر ایوب خان سے میاں نواز شریف تک کے تمام حکمرانوں کو خراج تحسین پیش کرنا ہوگا۔

پاکستانی قوم کی دوسری بڑی کامیابی آئین اور جمہوریت کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی ہے۔ [pullquote]ہماری قومی تاریخ میں ایسے سیاہ ادوار آئے جب آمریت نے شب خون مارا، آئین معطل ہوا اور جمہوریت کی ٹرین پٹری سے اتر گئی۔ پاکستانی عوام کو مگر کریڈٹ دینا چاہیے کہ آمروں کی تمام تر کوششوں ، ریفرنڈم ڈراموں اور غیر جماعتی انتخابات کے حربوں، حیلوں کے باوجود دوبارہ سے جمہوری سسٹم بحال کرانے میں یہ کامیاب ہوئے ۔[/pullquote] اس کے مقابلے میں اگر مڈل ایسٹ کو دیکھا جائے تو وہاں مصر، تیونس، یمن، لبیا جیسے ممالک میں تیس تیس چالیس چالیس سال ایک ہی شخص بیٹھا رہا، جبکہ کئی ممالک تو ابھی تک جمہوریت سے کوسوں دور اور شہنشاہت کے زیراثر ہیں۔ پاکستانی عوام میں مزاحمت کی جو سطح ہے، جس طرح بری گورننس ، آفات ، خراب معیشت اور اندرونی وبیرونی دہشت گردی کے عفریت سے یہ نبرد آزما رہی، اس کی مثال مسلم دنیا میں کم ہی نظر آتی ہے۔ہمارے اندر خامیاں بھی بہت سی ہیں، شروع میں ان کا ذکر کیا، انہی کالموں میں بڑھتی کرپشن، اداروں کے زوال، سیاستدانوں کی قلابازیوں اور چکر بازیوں پر مسلسل تنقیدکی جاتی رہی ہے۔ [pullquote]ہم اپنا احتساب خود کرتے رہیں گے،جب تک گڈ گورننس حقیقی معنوں میں قائم نہ ہوجائے، اس وقت تک جدوجہد بھی جاری رہے گی۔ سب کچھ مگر ہم غلط نہیں کرتے رہے، کچھ فیصلے ہم نے درست بھی کئے ہیں۔ ہماری تاریخ اور ماضی میں سب کچھ سیاہ نہیں، روشن، جگمگاتے لمحات بھی موجود ہیں۔ ان سب کا ذکر ہونا چاہیے ۔[/pullquote] اپنااحتساب بے رحمی سے کیا جائے ،مگر ایسا کرتے ہوئے انصاف کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہیے۔

بشکریہ روزنامہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے