مولاناشیرانی اورعلامہ طاہراشرفی کیوں لڑے ؟(اندرونی کہانی)

اسلامی نظریاتی کونسل کایہ 201واں اورسال 2015کا آخری اجلاس تھا اجلاس کاایک طویل ایجنڈہ تھا مگراجلاس شروع ہوتے ہی ہنگامے کی نذرہوگیا دوروزہ اجلاس پہلے ہی روز ہنگامہ آرائی کی نذر ہونے کی وجہ سے غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیاگیا گیا۔ اسلامی نظریاتی کونسل کا 201واں اجلاس چیئرمین کونسل مولانا محمدخان شیرانی کی صدارت میں شرو ع ہوا۔  تلاوت قرآن کے بعدایجنڈے پرغورو وخوض اوربحث شروع ہوئی تو کونسل کے ممبر مولانا حافظ طاہراشرفی نے چیئرمین سے استفسارکیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں طے شدہ مسائل پر دوبارہ بحث کرنے کا ایجنڈاکس کا ہے۔[pullquote]انہوں نے کہا کہ انہوں نے فرقہ واریت کے حوالے سے نکتہ ضرور زیر بحث لانے کے لیے کونسل کو لکھا تھا مگر قادیانیوں کے غیر مسلم یا مرتد ہونے کا فیصلہ کرنے بارے کچھ نہیں لکھا تھا[/pullquote] ، پھر ایجنڈا آئیٹم نمبر 13 میں ان کے نام کے ساتھ یہ نکتہ کیوں لکھا گیا،اگر چیئرمین نے اپنی مرضی سے یہ نکتہ لکھوایا ہے تو اپنے نام کے ساتھ قبول کریں اور اگر کسی اور نے دیا ہے تو اس کی نشاندہی کریں ،ورنہ وہ اجلاس نہیں چلنے دیں گے ،

انہوں نے کہا کہ قادیانیوں کے حوالے سے عالم اسلام کا مؤقف اور آئین پاکستان روز روشن کی طرح واضح ہیں۔پھر قادیانیوں کے مسئلہ پر ازسرنو بحث کی ضرورت کیوں ہے۔ قادیانیوں کے متعلق نظریاتی کونسل کے ایجنڈے میں شق کس کے کہنے پر ڈالی گئی۔ ا س بارے ممبران کو بتایا جائے جواب نہ ملنے پر انھوں نے دوبارہ یہی بات کہی پھربھی جواب نہ دیا گیا تو میں خاموش نہیں رہوں گا ۔ پہلے وضاحت کی جائے کہ ایسے متنازع معاملات کو کیوں زیر بحث لایا جاتا ہے کہ جو ایجنڈے میں شامل ہی نہیں ، جس پر[pullquote] مولانا محمدخان شیرانی نے حافظ طاہراشرفی کومخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہی رویہ اپنائے رکھا تو میں آپ کی رکنیت منسوخ کردوں گا [/pullquote]، جس پرانھوں نے کہا کہ میری رکنیت آپ کس طرح منسوخ کر سکتے ہیں ۔ آپ خود قادیانیوں کی پست پناہی کر رہے ہیں  جس پر مولانا شیرانی نے ابھی انھیں تلخ جواب دیا،

مولانا محمد خان شیرانی نے طاہر اشرفی کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا [pullquote]’’آپ جس حالت میں ہوتے ہیں سب جانتے ہیں آپ کو کون نہیں جانتا کہ آپ کیا کرتے ہیں ‘‘۔[/pullquote]اس پر طاہر اشرفی نے مولانا محمد خان شیرانی سے جواباً کہا ’’آپ کے بارے میں بھی میں خوب جانتا ہوں آپ،آپ کے بھائی بھتیجے کس طرح سترہ سترہ سرکاری گاڑیاں استعمال کرتے ہیں ۔  مجھے سب معلوم ہے میری زبان نہ کھلوائیں ورنہ سب کچھ کھول کر رکھ دوں گا،پھر یہ بتائیں کہ کیا اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شپ آپ کے نام لگ چکی ہے کہ ہر بار آپ ہی چیئرمین ہوں گے ‘‘۔

اس پر مولانا محمد خان شیرانی نے طاہر اشرفی سے کہا ’’آپ کونسل کے اجلاس کو پنجاب اسمبلی نہ بنائیں اور پنجابیوں کی طرح یہاں بڑھکیں نہ ماریں ۔‘‘اس پر طاہر اشرفی نے مولانا شیرانی کو کہا’’آپ بھی اسے بلوچستان اسمبلی نہ بنائیں اور بلوچوں کی طرح بڑھکیں نہ ماریں اور اس مسئلے کو قومیتوں کا مسئلہ نہ بنائیں ‘‘۔طاہر اشرفی کے اصرار پرجب چیئر مین کونسل تسلی بخش جواب نہ دے سکے تو رکن کونسل افتخار حسین نقوی اور پھر مفتی ابراہیم قادری نے بھی طاہر اشرفی کا ساتھ دیا اور پھر طے ہوا کہ ارکان سے پوچھ لیا جائے کہ قادیانیوں کا یہ مسئلہ زیر بحث آنا چاہئے یا نہیں ،ارکان کی اکثریت نے اس مسئلے کو زیر بحث نہ لانے کا کہا جس پر مولانا شیرانی نے کہا کہ وہ اس نکتے کو ایجنڈے سے ہٹا دیتے ہیں مگر طاہر اشرفی نے ضد کی اور کہا کہ وہ یہ نکتے ان کے نام پر ایجنڈے میں کیوں لائے بتائیں ؟،

اس پر تلخ کلامی مزید بڑھ گئی ،اس دوران دیگرممبران نے معاملہ سلجھانے کی کوشش کی مگر وہ کوششیں بھی بارآور ثابت نہ ہوئیں اور ایک دوسرے پر دونوں جانب سے الزامات کی بوچھاڑ کاسلسلہ جاری رہا ،جس پر ممبران نے اجلاس ختم کرنے بارے مشورہ دیا اوراجلاس ختم کردیا گیا،اس پر[pullquote] جب چیئرمین مولانا شیرانی اپنی نشست سے اٹھ کر ہال سے باہرجانے لگے تو حافظ طاہرا شرفی کی نشست جوکہ ان کے راستے میں تھی کے پاس سے گزرے تو راستے میں دروازے کے پاس کھڑے طاہر اشرفی کو انھوں نے انھیں آگے سے ہٹانے کیلئے اشارہ کرتے ہوئے ان کے سینے پر ہاتھ رکھا اور وہ آگے بڑھنے لگے تو طاہر اشرفی نے شور مچا دیا کہ مولانا شیرانی نے ان کا گریبان پکڑا ہے، جس پر ایک بار پھر ہال میں ہنگامہ برپا ہوگیا کہ چیئرمین کونسل نے گریبان پر ہاتھ ڈالا ہے اورحافظ طاہراشرفی سب کو اپنا گریبا ن دکھاتے رہے کہ ان کو چیرمین مولاناشیرانی نے ان کے گریبان پر ہاتھ ڈالا جس سے ان کے بٹن ٹوٹ گئے[/pullquote] ،اس دھکم پیل میں ملازمین اور ارکان معاملہ رفع دفع کرنے کی کوشش کرتے،اسی ہنگامہ آرائی میں چیئرمین ہال سے نکل کر اپنے آفس روانہ ہوگئے اور ساتھ ہی اسلامی نظریاتی کونسل کے مین گیٹ کوبھی بند کر گیا کہ اور میڈیا کوبھی اندرجانے سے روک دیا گیا ۔بعد ازاں  میڈیاکو احتجاج کے بعداندر جانے دیاگیا

طاہراشرفی کامؤقف

پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین واسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر مولاناحافظ طاہر محموداشرفی نے کہا ہے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانامحمد خان شیرانی کو چیئرمین کے عہدہ سے ہٹایا جائے۔ نسل کے ممبران ان پرعدم اعتماد کرتے ہیں ۔ مولاناشیرانی کے عمل سے علماء کرام کی جگ ہنسائی اورتمسخر اڑا ہے ۔[pullquote] مولاناشیرانی نے کس شرعی، قانونی ،اخلاقی ذمہ داری سے میرا گربیان پکڑا ۔ میں جواب دے سکتاتھا مگر سفیدریش کا احترام اورحیا کی ۔ میری حیا اوراحترام کوکمزوری نہ سمجھا جائے ۔ مجھ پر تشدد کرنے سمیت کمرے میں محبوس بھی رکھا گیا [/pullquote]۔ ان خیالات کاا اظہار انھوں نے منگل کے روزاسلامی نظریاتی کونسل کے ہنگامہ خیز اجلاس کے بعد کونسل میں ہی پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ان کے ہمراہ صاحبزادہ زاہدمحمودقاسمی علامہ سعید احمدگجراتی اوردیگر ممبران کونسل بھی تھے پاکستان علماء کونسل کے چےئرمین واسلامی نظریاتی کونسل کے ممبر مولاناحافظ طاہر محموداشرفی نے کہا کہ اجلاس میں قادیانیوں بارے شق ایجنڈے میں شامل کی گئی تھی ہم نے پوچھا کہ کس نے یہ شق شامل کرائی ہے ۔ جب قومی اسمبلی اورآئین میں طے ہوچکا ہے کہ قادیابی غیر مسلم ہیں تو پھر اان کو مرتد قرار دینے بارے شق کیوں لائی گئی ۔ اس طرح قرآن بورڈ بارے اورقرآن پاک کی طباعت بارے ہم نے پوچھا کہ مثالی قرآن کیاہے؟ قرآن توہے ہی مثالی ۔ اسی طرح دیگر امور بارے ہم نے بات کی کہ اگر قادیانیوں کو مرتد قرار دیے جانے کے بعد انھیں کوئی قتل کرتا ہے یا تشدد کرتاہے توپھر کس پر ذمہ داری ہوگی ۔ آئین کی روسے تما م مکاتب فکر جب قادیانیوں کوغیرمسلم قرار دے چکے ہیں ہیں پھر ایسے ایشو کیوں اٹھائے جارہے ہیں  ۔ ہم نے کہاکہ قوم کوتصادم کی طرف نہ لے کرلے جایا جائے اورطے شدہ معاملات کو نہ چھیڑا جائے مگرمجھے جواب دینے یا ایوان کووضاحت دینے کے بجائے ہمارے اوپرالزامات عائد کئے گئے اوراجلاس کوختم کر دیا گیا ۔ اس دوران جب چیئرمین اپنی نشست سے اٹھ کر جانے لگے تو جاتے ہوئے انھوں نے مجھے گریبان سے پکڑا۔  میں تو سفید ریش کے احترام اورحیا میں خاموش رہا ورنہ جواب میں بھی دے سکتا تھا ۔ حافظ طاہرا شرفی نے کہا کہ ہم 2013سے کہہ رہے ہیں کہ اسلامی نظریاتی کونسل میں جید علما اور اہل لوگوں کو آگے لایا جائے ۔ یہ کونسل ہمیشہ متنازع امور زیربحث لائی  ۔ ڈی این اے بارے بھی متنازعہ بیان دیا ۔ انھوں نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ میرے اوپر یہ الزام ہے کہ کہیں ریٹائرڈ ہونے والا ہوں اورآخری اجلاس کی وجہ سے کیا میں نے تو 2013میں بھی وزیر اعظم کوبھی اپنا استعفی بارے کہا تھا کہ کونسل میں اصلاحات لائی جائیں ۔ انھوں نے مطالبہ کیا کہ چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کو فروری طور پر برطرف کیا جائے ۔ وہ اس عہدے کے اہل نہیں رہے انھوں نے کہا کہ مولانا شیرانی کے لوگوں نے مجھ پرتشدد بھی کیا ۔ ہم ا س واقعہ بارے قانونی چارہ جوئی کرنے بارے حق رکھتے ہیں

مولاناشیرانی کامؤقف
اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمدخان شیرانی نے کہا ہے کہ قادیانیوں کے غیرمسلم ہونے کا مسئلہ آئین پاکستان اور امت مسلمہ کے فتوے کی روشنی میں مسلمہ ہے ۔ اس لیے اس پر بحث کا مقصد قادیانیوں کو کسی قسم کی لچک دینا نہیں بلکہ اس کی آڑ میں طرح طرح کے فتوؤں کو روکنا تھا، آئندہ ماہ حافظ طاہراشرفی سمیت دیگرچند ممبران کی تقرری کی معیادختم ہوجائے گی ۔ [pullquote] ہنگامہ آرائی رخصت ہونے والے ممبر حافظ طاہر اشرفی کی جانب سے شروع ہوئی ۔ میں نے ان کا گربیان نہیں پکڑا ،وہ میرے راستے میں تھے انھیں صرف آگے سے ہٹایاتھا ۔ دوروزہ اجلاس کواب غیر معینہ مدت کیلئے ملتوی کر دیا ہے ہم نے طے شدہ معاملات کو نہیں چھیڑا ۔[/pullquote] ان خیالات کااظہارانھوں نے ملتوی ہونے والے اجلاس کے بعد کونسل میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ ان کے ہمراہ اسلامی نظریاتی کونسل کے دیگرممبران بھی تھے ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین مولانا محمدخان شیرانی نے کہا کہ کونسل کے اجلاس میں طاہر اشرفی اور زاہد قاسمی ڈیڑھ گھنٹہ لیٹ آئے اور آتے ہی جس ایجنڈے پر بات ہورہی تھی اس کی بجائے اگلے ایجنڈے پر بات شروع کردی ،یہ ان کا آخری اجلاس تھا ۔ نہ جانے کیوں اورکن مقاصدکیلئے ہنگامہ آرائی کی گئی  ۔ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ مجھے عہدے سے ہٹائے جانے والے مطالبے پر میں کسی کی زبان پرقدغن نہیں لگاسکتا ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ یہ آئینی ادارہ ہے اورہم نے تما م معاملات کو دیکھ کرجائزہ لے کررائے سمیت سفارشات دیناہوتی ہیں اورجو غیر مسلم ہوں انھیں شرعی طورپرکوئی بھی مسلم قرار نہیں دے سکتا۔ ایک سوال کے جواب میں انھوں نے کہا کہ اجلاس آج بدھ کو بھی ہوناتھااوررخصت ہونیوالے ممبران کے اعزازمیں تھا مگراب اجلاس کو ملتوی کردیاگیا ہے ،

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ قادیانیوں کے غیر مسلم یا مرتد ہونے کا مسئلہ پچھلے اجلاس سے اسی ایجنڈے میں تھا تو پھر طاہر اشرفی نے اس وقت اس اعتراض کیوں نہیں کیا،ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کونسل نے اجلاس کا ایجنڈا اسی طرح طے کرنا ہوتا ہے جس طرح قومی اسمبلی و سینٹ کرتی ہیں ۔ایجنڈا ارکان طے نہیں کرتے ،مولانا شیرانی اس سوال کے جواب نہ دے سکے کہ آخر ایجنڈے میں طاہر اشرفی کے نہ اٹھائے گئے نکتے کو ان کے نام کے ساتھ کیوں منسوب کیا گیا ۔۔

اسلامی نظریاتی کونسل کاوضاحتی بیان
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے وضاحتی بیان میں کہاہے کہ آج مؤرخہ ۲۹؍ دسمبر ۲۰۱۵ء کو اسلامی نظریاتی کونسل کو۲۰۱واں اجلاس صبح ۳۰: ۹بجے شروع ہوا تو سب سے پہلے قرآن بورڈ پنجاب کے چیئرمین جناب مولانا غلام محمد سیالوی اور ان کے ہمراہ جناب مولاناقاری احمد میاں تھانوی کے ساتھ قرآن کریم کی طباعت کے حوالے سے گفتگو کا آغاز ہوا۔ ڈیڑھ گھنٹے کی تفصیلی علمی گفتگو میں ان حضرات نے قرآن پاک کے حوالے سے اپنی خدمات کا تفصیلی ذکر کیا۔

قرآن بورڈ پنجاب کے حضرات کی علمی گفتگو کو سننے کے بعد کونسل نے اس پر غوروفکر کر کے کوئی فیصلہ مرتب کرنا تھا کہ اس دوران[pullquote] جناب حافظ محمد طاہر محمود اشرفی اور ان کے ہمراہ جناب مولانا زاہد محمود قاسمی اجلاس میں تشریف لائے۔ انہوں نے آتے ہی ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ شروع کرنے کے ساتھ ساتھ اجلاس میں نازیبا الفاظ کا بے دریغ استعمال کیا جس سے اجلاس کا ماحول مکدر ہوگیا۔[/pullquote] مزید برآں ان حضرات نے ایجنڈے سے ہٹ کر غیر متعلقہ ابحاث کو شروع کر دیا اور اس دوران بھی مسلسل نازیبا الفاظ کا استعمال اور ہنگامہ آرائی جاری رکھی۔ چونکہ جناب حافظ محمد طاہر محمود اشرفی کی رکنیت کا آخری اجلاس تھا اس لئے وہ اس ہنگامہ آرائی سے نہ جانے کن مقاصد کا حصول چاہتے تھے؟۔ مزید خفگی اور ماحول کے تکدر سے بچنے کے لئے تمام ممبران کی درخواست پر جناب چیئرمین نے اجلاس ملتوی کر دیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے