سماجی تعامل مگر کیسے!!!

حضرت محمد اللہ ﷺتعالیٰ کی طرف سے آخری رسول اور پورے عالم کے لئے رحمت بن کر آئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سیرت مبارکہ پر اگر نظر ڈالی جائے تو ایک ایسی جامعیت ملتی ہے جس میں آج بھی پوری انسانیت کے لئے خیر موجود ہے۔

رسول خدا کی پوری زندگی تمام لوگوں کے لئے مشعل راہ ہے جس کے ذریعے ہم ہدایت پا سکتے ہیں۔ آج بھی سیرت طیبہ کے مختلف نمونوں کو روبہ عمل لاکر مسلمان دنیا میں اپنا کھویا ہوا وقار دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ جس طرح ہم نے دین کو ٹکڑوں میں بانٹ کر ہر ایک اپنے حصے پر خوش ہے اور لوگوں کے کفر اور اسلام کے پیمانے کے لئے استعمال کرتے ہیں بالکل اسی طرح ہم نے اپنے نبی اکرم کی سیرت مطہرہ کے ساتھ بھی کیا ہوا ہے ۔ ۔۔۔۔

سیرت کے مختلف گوشے مل کر ایک ایسی شخصیت پیش کرتے ہیں جس کو اللہ نے نبی بنا کر بھیج دیا تھا تاکہ انسان فلاح پا سکے۔ لیکن ہم نے سیرت کے ساتھ بھی وہی حشر کیا ہے۔ ہر ایک نے اپنے نظریات کے مطابق محمد رسول اللہ کا ایک نقشہ کھینچا ہوا ہے اور وہی اس کا نبی ہے اگر دوسرا اس کے نبی کو اس طرح نہیں دیکھتا یا اسی طرح احترام نہیں کرتا جس طرح یہ کرتا ہے تو وہ اس کے نزدیک گستاخ تصور کیا جاتاہے۔ ۔۔

نوجوانی میں آپ ﷺ نے ایک تنظیم میں شامل ہوئے تھے جو مکہ کے مختلف قبیلوں کے نوجوانوں پر مشتمل تھی۔ جب بھی کسی کے ساتھ ظلم ہوتا تو اس تنظیم کے ممبرز متحرک ہوتے اور مظلوم کا مداوا کرتے، اس حوالے سے تاریخ میں بہت سارے واقعات ہیں کہ کس طرح ان نوجوانوں نے غریب مظلوم لوگوں کی مدد کی حتی کہ ابوجہل جیسے شخص سے بھی ایک کمزور کا قرض وصول کیا۔ اس تنظیم کا نام حلف الفضول تھا اور اس کے ارکان نے مکہ مکرمہ میں ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کا حلف اٹھایا تھا۔ اور آپ ﷺ آخری وقت تک اس میں سرگرم رہے حتی کہ رسالت کے بعد بھی فرمایا کرتے کہ اگر مجھے اب بھی اس تنظیم میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی تو میں قبول کرتااور شامل نہ ہونے کے بدلے اگر مجھے سرخ اونٹ بھی ملبے تو میں قبول نہ کرتا۔ ۔۔۔۔۔

جب پہلی وحی آئی تو آپﷺ حضرت خدیجۃ الکبری کے پاس آئے۔ آپ کو ایک خوف لاحق تھا کہ میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ شاید مجھے ختم کریں۔ اسی دوران حضرت خدیجۃ رضی اللہ نے وہ کلمات ادا کئےاور آپ ﷺ کی زندگی کے گزرے لمحات کا خلاصہ بیان کیا۔ ان الفاظ سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ سماج میں آپﷺ کی شب و روز کیسے گزر رہے تھے اور لوگوں کے ساتھ برتاو کیا تھا۔ حضرت خدیجہ نے فرمایا! خوف کی کوئی ضرورت نہیں آپ جیسے لوگ کبھی بھی ضائع نہیں ہوتے کیوں کہ آپ تو اخلاق فاضلہ کے مالک ہیں، آپ تو کنبہ پرور ہیں، بے کسوں کا بوجھ اپنے سر پر رکھ لیتے ہیں، مفلسوں کے لئے آپ کماتے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بے مثال ہیں اور مشکل وقت میں آپ امر حق کا ساتھ دیتے ہیں۔ لہذا ایسے اوصاف حسنہ والا انسان یوں بے وقت ذلت و خواری کی موت نہیں پا سکتا۔ ۔۔۔۔۔

یہی وہ سنہرے الفاظ تھے جو آپ ﷺ نے عظیم ذمہ داری سنبھالنے کے بعد سنے۔ اگر ہم ان الفاظ پر غور کریں تو اس میں ہلاک اور ضائع نہ ہونے کی گارنٹی اس سماجی بھائی چارے کو گردانا گیا ہے جو ایک انسان انسانیت کے خاطر دوسرے کے ساتھ کرسکتا ہے جس سے معاشرے میں حسن آتا ہے۔ یہاں پر وہ اوقات نہیں دلائے گئے جو تنہائی میں غار حرا میں برسوں پر محیط تھے، بلکہ آپ ﷺ کی سوشل لائف کو ریمائنڈ کرایا گیا کیوں کہ ایسے کام کرنے والے ضائع نہیں ہوتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کا یہ حسن سلوک صرف اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نہیں تھا اور نہ کوئی خاص موحدین تھے جن کے ساتھ احسان کیا گیا تھا۔۔۔۔۔۔

آپ کا اسوہ مبارک ہمارے لئے ایک نمونہ ہے آج ہمیں بطور امتی اپنے رویے، کردار، برتاو، دوسروں کے ساتھ معاملہ اور سلوک پر نظرثانی کرنا چاہئے کہ آیا ہم ایسے کام کرتے ہیں کہ جس کی وجہ سے ہم یہ کہ سکیں کہ ہم کامیاب ہوں گے۔ اور آج ہمارے ماپنے کے پیمانے کون سے ہیں جس سے ہم لوگوں کو لائن میں لگا کر ان کا ایمان ماپ کر ان پر فتوے لگاتے ہیں۔ انسان کا انفرادی عمل خصوصا عبادت ،اللہ اور اس کے درمیان ایک ایسا معاملہ ہے جس کی سچائی کا گواہی کوئی نہیں دے سکتا لیکن ایسے بیشتر سماجی سرگرمیاں جس کے بہت سے لوگ گواہی دے یقینا فلاح کا ذریعہ ہے۔ یہی وجہ تھی کہ آپ ﷺ ایک صادق اور امین کی حیثیت سے معروف تھے اور کسی کی جرات نہیں ہوئی کہ اخلاقی یا سماجی اور معاشرتی طور پر محمد ﷺ کو نیچا دکھا سکے۔ بلکہ اللہ نے بھی آپ کی گزری ہوئی زندگی کو دلیل کے طور پر پیش کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔

آج دنیا میں مسلمان جس پستی کے شکار ہیں اس کے لئے ہر ایک کو الزام دے رہے ہیں سوائے اپنے آپ کے، حالانکہ ذمہ داری ساری ہماری اپنی ہے۔ ہم اپنی ناکامیوں کو دشمن کی سازش قرار دے کر بری الذمہ ہوتے ہیں، لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اگر ہمارا کوئی دشمن ہے تو اس کا کام ہی ہمارے خلاف سازش ہونا چاہئے اب سوال خود اپنے آپ سے کرنا چاہئے کہ میں نے خود اپنے آپ کو کتنا محفوظ کرلیاہے کہ کوئی چاہے بھی تو مجھے نقصان نہ پہنچا سکے۔ تو کیوں نہ ہم سازشی نظریات کو ایک طرف کرکے سیرت طیبہ کو سامنے رکھ کر خود احتسابی کر لیں اور جہاں پر ممکن ہو اپنی اصلاح بھی کرلیں۔ شاید یہ ہمارے مستقبل کو سنورنے میں مددگار ثابت ہو۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے