ہمارا مسلک ہی حق ہے (تیسری قسط)

سماجی رہنما نے مسئلے کی حساسیت اور اہمیت پر زرا کھل کر بات کرنا شروع کیا:
محترم شرکاء کرام!
اس وقت ہمارے معاشرے میں مختلف طبقات فکر رہتے ہیں۔ پاکستان مذہبی، لسانی، نسلی، علاقائی، ثقافتی، سماجی، سیاسی لحاظ سے ایک متنوع معاشرہ ہے۔ یہاں مختلف مسالک، مکاتب فکر اور مذاہب کے پیروکار بستے ہیں۔ یہاں مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے، مختلف زبان بولنے والے، مختلف ثقافتی و سماجی پس منظر سے وابستہ لوگ رہتے ہیں۔ یہاں غریب سے غریب تر اور امیر سے امیر تر طبقات کے لوگ زندگی گزارتے ہیں۔

یہاں ادب، تعلیم ، تحقیق، صحت، ملازمت ، نظامت، معیشت، زراعت، صنعت، تجارت، سیاست، صحافت، نشرو اشاعت، سیاحت ، ٹیکنالوجی، مزدوری اور افسرشاہی کے پیشوں سے تعلق رکھنے والے موجود ہیں۔

بعض پہاڑوں پر زندگی گزارتے ہیں تو بعض زرعی علاقوں میں، بعض صحرائی علاقوں میں بستے ہیں تو بعض ساحلی علاقوں میں، بعض گرم علاقوں میں تو بعض سرد علاقوں میں۔ اسی طرح دیہی علاقوں کے باشندے بھی ہیں اور شہروں کے باسی بھی۔

سندھ سے لے کر کشمیر، بلوچستان سے پنجاب تک، کراچی سے لے کر خیبر اور گوادر سے لے گلگت بلتستان تک نظر دوڑائیں تو جس طرح آب و ہوا، زمین کی زرخیزی، اجناس، فصلیں، پھل، سبزیاں، پودے، جانور اور معدنی وسائل بھی مختلف علاقوں کے مختلف ہیں اسی طرح ہر صوبے، علاقے، ضلع، برادری کے لوگ بھی مزاج، کام کاج، زبان، روایات اور ثقافتی رنگا رنگی کے اعتبار سے مختلف ہیں۔

ایک ہی ملک کے باشندے ہونے کے باوجود مختلف قومیں آباد ہیں جن کی سماجی روایات، رسوم، تاریخ اور ثقافت ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ لوگوں کے کھانے، پینے اور پہنے کی چیزوں سے لے کر آرائش و زیبائش کی چیزوں تک مختلف اور متنوع ہے۔ لوگوں کے تجربات ، رجحانات، نظریات اور مسائل و وسائل مختلف ہیں ۔ بعض لوگ مغربی ثقافت سے متاثر ہیں تو بعض عرب ثقافت سے، بعض فارس کی ثقافت سے متاثر تو بعض ہند کی ثقافت کے دلدادہ۔

پاکستان میں اس وقت مجموعی طور پر مسلمان، غیر مسلم اور سیکولر تین بڑے طبقات ہیں۔ یہاں اکثریت کے طور پر مسلمان بستے ہیں ۔مسلمانوں کے چار بڑے مکاتب فکر ہیں ؛ بریلوی، دیوبندی، اہل حدیث ، شیعہ اثنا عشری ، مودودی فکر سے وابستہ افراد عام طور پر اپنے آپ کو دیوبندی یا بریلوی کے بجائے صرف سنی حنفی مسلمان کہلاتے ہیں۔ اسی طرح شیعہ اسماعیلی، بوہری، نوربخشی، ذکری وغیرہ جیسے قلیل تعداد میں موجود مکاتب فکر بھی موجود ہیں۔ جبکہ بعض مسلمان ایسے بھی ہیں جو اپنے آپ کو صرف مسلمان کہلانا پسند کرتے ہیں۔ غیر مسلم طبقات میں مسیحی، ہندو، سکھ اور آئین پاکستان کے تحت قادیانی شامل ہیں۔ مذہبی جماعتیں پاکستان کو اسلامی ریاست کے طور پر چلانا چاہتی ہیں، جبکہ سیکولر طبقہ فکر ایسا طبقہ ہے جو ریاستی امور میں مذہب کے کردار کی نفی کرتا ہے ۔ مسلم اور غیر مسلم اور لبرل شہریوں کی مزید ذیلی درجنوں مذہبی و سماجی اور سیاسی تعبیریں اور تنظیمیں ہیں۔ یوں یہاں ہر طبقہ فکر و عمل موجود ہے۔ مقامی سطح پر فطری، مذہبی، سیاسی اور سماجی تنوع جتنا پاکستان میں ہے شاید کسی اور ملک میں اتنا تنوع نہیں ہوگا۔

انتہائی بدقسمتی سے پاکستان میں تحقیق، تصدیق اور مختلف طبقات فکر کے درمیان سماجی تعامل کے کلچر بلکل سکڑ چکا ہے۔ مختلف مکاتب فکر اور سماجی گروہوں کے مابین مل جل کر رہنے اور کام کرنے کا رجحان ختم ہو کر ہر گروہ اپنی الگ الگ چاردیواری میں محبوس ہو چکا ہے۔ جس کی وجہ سے ان طبقات کے بارے میں بہت سے سٹیریوٹائپس (Stereotypes) یا غلط العام خیالات مشہور ہیں۔ جن کے بارے میں متعلقہ طبقہ فکر کے مقتدر اہل علم دانشور حضرات سمجھتے ہیں کہ وہ یاتو سرے سے غلط ہیں یا اس کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔

محترم شرکاء! سٹیریوٹائپس سے مراد وہ خیالات ہیں جو کسی نسلی، لسانی، مذہبی گروہ کے بارے میں عوام میں مشہور ہوتے ہیں۔ یہ خیالات مثبت بھی ہو سکتے ہیں اور منفی بھی، البتہ زیادہ تر منفی ہوتے ہیں۔ ان خیالات میں کسی حد تک سچائی ہوتی ہے لیکن اس تھوڑی سی سچائی کی اتنی تعمیم (generalization) کی جاتی ہے کہ جس کے زد میں اس گروہ سے منسلک سارے لوگ آجاتے ہیں۔ ان خیالات کے اتنے سخت اثرات ہوتے ہیں کہ بسا اوقات بڑے بڑے فسادات اور تنازعات کے پیچھے ایسے ہی چند غلط خیالات پوشیدہ ہوتے ہیں جن سے متاثر افراد بغیر کسی تحقیق و جستجو کے پورے گروہ یا مکتب کو بغیر کسی جرم کے’ اجتماعی سزا کا مستحق سمجھ بیٹھتے ہیں۔
میرا احساس یہ ہے کہ تعصب، منافرت اور فرقہ وارانہ تشدد کی روک تھام اور سماجی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ضروری ہے کہ ایسے خیالات کو بھی ایک پُراعتماد اور پُرامن ماحول میں زیر بحث لائے جائیں ، تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔

ہم اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہیں۔ میرے بعد سب سے پہلے دیوبندی مکتب فکر کے بارے میں عوام میں مشہور خیالات کے بارے میں جانتے ہیں۔ اور ان کے بارے میں جوابات اور وضاحتیں انہی سے ہی جانیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے