سچی اور تلخ باتیں

اسلامی نظریاتی کونسل کے چئیرمین مولانا شیرانی اور طاہر اشرفی کا جھگڑا میڈیا کی زینت بن چکا ہے،دونوں فریق میڈیا پہ اپنا وضاحتی بیان دے چکے ہیں،طاہر اشرفی نے مولانا شیرانی پہ الزامات لگاتے ہوئے کہا مولانا شیرانی مسئلہ قادیانیت کو دوبارہ چھیڑ رہے ہیں،ایک متفقہ مسئلہ کو دوبارہ چھیڑنے کی کیا ضرورت ہے،؟مولانا شیرانی قادیانیوں کو مسلمان بنانے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں،

مولانا شیرانی نے ان الزامات کی تردید کی ہے اور کہا کہ مسئلہ ختم نبوت اتفاقی مسئلہ ہے قادیانی غیر مسلم اقلیت ہیں،مجھے اس لڑائی سے کوئی سروکار نہیں،گریبان پھاڑنے کے بجائے دانت توڑتے تب بھی میرے قلم نے جنبش کرنا نہیں تھا،میری تشویش یہ ہے کہ آج ایک عالم دوسرے عالم دین کو قادیانی ثابت کرنے کے لیے پورے گلے اور پھیپھڑوں کا زور لگا رہا ہے،

مجھے دکھ سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارے ہاں بعض چیزوں پہ عام تو کیا خاص آدمی بات بھی نہیں کر سکتا،جب کسی نے ان مسئلوں کو چھیڑنے کی کوشش کی تو اسے غداری اور کفر کے فتووں کا سامنا کرنا پڑا،اسے بُرے انجام سے گزرناپڑا،آپ اس ملک میں مسئلہ کشمیر پہ بات نہیں کر سکتے،آپ مسلح کاروائیوں کے خلاف بات کر کے تو دیکھیں آپکی زبان خاموش کردی جائے گی،

آپ سوال کر کے تو دیکھیں کہ قائد کا پاکستان دو ٹکڑے کیوں ہوا؟تو جواب ملے گا کہ کالے بنگالیوں کا ہم سے جدا ہونا ہی اچھی بات ہے ،دہلی کے لال قلعے کو فتح کرنے والے ملک کے دوٹکڑے ہونے پہ بات بھی نہیں کرتے،قائد کے پاکستان کے متعلق تو یہ بات جبکہ متنازعہ علاقے کو انا کا مسئلہ بنا دیا گیا،مسئلہ کشمیر کے وارث چند ہی لوگ ہیں،اس مسئلے کو اتنا حساس بنا دیا گیا کہ آپ جائز سوال بھی نہیں اٹھا سکتے،

آپ بھارت کیساتھ امن کی بات کر کے تو دیکھیں آپ کو کہا جائے گا کہ کشمیریوں کے خون کیساتھ غداری نہ کی جائے ہم خون کا سودا نہیں کر سکتے ہمیں آلو پیاز نہیں چاہیے جب کوئی بات کرتا ہے کہ دونوں ملکوں کو آپس کے اختلافات ختم کرنے چاہیے دونوں ملک ایک دوسرے کی ضرورت بننا چاہیے ،دونوں ملک ایک دوسرے کے ہاں انڈسٹریاں لگائیں تاکہ دونوں طرف کی معیشت ترقی کرے ایک دوسرے پہ حملہ کرنے سے پہلے دونوں ملک سو سو مرتبہ سوچیں گے جب جنگ کی بات ہو گی تو عوام میدان میں ہوگی،یہ باتیں کرنے والا غدار ٹھہرتا ہے،

یہ کوشش وزیر اعظم کرے تو کارگل کی جنگ چھڑ جاتی ہے اسے پابند سلاسل کیا جاتا ہے،اسے جلا وطنی کا تخفہ دیا جاتا ہے،اگر دوبارہ وزیر اعظم بننے کے بعد وہی گناہ کرے تو اس کے گلے میں دھرنے کی گھنٹی باندھ جاتی ہے،جہادی رہنماؤں کو منظر عام پہ لا کے دباؤ ڈالا جاتا ہے امن کی بات کرنے والا سر چھپاتا پھرتا ہے طاقت ور لوگوں نے یہ دو ہتھیار اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں،اگر کوئی انکو ہاتھ لگانے کی کوشش کرتا ہے تو ہاتھ کٹوا کے واپس آتا ہے عقلمند لوگ بجلی کی تاروں کو ہاتھ نہیں لگاتے،یہ دو مسئلے عوامی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں اور دو مسئلے خدائی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں،ایک مسئلہ ختم نبوت دوسرا مسئلہ قادیانیت،،

جب کسی کو سبق سکھانا ہو تو آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس نے توہینِ رسالت کی ہے لہٰذا یہ واجب القتل ہے عوام بھی آؤ دیکھتی ہے نہ تاؤ ،عشق رسول ؐکے جذبے سے سرشار ہو کر قتل وقتال شروع کردیتی ہے کئی جگہ یہ سانحے ہو چکے ہیں مسئلہ جب واضح ہوا تو معلوم ہوا کہ سب کچھ ذاتی دشمنی کا شاخسانہ تھا کئی غیر مسلم اس چیز کی بھینٹ چڑ چکے ہیں،دوسرا کسی کو قادیانی کہہ دینا،،

چار مولوی ایک جگہ جمع ہو کے کہہ دیں کہ فلاں بندہ قادیانی ہے تو وہ ہیرو سے زیرو بن جاتا ہے،آج ہمارے آرمی چیف سب سے زیادہ پاپولر ہیں انکے متعلق کہہ دیا جائے کہ یہ قادیانی ہیں تو آرمی چیف کو اپنے ہی مخافظوں سے خوف آنے لگے لگا،آرمی چیف بھی وضاحتوں پہ اُتر آئیں گے،اور دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں طاقتوروں کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے دونوں نے ہمیشہ ایک دوسرے کو کندھا دینے کی کوشش کی ہے،فوج جب بھی میدان میں آئی تو اسے پھولوں کے گجرے دیے گئے فوج عوام میں جڑیں نہیں رکھتی عوام تو بلڈی سویلین ہیں جبکہ مذہبی طبقہ عوام میں گہری جڑی رکھتا ہے،یہ طبقہ ثابت کرتا ہے کہ ضیاء الحق مرد مومن مرد حق ہے ضیاء الحق امیر المومنین ہے،

اگر جنرل مشرف جیسا سیکولر آجائے تو یہ طبقہ سرحد اور بلوچستان میں حصہ لیکر مشرف کو آرام سے حکومت کرنے دیتا ہے اسے اس وقت بھی کوئی تکلیف نہیں ہوتی جب سرحد سے نیٹو کے کنٹینررگزرتے ہیں جب ڈمہ ڈولا پہ حملہ ہوتا ہے جب مجاہدین کو امریکہ کے حوالے کیا جاتا ہے جب ڈرون بم گرائے جاتے ہیں جب حدود آرڈیننس میں ترمیم ہوتی ہے جب ایل اف او منظور ہوتا ہے جب لال مسجد پہ بمباری ہوتی ہے ،ان سب کاموں کے باوجود فوجی جرنیل آرام سے حکومت کرتا ہے،

پاکستان میں یہ دونوں طبقے اپنی طاقت چھوڑنے کو تیار نہیں جب بھی انکی طاقت کو چیلنج کیا جاتا ہے تو وہ غداراور کافر ٹھہرتا ہے اگر مولانا شیرانی آواز بلند کرے تو اسے منکر جہاد ایران نواز اور آخر میں قادیانی کہہ دیا جاتا ہے اور اگر سیاسی رہنما کوشش کرے تو وہ سیکورٹی رسک ٹھہرتا ہے ملک کے وزیر داخلہ پہ الزام لگتا ہے کہ اس نے سکھوں کی لسٹیں پڑوسی ملک کے حوالے کی ہیں،

اور یہ باتیں کرنے والے کس کے ٹاؤ ٹ ہوتے ہیں یہ سب کو معلوم ہے،مولانا شیرانی کو قادیانی نواز کہنے والا کس کی زبان بول رہاہے یہ بھی سب کو معلوم ہے،ضرورت اس بات کی ہے ایسی سیاسی قیادت کا میدان میں آنا انتہائی ضروری ہے جو ذات سے ہٹ کر ملک کے لیے سوچے اور ایسی مذہبی قیادت کا بھی سامنے آنا ضروری ہے جو دوسروں کے اشارۂ ابرو پہ نہ چلے ،مولانا شیرانی سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن اسے قادیانی نواز کہنا سمجھ سے بالا تر ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے