راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی، حیرت کیسی

کہتے ہیں ہر نیا سال نئی اُمیدیں لے کر آتا ہے۔ وہی سورج ہوگا جو گزرے سال کے آخری دن ڈوبا تھا، وہی لوگ ہوں گے، وہی حالات اور سوچیں ہوں گی۔ گزرے سال کے آخری دن وہی روایتی سوال خود سے اور دوسروں سے پوچھا جاتا ہے کہ یہ سال کیسا گزرا، کیا کھویا اور کیا پایا۔ بحیثیت قوم ہم نے اتنا کچھ کھویا کہ شمار کرنا مشکل ہے۔۔ جس جانب نظر جاتی ہے خاموشی ہی خاموشی دکھائی دیتی ہے۔ ہر طرف جاڑے کا سماں، جس سے بات کرو خوفزدہ دکھائی دیتا ہے۔ عوام روٹی، کپڑا اور مکان کے چکر میں در در بھٹک رہے ہیں پھر بھی زندگی رواں دواں ہے اور اُمید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔ اس بارے ضرور سوچنا ہوگا کہ یہ استحصال صرف ہمارے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔

ذاتی طور پر میرے لیئے یہ سال پچھلے چند سالوں جیسا ہی رہا ۔۔۔۔ کچھ دور دراز کے سفر ، کچھ کتابیں ، کچھ شاعری ، کچھ سوچیں ، کچھ کام ، کچھ ناکام ۔۔۔۔ سارے سال ایک جیسے ہی لگتے ہیں اور آخری دن کی دہلیز پر کھڑے کچھ سمجھ نہیں آتی کہ پیچھے کیا چھوڑا ہے آگے کیا لینا ہے ۔۔۔ آنے والے سال کو خوش آمدید مگر ہمارے دُکھوں کا علاج کہاں ہے ؟ ہر سوچنے والے ذہن اور لکھنے والے ہاتھوں کے دُکھوں کا علاج کس کے پاس ہے ؟

اگر ہمارے دُکھوں کا علاج نیند ہے تو کوئی ہم سے زیادہ گہری نیند نہیں سو سکتا اور نہ ہی اتنی آسانی اور خوبصورتی سے کوئی نیند میں چل سکتا ہے۔۔۔۔ اگر ہمارے دُکھوں کا علاج جاگنا ہے تو ہم اس قدر جاگ سکتے ہیں کہ ہر رات ہماری آنکھوں میں آرام کر سکتی ہے اور ہر دروازہ ہمارے دل میں کھل سکتا ہے ۔۔۔ اگر ہمارے دُکھوں کا علاج ہنسنا ہے تو ہم اتنا ہنس سکتے ہیں کہ پرندے ، درختوں سے اڑ جائیں اور پہاڑ ہماری ہنسی کی گونج سے بھر جائیں ہم اتنا ہنس سکتے ہیں کہ کوئی مسخرہ یا پاگل اس کا تصور تک نہیں کر سکتا۔۔۔۔۔ اگر ہمارے دُکھوں کا علاج رونا ہے تو ہمارے پاس اتنے آنسو ہیں کہ ان میں ساری دنیا کو ڈبویا جا سکتا ہے جہنم بُجھائے جا سکتے ہیں اور ساری زمین کو پانی دیا جا سکتا ہے۔۔۔ اگر ہمارے دُکھوں کا علاج جینا ہے تو ہم سے زیادہ با معنی زندگی کون گزار سکتا ہے اور کون ایسے سلیقے اور اذیت سے اس دنیا کو دیکھ سکتا ہے اگر ہمارے دکھوں کا علاج بولنا ہے تو ہم ہوا کی طرح گفتگو کر سکتے ہیں اور اپنے لفظوں کی خوشبو سے پھول کھلا سکتے ہیں ۔۔۔۔ اور اگر تم کہتے ہو ہمارے دُکھوں کا علاج کہیں نہیں ہے تو ہم چپ رہ سکتے ہیں قبروں سے بھی زیادہ چپ ۔۔۔

پھر نئے سال کی سرحد پہ کھڑے ہیں ہم لوگ
راکھ ہو جائے گا یہ سال بھی، حیرت کیسی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے