قصوروار کون۔ اشرفی یا شیرانی

برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے کہ 1870 سے قبل یہاں فرقہ واریت کا تصور نہیں تھا۔ مختلف افکار کے نمائندہ گروہ اگرچہ موجود تھے اور سنجیدہ علمی مکالمہ بھی جاری رہتا تھا مگر فرقہ وارانہ فساد کی مثال پیش کرنے سے تاریخ کی کتابیں قاصر ہیں۔ مختلف الخیال مسلمان فرقے تو کجا ہندو مسلم فسادات بھی کبھی نہیں ہوئے۔ حالانکہ مسلمان تعداد میں کم اور اقتدر پر حاوی تھے۔

1857 کی جنگ آزادی میں اگرچہ مسلمانوں کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا مگر اس زمانہ کے عالمی استعمار برطانیہ کو یہ خوف ضرور پیدا ہو گیا تھا کہ آزادی کی تحریکیں بار بار سر اٹھائیں گی چنانچہ ان کے سدباب اور حفظ ما تقدم کے طور پر یہ طے کیا گیا کہ اگر برصغیر پر حکومت کرنی ہے تو مقامی باشندوں کو لڑاؤ اور چین سے اپنا راج چلاؤ۔ برصغیر کے باسی تب سے بے تکان لڑتے چلے جا رہے ہیں۔ کبھی مذہب تو کہیں مسلک کے بینر تلے۔ آج قومیت کے نام تو کل کو ذات پات اور اوقات کی بنیاد پر۔

تقسیم برصغیر کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ یہ سلسلہ رک جاتا مگر ملک خداداد پاکستان کی جذباتی قوم نے آپسی لڑائی کے اس شغل کو ترک کرنا مناسب نہ جانا چنانچہ قریب ستر سال گزرنے کے باوجود اس قوم نے ہتھیار چھوڑے نہ ہی تیور بدلے ہیں۔

مذہب، مسلک، عقیدہ، فکر، شخصیت، پارٹی، سیاست اور رقابت کونسا میدان ہے جہاں یہ لوگ باہم دست و گریبان نہیں ہیں۔ ایسے میں اگر مولانا محمد خان شیرانی اور علامہ طاہر اشرفی بھی لڑ پڑیں تو پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں۔ البتہ ان دونوں کی یہ لڑائی گنے چنے ان چند لوگوں کے لئے ڈراؤنے خواب سے کم نہیں جو روز اول سے یہ دہائی دے رہے ہیں کہ اختلاف کو مخالفت نہ بنائیں بلکہ تمام تر اختلافی مسائل کو گفت و شنید کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن جس معاشرے میں اہل علم مل بیٹھ کر مسائل کا حل تجویز کرنے کے بجائے تند و تیز بیانات داغنے کو فرض منصبی سمجھتے ہوں وہاں مکالمے کی فضا پیدا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔

ہمارے ہاں کٹر مخالف فرقہ کے لوگ سیاسی و انتظامی اتحاد کے لئے تو شیر و شکر ہو جاتے ہیں مگر نظریاتی اختلاف دور کرنے کے واسطے ایک ٹیبل پر بیٹھنے کو راضی نہیں ہوتے۔ ایسے حالات میں اسلامی نظریاتی کونسل وہ واحد ادارہ ہے جو اپنی دسیوں کمزوریوں کے باوجود امید کی ایک کرن ہے۔

اسلامی نظریاتی کونسل ایک ایسا خود مختار ادارہ ہے جہاں ہر طبقہ فکر کے نمائندے انتہائی خوشگوار ماحول میں اختلافی مسائل کے بارے اپنی رائے پیش کرتے ہیں، دوسروں کا نقطہ نظر سنتے ہیں اور ایسے نظریے تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جو تمام فریقوں کے لئے قابل قبول ہو تاکہ اسے اسلامی قانون کا حصہ بنایا جا سکے۔اگرچہ اس ادارے کی کاوشوں سے ابھی تک خاطر خواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکے مگر اتنا بھی کیا کم ہے کہ مسلکی اعتبار سے آگ اور پانی کی حیثیت رکھنے والے اہل علم وہاں "پازیٹو اپروچ” کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

سال 2015 کے آخری اجلاس کے دوران مولانا محمد خان شیرانی اور علامہ طاہر اشرفی کے درمیان جو کچھ بھی ہوا اس کے ذمہ دار کا تعین تو وہ غیر جانبدار انسان ہی کر سکتا ہے جو اجلاس کی مکمل کارروائی میں بذات خود شریک رہا ہو مگر حالات کا بنظر غائر جائزہ لینے کے ساتھ دونوں شخصیات کے ماضی کو اگر سامنے رکھا جائے تو یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ علامہ طاہر اشرفی اس معاملے میں قصوروار ہیں۔

کیونکہ ایک تو علامہ صاحب کا نام کئی بار ایسی خبروں میں بھی سامنے آیا ہے جو ان کے مذہبی پس منظر کے ساتھ ہرگز نہیں جچتیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ علامہ صاحب کے ساتھ اگر کوئی زیادتی ہوئی بھی ہے تو اسے یوں میڈیا میں لانے کی کیا ضرورت تھی۔؟ یقینا ان کے رابطے ایسی شخصیات کے ساتھ ہیں جو فریقین کے لئے یکساں قابل احترام ہیں اگر معاملہ ان کے علم میں لایا جاتا تو علامہ صاحب کی شکایات کا ازالہ آسانی سے ہو جاتا، بدمزگی نہ ہوتی اور اسلامی نظریاتی کونسل جیسا حساس ادارہ بھی متنازع نہ بنتا۔

تیسری بات یہ ہے کہ اس ناخوشگوار واقعہ کے بعد کونسل کے اکثر ممبران مولانا شیرانی کے ہمراہ میڈیا کے سامنے آئے جو اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ وہ مولانا شیرانی کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔

چوتھی مگر نہایت اہم بات یہ ہے کہ علامہ صاحب نے وجہ نزاع یہ بتائی کہ مولانا شیرانی قادیانیت کے مسئلے کو چھیڑ کر ایک متفقہ فیصلہ کو مشکوک بنانے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں جس کا نتیجہ قادیانیت کے حق میں بھی جا سکتا ہے، دوسرے لفظوں میں علامہ صاحب نے مولانا شیرانی کو قادیانیت کا پشت پناہ ثابت کرنا چاہا ہے۔ قطع نظر اس بات سے کہ علامہ صاحب سچے ہیں یا جھوٹے، کیا انہوں نے ایک بار بھی سوچا کہ پاکستان میں قادیانیت نوازی کے الزام نے کیسے کیسے گل کھلا رکھے ہیں۔ کیا وہ بھول گئے ہیں کہ پوری پوری بستیاں نذر آتش کر دی جاتی ہیں۔؟ علامہ صاحب نہیں جانتے کہ زندہ انسانوں کو آگ کی بھٹی میں پھینک دیا جاتا ہے اور بعد میں پتہ چلتا ہے کہ بیچارے معصوم اور بیگناہ تھے۔ یقینا علامہ صاحب اس ساری صورتحال سے واقف ہیں اس کے باوجود انہوں نے جان بوجھ کر یہ حرکت کی ہے تاکہ عوامی ہمدردی مولانا شیرانی سے ہٹ کر ان کے حق میں ہو جائے۔ ع
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

رہا یہ سوال کہ مولانا محمد خان شیرانی صاحب نے یہ مسئلہ اجلاس کے ایجنڈے میں کیوں شامل کیا کہ "قادیانی کافر ہیں، مرتد یا زندیق” تو میرے خیال میں ہر وہ انسان اس کا جواب جانتا ہے جسے معلوم ہے کہ "جو لوگ آئے روز اپنے مخالفین پر قادیانی، گستاخ رسول اور گستاخ صحابہ کا فتوی لگا کر انہیں زندہ جلا دیتے ہیں” وہ معاشرے کا ناسور ہیں۔

کون نہیں جانتا کہ جب تک قادیانیوں کو کافر، زندیق یا مرتد میں سے کوئی ایک ڈیکلیئر نہیں کیا جاتا تب تک انہیں کسی شرعی حکم کے تحت سزا نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی ان کے ناجائز قتل کو روکنا ممکن ہے۔ اور یہ وہ سقم ہے جس کی وجہ سے قادیانیوں کے خلاف عوامی نفرت کو اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنے والے مجرم عدالت سے باعزت بری ہو جاتے ہیں۔

مندرجہ بالا حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے ہر شخص فیصلہ کر سکتا ہے کہ مولانا شیرانی اور علامہ اشرفی دونوں میں سے قصوروار کون ہے۔

البتہ یاد رہے کہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا آخری نبی مانتا ہوں اور قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج جانتا ہوں۔۔ ایسا نہ ہو کل ایک شخص پریس کانفرنس بلا کر مجھے بھی قادیانیت کا پشت پناہ ثابت کر رہا ہو۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے