کیا عورت ایک مکمل انسان ہے؟

عورت کے حقوق کے حوالے سے جب بھی گفتگو کی جاتی ہے تو ہم فخر سے کہتے ہیں کہ اسلام نے عورت کو جتنے حقوق دیے ہیں آج تک دنیا میں کسی مذہب یا تہذیب نے نہیں دیے۔ اسلام میں عورت کو دیے گئے حقوق اور مقام کا ذکر کرتے ہوئے در اصل ہم یہ بات نظر انداز کر دیتے ہیں کہ ہم نے معاشرتی اور سماجی سطح پر عورت کو کتنا مقام اور حقوق دیے ہیں۔ ہمارے اپنےگھروں کے اندر خواتین ان اسلامی حقوق سے محروم ہیں، اسلام کو صرف ڈھال بنا کر ہم عورتوں کے حقوق پامال کرتے ہیں۔

ہم عورت کو ایک بے وقوف، کم عقل اور فتنے وفساد کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ہم نے عورت کے بارے میں عام تاثر بگاڑ کر معاشرے کا ایک بے کار پرزہ بنا یا ہوا ہے۔ عورتوں کے ساتھ سماجی تعامل میں اپنے غلط برتاؤ پر مذہبی جواز فراہم کرنے کے لئےہم اسلامی تعلیمات کی غلط تشریح بھی کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین مذہبی احکامات اور تعلیمات پر عمل کرنے لئے بھی مردوں پر انحصار کرنے پر مجبور ہیں۔ کیوں کہ ہم نے ان کو دین کی تعلیم اور تفہیم کے جملہ حقوق و مواقع سے محروم رکھے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے عورت کی جو تصویر پیش کی ہے وہ ایک ہوشیار، مدبرہ، بہتر مشاورت کرنے والی اور معاملہ فہم ہستی کی ہے۔ لیکن ہم نے کج روی سے کام لے کر عورت کے بارے میں غلط تعبیرپیش کی ہے۔ ہماری روایات اور رسم و رواج میں عورت کے بارے میں مختلف فرسودہ خیالات اور امتیازی رویے پائے جاتے ہیں جن کو ہم مذہبی لبادہ پہنا کر عورت کے ساتھ جاہلیت کا برتاؤ جاری رکھا ہوا ہے۔

[pullquote]سماجی معاملات زندگی میں مرد کا حصہ زیادہ ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مردوں نے ہر شعبہ زندگی میں عام طور پر عورتوں کے حقوق تلف کئے ہوئے ہیں۔ ہماری کوشش رہتی ہے کہ مختلف بہانوں سے بچیوں کو تعلیم سے محروم رکھیں جو ان کا بنیادی حق ہے۔ ہم لڑکیوں کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ان کو لکھائی مت سیکھاؤ کیوں کہ خطرہ ہے کہ اس کا غلط استعمال کرتے ہوئے کہیں ہماری خاندانی عزت داؤ پر نہ لگ جائے۔ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ عورت کو یہ احساس دلایا جائے کہ وہ ناقص العقل ہے اور وہ کسی کام کی بات کر ہی نہیں سکتی ۔ اسی لیے عورت کواجتماعی معاملات سے دور رکھ کے بتایا جاتا ہے کہ عورت سے مشورہ نہ لیا کرو، اگر کہیں مجبوری میں مشورہ کر بھی لیا ہو تو اس پر عمل نہ کرو۔ ظاہری بات ہے کہ جب عورت کو معاشرے کے اجتماعی سرگرمیوں سے الگ تھلگ کر لیا گیا تو وہ کونسا سیدھا مشورہ دے پائے گی۔ اگر اسی طرح کسی بھی مرد کو جملہ سماجی معاملات سے دور رکھا جائے اور سماجی امور کے بارے میں اس سے مشورہ لیا جائے تو اس کا نتیجہ بھی بالکل اسی طرح آئے گا جس طرح معاشرتی اور سماجی طور پر معاملات سے کٹی ہوئی عورت کا مشورہ ہوتا ہے۔ [/pullquote]

تمام تر دینی تعلیمات اور انسانی ترقی یافتہ شعور کے مطابق عورت ایک مکمل انسان ہے اورقرآن کی تعلیمات کی روشنی میں اللہ تعالی اس کے ساتھ بھی مرد کی طرح ہی معاملہ کرے گا ۔ اس کے فرائض اور حقوق دونوں مستقل حیثیت رکھتے ہیں ۔ وہ اپنے اعمال کا خود ذمہ دار ہے کوئی شوہر، باپ یا بھائی اس کی طرف سے جواب دہ ہے اور نہ ہی شوہر ، باپ ، بھائی یا بیٹے کے افعال کی ذمہ داری اس پر عائد ہوتی ہے۔ لہٰذا دینی اور سماجی دونوں لحاظ سے عورت کو اپنے معاملات کے بارے میں فکر و عمل کے مواقع بھی ملنے چاہئیں۔

عورت دنیا میں انسانی نسل کے تسلسل کی امین ہے۔ ہماری اولاد کے مستقبل کی اولین معمار ہے ۔ ہماری زندگی کا جزء لاینفک ہے ۔ لہٰذا اس کے ساتھ کسی قسم کا غیر انسانی سلوک پوری انسانی زندگی پر کاری ضرب ہے۔ ہمارے امتیازی رویے خواتین کو نفسیاتی طور پر مفلوج بنا دیتے ہیں ،اگر ہم اس کو نفسیاتی طور پر اتنا کمزور بنا دیں تو وہ کس طرح ہمارے بچوں کو اچھی تربیت دے پائیں گی۔ حقیقت یہی ہے کہ ایک متوازن ، مستحکم، ترقی یافتہ اور خود مختار قوم ایک بہتر ، تعلیم یافتہ، خوددار، خود مختار اور خود اعتماد ماں کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے