ماسی

ہمارے گاوں میں ہر بزرگ خاتون پورے گاوں کی ماسی ہوتی ہیں ۔”ماسی”۔۔۔۔۔یعنی "ماں سی” ہستی۔۔۔۔۔ماں جیسی محبت،ماں جیسا خلوص اور ماں جیسی نوازشات۔۔۔۔مجھے جب جب بھی اپنے گاوں کا یہ کردار یاد آتا ہےتو بے حد حیرت ہوتی ہے اور بے انتہامسرت۔کیسا خلوص تھا؟کیسی اپنائیت تھی؟ اور کیسا ماحول تھا؟۔۔۔۔سبحان اللہ

گزشتہ ہفتے میرے گاوں کی ان ڈھیر ساری ماسیوں میں سے دو ماسیاں اللہ کو پیاری ہوگئیں۔یہ عجیب حسن اتفاق تھا کہ ایک ماسی ہمارے اسکول کی پڑوسن تھین اور ایک ماسی ہمارے گھر کی پڑوسن۔ان دونوں سے کوئی خاندانی یا خونی رشتہ نہ تھا لیکن شاید ان سے تعلق خونی اور خاندانی رشتوں سے بڑھ کر تھا۔یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ دنیا ماسی صرف ہماری ہی ماسی نہ تھیں بلکہ ہمارے ابو جی کی بھی ماسی تھیں اور ہمارے بچوں کی بھی۔۔۔یوں ہمارے گاوں کی ماسی تین تین پشتوں کی ماسی ہوتی ہیں ۔

دنیا ماسی اسکول کے پاس رہتی تھیں۔ہمارا اسکول ہمارے گھر سے اتنا دور تھا کہ آج اس مسافت کا تصور کر کے پسینہ آجاتا ہے۔حیران ہوں آج کے بچے گلی کی نکڑپر واقع اسکول میں جاتے ہوئے منہ بسورتے ہیں ،لاکھ ناز ونخرے دکھاتے ہیں اور ہم کیسے اتنی شرافت سے اتنے دور اسکول چلے جاتے تھے۔

یہ جو آج کل پلے گروپ،نرسری،جونیئر،سینئر،للی،یاسمین اور پتہ نہیں کس کس نام سے کلاسیں ہیں یہ ہمارے گاوں میں کچی اور پکی ہوتی تھیں۔ ہم کچی اور پکی والوں کو جلد چھٹی ہو جاتی تواکیلے گھر جانا بھی ممکن نہ تھااور چھٹی کے بعد اسکول میں رہنا بھی بہت مشکل کام تھا سو دنیا ماسی کا گھر ہمارا ٹھکانہ ہوتاتھا۔آج جیسے بچے اسکول سے واپسی پربانہیں پھیلا کر اپنی ماوں کے گلے لگتے ہیں ہم اس طرح تھکے ہارے دنیا ماسی کے پاس آتے اور وہ جس طرح ہمارا خیر مقدم کرتیں وہ منظر کبھی بھی نہیں بھول پائے گا۔

دنیا ماسی کے خاوند کو سب "ککااُر”کہتے تھے۔مجھے آج بھی پوری کوشش کے باوجود ان کا نام یاد نہیں آرہا اور شاید گاوں کے آدھے لوگ ان کے نام سے ناواقف ہوں گے لیکن ان کا نوارانی چہرہ،ان کی وجیہ شخصیت اور ان کا دلآویز اندازکوئی بھی نہیں بھلا پائے گا۔ ان دونوں بزرگوں کی برکات اور ان کا خلوص ان کے رویے،ان کے لہجے، ان کے اندازالغرض ہر چیز سے جھلکتا تھا بلکہ ان کے گھر کے صحن اور گردو پیش میں بھی اس کے اثرات دیکھے جا سکتے تھے۔ان کے گھر کے ارد گرد لگے سیب کے درختوں کی ڈالیاں سیبوں سے لدی ہوتی تھیں،ان کے کھیت آلووں سے بھرے ہوتے تھے،ایک موسم میں کدواور کھیروں( جن کو ہماری زبان میں تریڑیاں کہا جاتا تھا)سے کھیت اٹے پڑے ہوتے تھے اور یہ سب ان لوگوں کی برکات اور ان کی محنت کا ثمر تھا۔

دنیا ماسی کے خاندان کے جو بچے ہمارے کلاس فیلوز تھےان میں بھی اسی اخلاق اور حسن تربیت کی جھلک تھی۔۔۔وہی خلوص،وہی ایثار ،وہی محبت اور وہی بے تکلفی۔۔۔۔بہت یادگار دور تھا۔۔۔
اور ریشو ماسی ہمارے گھر کےقریب رہتی تھیں پانی لینے چشمے پر جاتے تو ریشو ماسی کا گھر سامنے ہوتا ،گائے بکریاں چرانے جاتے تو ریشو ماسی سے سامنا ہوتا۔کھانے کے وقت اپنے گھر واپس آنے کا رواج تھا اور نہ ہی ٹفن اور لنچ بکس کا کلچر۔۔۔ پیاس لگتی تو چشمے پر اور بھوک لگتی تو ریشو ماسی کے گھر۔ان کی باتیں بہت اچھی لگتی تھیں۔ان کے گھرکے سامنے جاپانی پھل(رتے املوک) کثرت سے لگتے اور ہم ہاٹ پاٹ(پروٹے) بھربھرکراپنے گھر لے جاتے۔ریشو ماسی ہمیشہ اپنی ماں سی لگیں۔۔۔۔سچی مچی۔۔

اسلام آبادآجانے کے بعد جب جب گاوں جانا ہوتا ابو جی تاکید فرماتے اسکول کے اساتذہ سے مل کرآنااورگاوں کے فلاں فلاں گھرجانا ،فلاں فلاں بزرگ سے دعا لینا،فلاں سے ضرور ملنااوران فلاں میں دنیا ماسی اور ریشو ماسی ضرور ہوتیں واپسی پر ابو پھر تاکید سے پوچھتے "بشکاری نکر” گئے تھے؟”خیماں ماسی” سے مل کر آئے؟”تکلسی” اور "کالے منڈے” سے ہو کرآئے؟ "کسیاں” گئے تھے ؟ دنیا ماسی اور "ککے اُراں” سے ملے؟اور یوں ہمارے ابا جی نے یہ کردار کبھی ہمارے دل ودماغ سے محو نہ ہونے دئیے۔

اب گاوں جانے کی نہ ہمت ہے نہ فرصت لیکن بچپن کے سارے دوست،ساری محسن ،گاوں کے سارے چاچے اورساری ماسیاں سدا دعاوں میں یاد رہتی ہیں۔کسی کی خوشی کا سن کر دل باغ باغ ہو جاتا ہے اور کسی کے دکھ پر دل بجھ سا جاتا ہے۔

ہمارے گھر اوراسکول کے پڑوس میں بسنے والی یہ دونوں ماسیاں حسن اتفاق سے آگے پیچھےآخرت کے سفر پر روانہ ہوئیں انہوں نے ہماری بہت سی یادیں تازہ کردیں۔مسجد میں نمازیوں اور طلبہ سے اپنی ان ماسیوں کے لیےدعا کروانے کے لیے جب ان سے اپنے رشتے کا تذکرہ کیا تو عجیب خوشگوارسا احساس ہوا۔ایسے دور میں جب خونی رشتے بھی رشتے نہیں سمجھے جاتے ہمارے گاوں میں خلوص ومحبت اور بے لوث جذبوں کی بنیاد پر بننے والے یہ رشتے کتنے عجیب اور کس قدر عظیم ہیں۔

میرے پاس اپنے گاوں میں بسنے والی ماسیوں،چاچوں اور بہن بھائیوں کو دینے کے لیے شاید اور کچھ نہ ہو لیکن دعائیں اور نیک تمنائیں ہیں اور اپنے والدین اور اساتذہ کرام کی تربیت کی برکت سے دعاوں میں کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ ہم بھی سب کی دعاوں کے محتاج ہیں کیونکہ دعائیں سب سے بڑا تحفہ ہے جو یہاں بھی کام آتا ہے اورمرنے کے بعد بھی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے