چھوٹا منہ، بڑی بات!

اگر قاضی صاحب کی ایک اہم خوبی کے بارے میں مجھ سے پوچھا جائے تو میرا جواب یہ ہوگا کہ قاضی حسین احمد نے بہت جونیئر لوگوں کو بہت بڑے مقام تک پہنچادیا۔ وہ کسی بھی نئے شخص سے کام لینے کا ہنر بہ کمال جانتے تھے۔ کتنے ہی چہرے اس وقت میری آنکھوں کے سامنے ہیں۔ جنہیں قاضی صاحب لائے اور پھر وہ اپنے اپنے شعبوں میں چھاتے چلے گئے۔

میرے خیال میں اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہ ”رِسک“ لینا جانتے تھے۔ انسانوں پر ”سرمایہ کاری“ کرتے ہوئے انسان کئی بار چوٹ بھی کھا جاتا ہے اور وہ کئی بار ڈسا بھی جاتا ہے، مگر قاضی صاحب کا کمال یہ تھا کہ وہ انسانوں پر ”سرمایہ کاری“ کرتے ہوئے ”رِسک“ لینے سے کبھی نہیں ہچکچائے۔

میں دعویٰ تو نہیں کرسکتا کہ میری بات مکمل درست ہوگی، مگر میرا خیال ہے کہ وہ بعض اوقات اتنے جونیئر اور اس قدر نئے فرد کا انتخاب اتنے بڑے کام کے لیے کرلیتے تھے کہ اس وقت ان کے اردگرد کے افراد اور بعدازاں ایسے غیرمعمولی فیصلے کی اطلاع پانے والے بھی حیرت کا پہاڑ بن جاتے ہوں گے۔

مگر قاضی صاحب کے منتخب کردہ یہ ”جونیئر“ اور بظاہر ”کچھ نہ کرپانے والے“ افراد بہترین کارکردگی دکھاکر ان کے نظر انتخاب پر مہرتصدیق ثبت کردیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا مودودی کے بعد ان کے دور میں جس قدر نئے افراد سامنے آئے، اس سے پہلے ایسا ہوا نہ اگلے سالوں میں ایسا ممکن ہوسکا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے