نواز شریف کے وفادارمگرسخت گیروفاقی وزیرکی دلچسپ کہانی

ایماندار ، سخت گیر اور پارٹی کے وفادار چوہدری نثار علی خان کی زندگی کے راز

[pullquote] سال دو ہزار تیرہ مئی میں انتخابات جیتنے کے کچھ دن بعد نامزد وزیراعظم نوازشریف نے اپنی جماعت کے ایک سینئر سیاستدان کو پیغام بھجوایا کہ وہ انہیں وزارت خارجہ کا قلمدان دینے کے خواہشمند ہیں۔ٴمیں اس وزارت کا خواہشمند نہیں کیونکہ میرے بھارت کے بارے میں خیالات وزیراعظم کے خیالات سے ہم آہنگ نہیں،ٴ یہ کہتے ہوئے مذکورہ سیاستدان نے وزارت خارجہ کی یہ پیشکش مسترد کردی تاہم وہ وزارت داخلہ کے قلمدان میں ضرور دلچسپی کا اظہار کیا۔اپنی جماعت کے سربراہ اور نامزد وزیراعظم سے اقتدار کے ایوانوں میں ایسی گستاخی کرنے والا شخس چوہدری نثار علی خان تھا جسے بعد میں وزارت داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا۔[/pullquote]

سال دوہزار چودہ میں دھرنوں اور اسٹبلشمنٹ کے بحران سے نکلنے کے بعد موجودہ حکومت سندھ کے ساتھ رینجرز کے اختیارات کے اطلاق کے حوالے سے ایک تنازعے میں پھنس گئی ہے ۔ اس سب کے مرکزی کردار چوہدری نثار علی خان ہیں جن پر مختلف اطراف سے بیانات اور تنقید کی بارش کی جارہی ہے کیونکہ لوگ اصل چوہدری نثار علی خان کو جانتے ہی نہیں۔ جنکی شخصیت تہہ در تہہ رازوں اور اپنے کام کے حوالے سے جذباتیت کی حد تک وابستگی میں چھپی ہوئی ہے۔

چوہدری نثار علی خان کے ساتھ رسمی ملاقاتوں اورمتعدد دیگر حکومتی ، غیر حکومتی ، سیاسی ، فوجی اور خاندانی شخصیات سے انٹرویوز کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ نثار علی خان مالی امور میں دیانتدار ، زبانی طور پر اکھڑ اور سیاسی طور پر انفرادی موقف رکھنے والے ایسے سیاستدان ہیں جو اپنے طرز سیاست کی بنا پر طاقت کے سول و ملٹری مراکز میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ منتخب حکومت کے ساتھ فوجی قیادت کے کسی بھی بحران و عدم بحران کی صورت ایک ایسے پل کا کردار ادا کرتے ہیں جو اطراف کی بجائے خود اپنے وزن پر کھڑا ہے ۔

[pullquote] چوہدری نثار علی خان ، میاں نواز شریف کے سابق دو ادوار حکومت میں وزیر پیٹرولیم رہے اب وہ داخلہ امور کے وزیر ہیں ۔ یہ قلمدان حاصل کرنے میں انہیں مبینہ طورپر سا بق چیف آف آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے مشورہ دیا تھا جو سمجھتے تھے کہ موجودہ حالات میں وزیراعظم کے بعد اگر حکومت میں کوئی موثر وزیر ہوتا ہے وہ وزیر دفاع نہیں بلکہ داخلہ ہی ہوتا ہے ۔
[/pullquote]

چوہدری نثار علی خان سے اس نمائندے نے ایک روز غیر رسمی گفتگو کے دوران یہ سوال کیا تھا کہ کیا انہیں یہ عہدہ لینے کے بارے جنرل کیانی نے مشورہ دیا تھا تو انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا۔ چوہدری نثار علی خان کے جنرل کیانی سے قریبی تعلقات رہے ہیں ۔ یہ چوہدری نثار ہی تھے جنہوں نے نوازشریف کی جلاوطنی کے دوران فوجی قیادت کو نوازشریف کے حق میں قائل کیا ۔ یہی وجہ بنی کہ نوازشریف پرویز مشرف کے دور میں سال دوہزار ایک میں اپنی مرضی سے جیل سے جلاوطن ہوئے تو انہوں نے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کے دور میں ہی جب دس ستمبر دو ہزار سات کو وطن وآپس انے کی کوشش کی تو انہیں وآپس سعودی عرب بھیج دیا گیا مگر نئے آرمی چیف جنرل کیانی کے عہدہ سنبھالتے ہی اسی نوازشریف کو دو ماہ بعد وطن وآپس آنے پر استقبال کیا گیا ۔یہ سب ایسے ہی نہیں ہوا دراصل چوہدری نثار علی خان کی پس چلمن فوجی حکام سے ملاقاتوں کے بعد ہی ممکن ہوا۔

پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں جب اس وقت کی منتخب حکومت اور فوج کے درمیان نشیب و فراز آئے تو چوہدری نثار نے ہی شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتوں کا اہتمام کیا جو بعد میں اتنی خفیہ نہ رہیں ۔ اسی دورانیے میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل کیانی نے ایک موقعہ پر براہ راست میاں نوازشریف سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی اور ایک پیغامبر کے زریعے پیغام بھی بھجوایا مگر نوازشریف نےملاقات سے انکار کردیا اور کہا کہ وہ صرف ایک ہی صورت میں ان سے ملاقات کرسکتے ہیں اگر وہ اپنے وزیراعظم سے تحریری اجازت نامہ لے آئیں۔ چوہدری نثار علی خان جنرل کیانی کی رئٹائرمنٹ کے بعد بھی انہیں نہ بھولے اور دو مرتبہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے ہمراہ کیانی کے گھر گئے اور انہیں قومی سلامتی کے مشیر سمیت اہم عہدوں کی پیشکش کی مگر کیانی نہ مانے۔

[pullquote]دراصل چوہدری نثار علی خان کی فوج سے قربت کی وجہ ان کے والد اور دادا کی پیشہ سپہ گری سے وابستگی ہے ۔ راولپنڈی کے نواحی علاقے چکری سے تعلق رکھنے والے چوہدری نثار علی کے دادا چوہدری سلطان برٹش فوج کی طرف سے ہٹلر کے خلاف لڑنے گئے اور راستے میں عراق میں تکریت (وہی علاقہ جہاں سے صدام حسین پکڑے گئے تھے ) کے مقام پر جاں بحق ہوئے اور انکا جسد خاکی وآپس نہ آیا ۔ [/pullquote]

چودھری نثار کے دادا کے دو بیٹے تھے چوہدری تاج محمد خان اور چوہدری فتح خان (نثار کے والد) ۔ تاج محمد خان چکری میں ڈیرہ سنبھالتے اور سیاسی جوڑ توڑ بھی جبکہ فتح خان فوج میں بریگیڈئیر کے عہدے تک گئے اور ریٹائر ہوگئے۔ وہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل فوج میں کمیشن لے کر آئے تھے ۔ بریگیڈئیر فتح کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایوب خان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتے تھے اسی لیے وہ ایوب کے دور میں ریٹائرمنٹ کے بعد سیاست میں آئے اور صوبائی اسمبلی کے رکن بھی منتخب کیے گئے۔ یعنی ایک بھائی ڈیرہ داری کی سیاست میں تو دوسرا فوج کے راستے سیاست میں ، گھر میں سول ملٹری کا یہ امتزاج ہی چوہدری نثار کی شخصیت کا ایک ایسا حصہ بنا جو آج تک انکے ساتھ چلا آرہا ہے ۔ سیاست کی ابتدا میں وہ اپنے چچا سے متاثر تھے اور فوج میں اپنے والد سے۔ خود والد کے ساتھ کنٹونمنٹ کے ماحول کا حصہ اور چچا کے باعث سیاسی جوڑ توڑ اور دھڑے بازی سے بھی آشنا۔

والد اور چچا کی طرح چوہدری نثار کی زندگی بھی ایسی ہی رہی ۔ نثار علی خان کا ایک بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ بھائی افتخار علی خان لیفٹنینٹ جنرل کے عہدے تک گئے اور رئٹائر ہوئے اور بعد میں بائیس اگست دوہزار نو کو وفات پاگئے ۔ والد کی طرح بھائی بھی چوہدری نثار کی کامیابیوں کی ہموار راہ کی ایک بڑی وجہ تھے۔ دراصل چوہدری نثار علی خان کی شخصیت میں فوجی انداز انکے مرحوم والد اور مرحوم بھائی کا ہی ورثہ ہیں۔

[pullquote]نثارعلی خان کی شخصیت میں سترکی د ہائی اور اسی کے اوائل میں ایچیسن کالج کی تعلیم بھی ایک اہم حصہ ہے جہاں نہ صرف وہ عمران خان ، پرویز خٹک ، ایاز صادق اور اسی قبیل کے دیگر سیاستدانوں سے آشنا ہوئے بلکہ فوج اور بیوروکریسی کی اہم شخصیات کے ہم عصر بھی رہے ۔ ایف سی کالج کے اس وقت کے طلبہ جانتے ہیں کہ نثار ہاکی کے کھلاڑی اور کپتان کے ساتھ ساتھ کرکٹ اور فٹبال ٹیموں کا حصہ بھی رہے۔ [/pullquote]

نثار کے والد بریگیڈئیر فتح نے بیٹے چوہدری نثار علی خان کو سیاست میں متعارف کروایا ۔ چکری میں چوہدری نثار کے والد سے یہ بات بھی منسوب کی جاتی ہے کہ مرحوم کہتے تھے کہ انہیں جس بیٹے کو سیاست میں بھیجنا تھا اسے فوج میں بھیجا اور جسے فوج میں بھیجنا تھا وہ اسے سیاست میں لے آئے۔ تاہم چوہدری نثار علی خان سیاست میں کامیاب ہوا اوراپنے چکری گروپ کی وجہ سے انیس و پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات میں جنرل ضیا الحق کی مجلس شوریٰ کا رکن بن گیا اور جنرل ضیا کی نظر میں بھی آگیا ۔

یہ وہی زمانہ تھا جب نوازشریف پنجاب میں عروج حاصل کررہے تھے دونوں کی ملاقات ہوئی ۔ نوازشریف کو پنڈی میں جی ایچ کیوکی سوچ سے آشنا ایک قابل اعتماد دست راست کی ضرورت تھی اور نثا ر کو نوازشریف کے ساتھ کی۔ نثار علی خان کےایک قریبی زریعے نے بتایا کہ ، ابتدائی دنوں میں شہباز شریف نثار علی خان کے دوست نہیں تھے بلکہ نثار علی خان نے انکی نوازشریف کےپہلے دور حکومت میں حکومتی امور میں مداخلت پر تنقید بھی کی۔ ابتدا میں دونوں ایک معمولی تلخی کے بعد ایک دوسرے کے ایسے دوست بنے کہ ساتھ ابتک برقرار ہے ۔

1

بعض لوگ کہتے ہیں کہ نوازشریف اور چوہدری نثار کے درمیان تعلقات فطری طور پر اتنے گہرے نہیں کیونکہ نوازشریف کا ستارہ جدی اور نثار علی خان کا جوزا ہےجو فطری طور پر ایک دوسرے کےحامی نہیں جبکہ نثار علی خان ثور اورسنبلہ کے فطری طور پر گہرے دوست ہیں۔ شائد اسی لیے نثار ، شہباز کے زیادہ قریب ہیں کیونکہ وہ سنبلہ ہیں۔ نثار اور شہباز کی قربت صرف سیاسی میدان میں ہی نہیں بلکہ رومانوی میدان میں بھی رہی ہے۔

[pullquote]نثار علی خان کو پارٹی کے اندر بھی شدید چیلنجز کا سامنا ہے کیونکہ انہوں نے بطور وزیرداخلہ اسلحہ لائسنسز کے اجرا پر پابندی عائد کررکھی ہے اور حکومتی اراکین اسکے کھولنے کے حامی ہیں۔ نثار اپنی وزارت کے بنائے ہوئے اصولوں پر وزیراعظم نوازشریف کے قریبی عزیزوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ۔ حال ہی میں وزیراعظم کے داماد نے پارلیمینٹ ہاوس کی گیلری میں وزیرداخلہ سے متعدد ارکان کے سامنے درخواست کی کہ وہ قتل کے سزا یافتہ ایک مجرم کی پھانسی میں کچھ تاخیر کردیں تاکہ اسے اہل خانہ مقتولین کے اہل خانہ کورقم کی ادائیگی کےلیے رقم کا بندوبست کرسکیں۔ ملک بھر کی جیلوں میں پھانسی پانے والے قیدیوں کی پھانسی کے حتمی احکامات وزارت داخلہ ہی جاری کرتی ہے۔ وزیرداخلہ نے مسکراتے ہوئے اس درخواست کو رد کردیااورکہا کہ وہ مقتول کے لواحقین کے ساتھ معاملات طے کرلیں تو ہی دروازے کھلیں گے ۔ [/pullquote]

وزیرداخلہ کا یہی رویہ وزیراعظم کے بعض قریبی عزیزوں اور شائد ان کے اہل خانہ کو بھی اچھا نہیں لگتا ۔ نثار کو پارٹی کے اندر شدید تنہائی کا سامنا بھی ہے حال ہی میں انکے بہنوئی ۔۔۔ کو سینٹ کے لیے ٹکٹ نہ ملا مگر ان کے شدید مخالف راولپنڈی کے چوہدری تنویر کو گھر سے بلا کر ٹکٹ دے دیا گیا ۔ دراصل واقفان حال کہتے ہیں کہ یہ ٹکٹ بیگم کلثوم نواز کی براہ راست مداخلت پر دیا گیا ۔ کلثوم نواز ، نثار علی خان کو پسند نہیں کرتیں اور دونوں کے درمیان دوری بارہ اکتوبر انیس سو ننانوے کے واقعات کےبعد کی ہے۔ دراصل انیس سواٹھانوے میں جنرل جہانگیر کرامت کی برطرفی کے بعد یہ چوہدری نثارعلی خان اور ان کے بھائی اس وقت کے سیکرٹری دفاع لیفٹینیٹ جنرل افتخار علی خان ہی تھے جنہوں نے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے لیے سینئر ترین جرنیل علی قلی خان کو نظرانداز کرکے جنرل پرویز مشرف کو آرمی چیف تعینات کرنے کی راہ ہموار کی تھی ۔ نثار علی اور پرویز مشرف کے درمیان سالوں پر محیط دوستی تھی۔ اقتدارکے ایوانوں میں طاقت کے کھیل کی بے رحمی دیکھیے کہ اس وقت فوج میں سب سے سینئر جرنیل لیفٹینٹ جنرل علی قلی خان تھے جن کے والد جنرل حبیب اللہ نثارعلی خان کے والد کے قریبی دوست تھے ۔ مگر دیگر بہت سی وجوہات کی بنا پر انہیں آرمی چیف کے عہدے کے لیے نظر انداز کرکے نثار علی خان کے سالوں پرانے دوست جنرل پرویز مشرف کو اس وقت کے وزیر اعظم نوازشریف نے آرمی چیف تعینات کیا۔

لیفٹینیںٹ جنرل رئٹائرڈ علی قلی خان نے اس نمائندے کو بتایا کہ انہیں آرمی چیف نہ بنائے جانے کی شاید ایک وجہ یہ تھی کہ شہباز شریف اور چوہدری نثار علی خان اس وقت کے آرمی چیف جنرل جہانگیرکرامت سے ملے تھے ، دونوں نثار کے بھائی چوہدری افتخار علی خان کو ایک سال کی توسیع دینے کے خواہشمند تھے تاکہ بعد میں وہ سینیارٹی فہرست میں آکر آرمی چیف بنیں مگر جہانگیر کرامت نے ایسا کرنے سے انکا ر کردیا شائد وہ اسکا زمہ دار بھی مجھے سمجھتے تھے۔

علی قلی کی جگہ مشرف آرمی چیف بنے اوردوسرے سال ہی نوازشریف کو چلتا کیا اوراپنے جرنیلوں کے ہمراہ اقتدار پر قابض ہوئے تاہم انہوں نے پرانی دوستی کے پیش نظر نثار علی خان کو گھر پر بند کیا تاہم نثار نےمشرف کی پرانی دوستی کو شریف برادران کے ساتھ اپنی سیاسی رفاقت پر قربان کردیا۔

اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل محمود کی طرف سے ٴنثار علی خان کو رائے ونڈ میں گیس کا غیرقانونی کنکشن دینے کی فائل پر پرانی تاریخوں میں دستخط کرنے کا کہا گیا تھا مگر نثار نے ایسا کرنے سے انکار کردیا تھا ، س واقعے سے براہ راست جڑے ایک رئٹائرڈ جنرل نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس نمائندےکو بتایا۔

اس رئٹائرڈ جنرل نے مزید بتایا کہ نثارعلی خان حراست کے دوران نوازشریف سے مختلف امور پر اختلاف رکھتے تھے مگر انہیں دھوکہ دینے کے لیے ہرگز تیار نہ تھے۔ قید کے دوران مشرف چوہدری نثار سے براہ راست ملنے کے لیے مرحوم جنرل احتشام ضمیر کو بھی استعمال کرتے رہے مگر نثار علی خان مشرف سےنہ ملے ۔ ، رہائی کے بعد جب پارٹی کی طرف سے سرد مہری کا مظاہرہ کیا تو مشرف نے بھی انہیں اسمبلی کا سپیکر اور مسلم لیگ (ق) کا سربراہ بنانے کا پیغام دے بھیجا ،

[pullquote]نثار علی خان کے ایک سابق رازدان نے اس نمائندے کو بتایا کہ سب سے مشورے کے بعد نثار علی خان نے ایک بارپھر نوازشریف کو دھوکہ نہ دینے کا فیصلہ کیا۔ لہذا مشرف کے پیغامبر کو سفید کے جواب میں سرخ جھنڈی دکھا دی گئی ۔ نثار علی خان فطری طور پر انتہائی خفیہ ہیں ، ان کا ٹیلی فون نمبر بھی کا بینہ میں موجود کسی وزیر کے پاس نہیں ہے اور وہ ایاز صادق سپیکر قومی اسمبلی کے علاوہ پارٹی کی کسی دوسری شخصیت سے ان کے دفتر میں نہیں جاتے دیکھے گئے ۔ ان کے فیض آباد والے گھر پر آنے والے افراد کی تعداد انتہائی مختصر ہے ۔ [/pullquote]

ایک زریعے نے بتایا کہ نثار علی خان کےفیض آباد والے گھر کی خریداری بھی کسی قصے سے کم نہیں۔ دراصل نثار کے سسرالی جو ایک معروف اشاعتی ادارے کے مالک ہیں اس گھر کے اصل مالک تھے اور انہوں نے اپنی وجوہات کی بنا پر یہ گھر فروخت کرنے کا فیصلہ کیا تو نثار نے ایک تیسرے فرد کے زریعے گھر خرید لیا، رقم کی ادائیگی کے بعد جب کاغذات میں نام کے اندراج کا وقت آیا تو اس وقت نثار کے سسرال کو پتہ چلا کہ دراصل یہ گھر ان سے نثار علی خان نے خریدا ہے ۔

گھر میں ہوں یا دفتر میں نثار کسی غیر متعلقہ شخص سے وقت دئیے بغیر ملنے سے گریزاں ہوتے ہیں اورملاقات کےدوران اگر کوئی ایسا شخص سامنے آجائے جسے وہ نہیں جانتے وہ اس کے سامنے بات کرنے سے گریزاں ہوجاتے ہیں۔

[pullquote]مشاہد حسین سابق وفاقی وزیراطلاعات نے اس نمائندے کو ایک حالیہ ملاقات میں بتایا کہ چودھری نثار اپنے آزاد دماغ کے مطابق بات کرتے ہیں ، وہ کابینہ کے واحد وزیر ہیں جو اصول پر وزیراعظم سے بھی اختلاف کرجاتے ہیں۔[/pullquote]

مشاہد حسین سے پوچھا گیا کہ نثار ہمیشہ فوج اورفوجی اداروں کے حق میں ہی کیوں بولتے ہیں تو مشاہد حسین نے بتایا کہ دراصل ایسا کرنے کے لیے کوئی انہیں کہتا نہیں وہ ایسا خود کرتے ہیں کیونکہ وہ خود والد کی وجہ سے کنٹونمنٹ کا حصہ رہےہیں اس لیے وہ ان کی نمائندگی کرتے ہیں تاہم اپنی پارٹی وابستگی سے دستبردار نہیں ہوتے ۔ مشاہد نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انیس سو بانوے میں کراچی میں جنرل آصف نواز نے فوجی آپریشن کیا تو نثار علی نے کابینہ میں ببانگ دھل اصولی طور پر اسکی مخالفت کی تھی ۔ یہ اصول تھا یا انکا سخت رویہ کہ سال دوہزارآٹھ میں انکے اپنے چچازاد (چوہدری تاج محمد خان کے صاحبزادوں ) بھائیوں سے علیحدگی ہوگئی ۔

3

[pullquote] چوہدری نثار کے کزن چوہدری وقار نے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ نثار علی خان فطرت میں ڈکٹیٹر ہیں اور انکا یہی رویہ ہماری ان سے سیاسی علیحدگی کا سبب بنا تاہم یہ بات واضح ر ہے کہ وہ انتہائی ایماندار اور صوم و صلوہ کی سختی سے پابندی کرنے والے شخص ہیں۔ [/pullquote]

نثار علی خان کے سیاسی مخالفین ان پر انتظامیہ کو استعمال کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔ نثار علی خان کے آبائی علاقے چکری سے تعلق رکھنے والے پیپلزپارٹی کے رہنما چوہدری کامران نے اس نمائندے کو بتایا کہ وزیرداخلہ اپنے مخالفین کے لیے انتظامیہ ، پولیس اور پٹواریوں کو استعمال کرتے ہیں۔

چوہدری نثار چکری میں رہتے ہیں مگر وہ وہاں سے رکن اسمبلی نہیں بنتے بلکہ ہر بار این اے چون کلر سیداں کے حلقے سے ہمیشہ جیتتے ہیں۔ آجکے دور میں بھی چوہدری نثار علی خان اپنے ووٹروں کے خطوں کا جواب دیتے اور اس پر احکامات جاری کرتے ہیں ۔ قریبی ساتھی بتاتے ہیں کہ واک انکا معمول ہے جو کبھی کبھار چھوٹ بھی جاتا ہے تاہم اخبار پڑھنا ایک ایسا مشغلہ ہے جسے وہ کبھی نہیں بھولتے ۔

نثار علی خان ہرکسی کو دستیاب بھی نہیں ہوتے اور انکا موبائل نمبر بھی کابینہ کے شائد ہی کسی رکن کے پاس ہو۔ نثار علی خان کا ایک بیٹا اور چار بیٹیاں ہیں ، اہلیہ ایک سکو ل میں کچھ ہی عرصہ قبل تک پڑھاتی بھی رہی ہیں ، شاید وہ موجودہ کابینہ کے واحد وفاقی وزیر ہونگے جنکی اہلیہ کسی سکول کی ٹیچر ہیں۔

نثار علی خان کا سیاسی مستقبل انکے نو جوان اکلوتے بیٹے تیمورعلی خان سے وابستہ ہے جس کا رشتہ کچھ ہی عرصہ قبل میاں نوازشریف کے قریبی جانے جانے والے ایک وفاقی وزیر کے گھر طے پایا ہے ۔


[pullquote]اعزاز سید جیو نیوز اسلام آباد کے ایک کہنہ مشق صحافی ہیں ۔[/pullquote] انہوں نے پاکستان میں سیکورٹی امور پر اہم کام کیا ہے ۔ ان کی کئی خبریں ملکی میڈیا میں زیر بحث رہیں ۔ حال میں ہی ان کی اسامہ بن لادن سے متعلق کتاب شائع پوئی "”The Secrets of Pakistan’s War on AL-QAEDA جسے ملک اور بیرون ملک تحقیقاتی صحافت میں ایک اہم قدم کے طور پر دیکھا گیا ۔
اعزاز سید کو ٹویٹر ہینڈلر

@azazsyed

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے