” مینگو پیپلز”

زندگی میں پہلی بار قلم اٹھا رہا ہوں کیونکہ پچھلے دنوں ایک ایسے شخص سے ملاقات ہوئی جنہیں عمومی طور پر ”mango people” یعنی عام آدمی کہا جاتا ہے لیکن اس کی باتیں عام نہیں تھی اور اس کی باتوں نے مجھے مجبور کیا کہ اس دور باطل میں جہاں اس پاک سرزمین پر ہر جگہ مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں وہاں کچھ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک امید کی کرن کے مانند ہیں، ان میں سے ایک انسان کی آواز اپنی تحریر کے ذریعے آپ لوگوں تک پہنچاؤ۔

میرے ایک عزیز کی ہمشیرہ ہسپتال داخل تھی انہوں نے ان کی خبر دریافت کرنے جانا تھا تو مجھے ساتھ آنے کے لئے کہا، میں ساتھ چل پڑا لیکن میں ہسپتال کے اندر ان کے ساتھ نہ گیا بلکہ انہیں کہا کہ وہ جا کے ہمشیرہ کی طبیعت دریافت کریں میں باہر انتظار کرتا ہوں۔ان کے جانے کے بعد میرا چائے پینے کا دل چاہا اور میں سامنے ایک چائے کے ٹھیلے پرجا کر کرسی پر بیٹھ گیا ، ایک چائے آرڈر کی اور جیب سے سگریٹ نکال کر لائٹر ڈھونڈ نے لگا ۔

لائٹر ڈھونڈنے کے لئے جیب ٹٹولنے لگا تویاد آیا کہ لائٹر میں گھر بھول آیا تھا۔پاس ہی بیٹھے ایک شخص نے جب یہ حالات دیکھے تو اس نے جیب سے ماچس نکال کر مجھے پیش کر دی۔میں نے اس کا شکریہ اداکرتے ہوئے ماچس پکڑی اور سگریٹ سلگایااتنی دیر میں چائے بھی میری ٹیبل پر آگئی تھی۔ ماچس واپس کرتے ہوئے میں نے جب غور سے اسے دیکھا تو اس کے چہرے پر جھریاں سی تھی، بال مٹی میں اٹے ہوئے تھے،پرانی سی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور چہرے پر ایک پرسکون سی مسکراہٹ تھی۔

مجھے اس کی شخصیت میں کچھ دلچسپی پیدا ہوئی تو میں نے اس کا نام دریافت کیا جس پر اس نے اپنا نام جمال بتایا۔مزید دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ اس کا تعلق ضلع وہاڑی سے تھا اور وہ لاہور میں دھاڑی پر دروازوں کا کام کرتا تھا۔گفتگو کے دوران میں نے جیب سے سگریٹ نکالا اور اسے پیش کیا لیکن اس نے پینے سے انکار کر دیا۔میں نے پوچھا کہ بھائی سگریٹ نہیں پیتے تو اس نے کہا کہ صاحب جی پیتا ہوں پرآپ کا سگریٹ مہنگا ہے میں یہ نہیں پی سکتا۔میں نے طنزیہ انداز میں کہا پی لو، میں تم سے پیسے نہیں لوں گا تو آگے سے اس نے جواب دیا کہ میں آپ والا سگریٹ بھی پیوں گا لیکن جب میں اپنے پیسوں سے خریدوں گا، یہ کہہ کر اس نے جیب سے اپنا سستا سگریٹ نکالا اور سلگا کر پینے لگا۔ اس کا جواب سن کر ایک لمحے کے لئے میں خاموش ہو گیا کہ جہاں ایک طرف اس ملک کے امراء اور حکمران ”غیرت”لفظ سے واقف نہیں وہاں اس دھاڑی والے کی ”انا”اور”غیرت”حیران کن تھی۔

گفتگو دوبارہ شروع ہوئی تو میں اس سے پوچھا بھائی پوری زندگی دھاڑی پر کام کرتے رہو گے کہ مستقبل کے لئے کچھ سوچا ہوا ہے، اس نے کہا کہ صاحب جی خدا کا شکر ہے جو دو وقت کی عزت کی روٹی مل جاتی ہے لیکن مستقبل میں میراکاروبارکرنے کا ارادہ ہے، میں دس سال سے روزانہ کے پچاس،سو روپے جوڑ رہا ہوں کہ ایک دن اپنا کاروبار شروع کر سکوں۔ میں کہا کہ بھائی اچھی خاصی عمر ہو چکی ہے تمہاری اب کب کاروبار شروع کرو گے تو آگے سے کہنا لگا کہ دنیا کے جتنے بھی امیر ترین لوگ ہے انہوں نے چالیس سال کی عمر تک غربت میں زندگی گزاری ہے اور جو بھی کمایا چالیس سال کی عمر کے بعد کمایا، میں تو ابھی صرف پینتیس سال کا ہوں، خدا کرم کرے گامیرے ابھی پانچ سال پڑے ہیں۔میں پھر خاموش ہوگیا کہ جہاں ایک طرف ہر جانب مایوسی چھائی ہوئی ہے اور لوگوں میں صبروشکر کا مادہ ختم ہو چکا ہے وہاں ایک ایسا پر امید اور شکرگزار بندہ بھی موجود ہے۔

ابھی بات جاری ہی تھی کہ میرے دوست آگئے اور میں چائے کے پیسے دینے لگا تو جمال نے مجھ سے آگے بڑھ کے چائے والے کو پیسے دے دئیے اور کہنے لگا کہ اب یہ پیسے لوٹا کے مجھے شرمندہ نہ کریے گا۔میں نے اسے گلے لگایا اور اجازت چاہی تو جاتے ہوئے کہنے لگا کہ انشاء اللہ مستقبل میں آپ کو ملا تو آپ والا مہنگاسگریٹ پی رہا ہوں گا

۔یہ کہہ کر وہ چلا گیالیکن مجھے سوچ میں ڈال گیا کہ جس معاشرے میں بد امنی اور بے سکونی کا راج ہے، جہاں ہمارے اپنے اعمال کی وجہ سے بے حس حکمران ہم پر مسلط کر دیے گئے ہے، اور جس طرح آم کو چوسا جاتا ہے اسی طرح یہ حکمران عام آدمی کا خون چوستے جا رہے ہیں، آخر کب تک؟ کب تک ہم مظلوم بنے رہے گے ؟[pullquote] ایک جمال جیسا دیہاڑی دار مستقبل کے لئے اس قدر پر امید ہے، تو ہم کیوں مایوس ہیں؟[/pullquote]جمال جیسے ایک عام آدمی میں اس قدر غیرت ہے توہماری غیرت کب جاگے گی؟جب تک ہم عوام کی غیرت نہیں جاگے گی تب تک ہم پر ایسے حکمران ہی غالب رہے گے جوہم جیسے” آم آدمیوں” کا خون چوستے رہے گے۔ ذرا سوچئیے۔۔۔۔۔

نوٹ :تمباکو نوشی صحت کے لیے مضر ہے ۔ مضمون کے بنیادی پیغام کو پیش نظر رکھا جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے