بے شرم صحافت

صحافت کہاں مرگئی! ذرائع ابلاغ پھل پھول رہے ہیں۔ مگر خبریں تو گویا مفقود الخبر ہوگئیں۔ ’’اُنہوں نے کہا ‘‘ کی صحافت میں ہر طرف ہاہاکار مچی ہے مگر کوئی بھی شخص خبر کے لئے جوکھم اُٹھانے کو تیار نہیں۔ خبرو ں کا پورا کاروبار، بدترین لوٹ مار کا ایک مکروہ میلہ بن چکا ہے۔[pullquote] نیوز ایڈیٹر، ٹیلی ویژن کے کنٹرولر نیوز اور ڈائریکٹر نیوز نوم چومسکی کی اصطلا ح میں ایک طرح کے مہذب دلال بن گئے ہیں۔[/pullquote] جن کا واحد مشغلہ جانے والے کی مذمت اور آنے والے کی مدحت ہے۔ آج کل حب الوطنی، جمہوریت کی تقدیس، قومی مفادات اور نہ جانے کیا کیا کچھ میاں نوازشریف کی ذات مبارکہ کے ساتھ پیوست ہیں۔ ذرا نوازشریف کے مالیاتی معاملات پر نگاہ ڈالیں۔ اسحاق ڈار کے ایف بی آر کو ٹٹولیں، میٹرو پر سوال اُٹھائیں، مودی سرکار سے اُن کے آنکھ مٹکے پر قومی حیا کی بات کریں تو اچانک قومی مفاد خطرے میں پڑجاتا ہے، حب الوطنی کو خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔ جمہوریت کی تقدیس کوآمریت کی بداعتقادی کی صلواتیں سننی پڑتی ہیں۔

یہی ماجرا مقتدر حلقوں کے ساتھ بھی ہیں۔ آپریشن ضربِ عضب پر کوئی سوال نہیں اُٹھایا جاسکتا۔ مرنے والے کون ہیں؟ اس کے لئے بس ایک ٹوئٹر پر راضی بہ رضا رہنا پڑتا ہے جو اُن کے بس دہشت گرد ہونے کا اعلان کردیتاہے۔ اُن کے نام، اُن کی دہشت گردی کی کوئی تفصیلات اُن کے معاملات کسی کا کچھ اتا پتا نہیں دیا جاتا۔ کوئی اس پر سوال تک نہیں اُٹھا سکتا۔ کراچی آپریشن پر بھی کوئی سوال اُٹھایا نہیں جاسکتا۔ اندھا دھند گرفتاریاں جاری ہیں۔ قانون کو ہی نہیں انصاف کو بھی لقویٰ ہو چکا ہے۔ [pullquote]اُجلی نثر میں ایک تقدیس کا ہالہ ہے جو کالم نگار بُنے رکھتے ہیں۔[/pullquote] وہ اسلام آباد اور لاہور میں رہ کر وہ بھی جانتے ہیں جو اہل کراچی سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ کر بھی نہیں جانتے۔ اُن کی ہر بات حتمی اور قطعی ہوتی ہے۔ خبر دار جو سوال اُٹھا یا، آپ اُن سے ہی نہیں دیگر خطرات کے گرداب میں بھی خود کو دھنسا ہوا پاتے ہیں۔ کتنے ہی پولیس مقابلے روز ہوتے ہیں۔ اکثر جعلی اور پہلے سے گرفتار لوگوں کو مارنے کے یہ مشغلے ہوتے ہیں۔ مگر ان میں سے کسی کے بارے میں تسلی بخش معلومات نہیں دی جاتی۔ بس وہ دہشت گرد ہوتے ہیں۔ اور اُن کے ساتھ کوئی بھی سلوک کیا جاسکتا ہے۔ زیادہ وقت نہیں گزرا۔

کراچی کے صحافی خطرات مول لے کر کہانی سناتے تھے، تحقیقات کا جوکھم اُٹھاتے تھے اور سچ کو جھوٹ سے الگ کر دیتے تھے۔ مگر اب کوئی یہ سچ بولنے کو تیار نہیں۔[pullquote] مالکان نے نقصان پہنچانے والی قوتوں سے کچھ ’’خاموش بندوبست ‘‘ کررکھے ہیں۔[/pullquote] اور اب وقائع نگار یہ جانتے ہیں کہ یہ ایک فضول اور لاحاصل مشق ہے۔ جس میں صداقت کا چہرہ پڑھنے کی کہیں پر بھی کوئی حاجت نہیں رہی۔ اب یہ کام ایسا نہیں رہا کہ اس کے لئے اپنے خاندان سمیت خود کو خطرات میں ڈالیں۔ وہ تلوار سے زیادہ تیز راستے پر چلتے ہوئے اب نقصان پہنچانے والی قوتوں اور مقتدر حلقوں کے مضرت رساں اختیارات سے ایک ساتھ عہدہ براہ ہونے کی زبردست صلاحیت پیدا کرچکے ہیں۔ اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ وہ جرأت اظہار سے محروم ہو چکے اور اظہار کے مختلف اسالیب پر اپنی قدرت کو کہیں دفنا چکے۔ اُن کی زندگیاں اب آسودہ ہیں۔

وقائع نگار کے ساتھ ایک مسئلہ یہ رہتا تھا کہ اُن کی خبروں پر پہلے مالکان سودا کرتے تھے۔ پھر خبر نگاروں نے یہ بھانپ لیا تو وہ بڑے اخبارات میں خبر کو اس طرح لکھتے تھے کہ بات چھپنے سے پہلے مالک کی نگاہ سے کس طرح بچی رہے۔ سرخیاں کچھ اور نکلتیں، اور خبر کچھ اوربنتی، پھر خبر کا ایک بین السطور ہوتا۔ اور کسی نہ کسی طرح بات سامنے آکر رہتی۔ نوازشریف کے دوسرے دورِ حکومت میں جب وہ عدلیہ کے ساتھ نبرد آزما تھے تو اُنہوں نے اراکین اسمبلی کی گنتی کی طرح اپنے منصفین کی گنتی کا عمل شروع کیا۔ محترم المقام سابق صدر، جسٹس رفیق تارڑ اس کام پر مامور کیے گئے جنہیں ایک جہاز تک مہیا کردیا گیا تھا۔ وہ ملک بھر میں یہ سودے بازی کررہے تھے۔ خبر کیسے سامنے لائی جاتی۔ چنانچہ خبر نگار نے خبر دینے کے بجائے ایک مسقتل کالم میں بین السطور ذکرکر دیا۔ ایک تجارتی اخبار کے کالم ’’روپی ‘‘ میں حیران کن تفصیلات سامنے آئیں۔ سینٹرل پوائنٹ لاہور میں موجود ایک کرنسی ڈیلر جو شریف خاندان اور اسحاق ڈار کی طرف سے اسٹاک مارکیٹ میں زرمبادلہ کے کاروبار میں ملوث رہتے تھے۔ اچانک عدلیہ سے لڑائی اور اپنی مرضی کی صف بندی کے دوران میں ڈالرز خریدتے ہوئے پائے گئے۔ خبر نگار کو خانانی اینڈ کالیا سے یہ پتہ چلا کہ چار لاکھ ڈالرز توصرف اُن سے خریدے گئے ہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب لین دین کے چرچے جاری تھے۔ عدالت میں بھی یہ خبر زیر بحث رہی۔ خبر نگار نے اپنی بات سامنے لانے کا راستہ خود بنایا تھا۔ اب ایسے خبر نگار موجود نہیں۔ جو انگڑ کھنگڑ بچا ہے اُن کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ خبر کو مالکان سے پہلے بیچنا چاہتے ہیں۔ وہ ایک اور کام بھی کرنے لگے ہیں۔ وہ اخبارات کے لئے خود بھی اشتہارات کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں اور پرسنٹیج طے کرتے ہیں۔

[pullquote] مالکان کو ایسے رپورٹر سازگار ہیں جواُن کے لئے اشتہارات کا بندوبست بھی کرتے ہو، پھر اُنہیں کیا پروا ہے کہ وہ خبر میں کہاں کہاں کیا کیا مفاہمتیں کرتے ہیں، کتنے سودے کرتے ہیں۔ صحافت کا پورا کاروبار نہایت گھٹیا ہوتا جارہا ہے۔ جسے ادنیٰ درجے کے لوگوں نے اب ارزل ترین بنا دیا ہے۔
[/pullquote]


ایسے اخباری مالکان جن کی ذہنی سطح بھی کچھ اتنی پست نہیں جو مختلف تقریبات میں اخلاقی درس دیتے ہوئے بھی نہیں تھکتے، جن کے ہاں گفتگو کے اندر زبردست اُصول پسندی کی تبلیغ بھی ہوتی ہے، اپنے اداروں کے چھوٹے درجے کے ملازمین کو تنخواہیں تک نہیں دیتے۔
پھر معمولی رپورٹرز اپنے متبادل راستے ڈھونڈتے ہیں۔ اور وہ بے خبر نہیں ہوتے۔ ان کے اخلاقی درس بھی کم نہیں ہوتے اور ان کے طرزِ عمل بھی درست نہیں ہوتے۔ ایسے ہی ایک اخبار کے مالک نے اس خاکسار کوبتایا کہ وہ اپنے اخبار سے سال بھر میں اتنا نہیں کماتے جتنا وہ ٹیلی ویژن پر اپنے ایک مستقل ماہانہ پروگرام سے کما لیتے ہیں۔ جب گفتگو اس پیرائے میں ہو رہی ہو تو پھرخبری صحافت کا کوئی دوسرا پیرایہ باقی ہی کہاں رہ جاتا ہے۔ ایسے ذہن کے لئے نوازشریف ایک دور میں امیر المومنین، پھر جنرل مشرف اگلے دور میں قائد اعظم ثانی، پھر آصف علی زرداری اپنے دورِ اقتدار میں سب سے بڑے سیاست دان اور مردِ حراور اب پھر نوازشریف جمہوریت کے سب سے بڑے محافظ ہی ہوں گے۔ مگر کیا اُن کے الفاظ کسی بھی طرح حرمت آشنا ہوں گے۔ کیا وہ کبھی بھی تاریخ میں اچھے الفاظ سے یاد کیے جائیں گے۔ ٹیلی ویژن کے ہی ایک اشتہار کے بول ایسی مخلوق کے لئے پوری طرح صادق آتے ہیں کہ ’’سب بکتا ہے۔‘‘

[pullquote]مالکان ہو یا کالم نگار! اُنہیں ایوان صدر میں ایک تقریب چاہیے، وزیراعظم سے کچھ راہ ورسم چاہیے۔ مسلوں پر کچھ دستخط چاہئیں، کچھ کو پلاٹ چاہیے، کچھ کو سرکاری ٹھیکوں میں من پسند لوگوں کے لئے گنجائشیں چاہیے، کچھ کو بیرون ملک سیر سپاٹے چاہیے، کچھ کو اپنی زرعی زمینوں پر سڑکیں چاہئیں، کچھ کو سرکاری نوکریاں چاہئیں، کچھ کو اضافی آمدنی کے رستے چاہئیں، کچھ کو سرکاری نوکری کے ساتھ کالم نگاری کے مزے چاہئیں، کچھ کو ٹی وی چاہیے۔ اگر کوئی ایسی بے شرم صحافت کا محاکمہ کرنا چاہے تو آغاز کہاں سے کرے؟
[/pullquote]

محمد طاہر ایک پیشہ ور صحافی، کالم نگار اور نیوز ویب سائٹ وجود ڈاٹ کام کے ایڈیٹر ہیں

بشکریہ :وجود ڈاٹ کام

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے