چپ کردروٹ اور اپنی بے حسی کی بھی ملامت نہ کر

ہر باکمال شاعر کو ربّ کریم نے تلخ ترین حقیقتوں کو بھی استعاروں اور تلمیحات کے ذریعے بیان کرنے کا ہنر عطا کیا ہوتا ہے۔ اس ہنر کی فراوانی کے باوجود کئی نامور شعراء بھی اکثر خوفِ فساد خلق سے گھبرا کر ’’ناگفتنی‘‘ کا شکوہ کرتے پائے گئے۔ ہمارے اقبال کو بھی بڑی عاجزی اور دردمندی کے ساتھ اپنے ربّ سے چند گلے کرنے کی وجہ سے اپنے دور کے چند نامی گرامی علماء کی جانب سے دئیے فتوے سہنا پڑے تھے اور وہ ایک حوالے سے ’’جوابِ شکوہ‘‘ لکھنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
اخبارات کے لئے کالم لکھنے والے مجھ ایسے زبان وبیان کے حوالے سے بے ہنر افراد کو شاعروں سے کہیں زیادہ محتاط رہنا پڑتا ہے۔ ہمیں روزمرہّ کے معاملات پر چالو زبان میں لکھی ہلکی پھلکی تحریروں سے ڈنگ ٹپانا اور رزق کمانا ہوتا ہے۔

ہماری ضرورت سے کہیں زیادہ حساس ریاست چند موضوعات پر ذہنوں میں اُبلتے سوالات کی بے ضرر سی جھلک بھی آپ کی تحریروں میں برداشت نہیں کرسکتی۔ ہمیں خود کو ’’جی دار‘‘ ثابت کرنے کے لئے ویسے بھی میسر ہیں کثیر تعداد میں ’’جاہل‘‘ عوام کے ووٹوں سے منتخب کردہ ’’چور اور لٹیرے‘‘۔ ان کے بارے میں جھوٹی سچی داستانیں بیان کرتے ہوئے آپ خود کو ایک پوتر اور بااصول شخص کے طورپر پیش کرتے ہوئے گڈ گورننس کے عظیم پرچارک بھی ثابت کرسکتے ہیں۔
’’چوپڑیاں اور وہ بھی دو دو‘‘ والی سہولت کی موجودگی میں ’’نوگو ایریاز‘‘ میں گھسنا ویسے بھی مناسب نہیں دکھتا۔ چپ کر- دڑ وٹ اور ATMسے پیسے نکلوا۔ ڈیبٹ کارڈ کام نہ آئے تو جیب سے کریڈٹ کارڈ نکال۔ ایسے اطمینان سے محرومی کی خواہش صرف نفسیاتی مریضوں ہی کے دلوں میں پیدا ہوسکتی ہے۔

کبھی کبھار آپ کے اندر موجود وہ شے جسے ضمیر کہا جاتا ہے مگر مچل ہی جاتا ہے۔ اس کی تڑپ سے نجات کا کوئی وظیفہ مجھے میسر نہ ہوپایا۔ نہ ہی کسی ایسے ’’پہنچے ہوئے‘‘ کی شفقت نصیب ہوئی جو اپنی نرم وملائم گفتگو سے دل کی بے چینی کو اطمینانِ قلب میں تبدیل کردے۔

خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہونے سے کئی دہائیاں قبل ہی مسلمانوں میں فرقہ واریت درآئی تھی۔ اس کی سنگینی سے گھبراکر مسلم حکمرانوں کو اسلام کے اصل مرکز سے بہت دور دمشق اور بغداد میں دارلخلافے بنانا پڑے تھے۔ ہمارے خطے میں اسلام مگر قطعی مختلف صورتوں میں متعارف ہوا۔ اقتدار کے لئے تمام تر کش مکش مغل دور کے ابتدائی سالوں تک برصغیر پاک وہند کے شمالی حصوں تک ہی محدود رہی۔ ہندواکثریت کے ساتھ اطمینان سے زندہ رہنے کے لئے مذہبی رواداری سیاسی مجبوری تھی۔ درباروں میں اثر کے لئے چپقلش اشرافیہ کے مابین صرف نسلی بنیادوں پر ہوا کرتی تھی۔ ’’توران‘‘ سے آئے دلاور مقامی طورپر اُبھرے سورمائوں کے خلاف محلاتی سازشوں میں مصروف رہتے۔ ان سے قطعی بے نیاز خلقِ خدا کی اکثریت خانقاہوں اور صوفیاء سے اپنے لئے اطمینان کے حصول میں مشغول رہتی۔

بادشاہ جہانگیر کو مگر پسند آگئی تھی نور جہاں۔ تعلق اس کا ایران سے تھا۔ جہانگیر نے جب ریاستی اختیار مکمل طورپر نور جہاں کے سپرد کردیا تو دربار میں ایک ’’ایرانی پارٹی‘‘ بھی وجود میں آگئی۔ جھگڑے اس پارٹی کے بھی تورانی اور مقامی امراء تک ہی محدود رہے۔

فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم کا عوامی سطح تک پہنچنا درحقیقت شاہ جہان کے آخری دور میں ان جنگوں کی وجہ سے ممکن ہوا جب مغل سلطنت نے بہت یکسوئی کے ساتھ دکن یعنی جنوب تک پھیلنا چاہا۔ اودھ سلطنت کے عروج کے دنوں میں یہ تقسیم مزید پھیلی۔ اس سلطنت کازوال ہوا تو بہادر شاہ ظفر کے خلاف مقدمے کے اہم ترین گواہ حکیم احسن اللہ خان نے کسی زمانے میں اودھ سے منسلک ایرانی پارٹی کو دلّی کے لوگوں میں بغاوت کے جذبات ابھارنے کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا۔ آج کے پاکستان میں موجود علاقے ان سب قضیوں کے باوجود بھی فرقہ وارانہ تعصب کی آگ سے محفوظ رہے۔

80ء کی دہائی سے معاملات مگر اب بگڑ چکے ہیں۔ اصل وجہ اس بگاڑ کی افغانستان کی آزادی کے نام پر برپا ’’جہاد‘‘ تھا اور ایران اور عراق کے درمیان ہوئی آٹھ سالہ طویل جنگ۔ سیاسی عمل اور سیاسی جماعتیں جنرل ضیاء کے آمرانہ دور میں ریاستی جبر کا اصل نشانہ رہے۔ سیاسی عمل رعایا کو حقوق اور فرائض والے شہری بناتے ہیں۔ ریاست ان شہریوں کی سیاسی اور معاشی ضرورتوں کی تسکین کے لئے Inclusive(اس لفظ کا مناسب متبادل میں اُردو زبان میں نہیں ڈھونڈپایا) پالیسیاں بنانے پر مجبور ہوتی ہے۔ کسی ایک مسلک تو کیا ایک خاص مذہب کی بھی کوئی جدید ریاست ایک سخت گیر پاسبان کے طورپر نظر آنا برداشت نہیں کرسکتی۔ ہماری ریاست نے بتدریج مگرInclusiveرہنے کی یہ صلاحیت کھودی ہے۔
اس صلاحیت کے لٹ جانے کا ماتم آپ کو نہ اخباری کالموں میں نظر آتا ہے اور نہ ٹی وی سکرینوں پر ہمہ وقت برپا سیاپوں میں۔ ہمارے ہاں مگر مساجد کی بہتات ہے۔ اقبال کی بیان کردہ شب بھر میں بنائی ایسی کئی مساجد ایسے افراد سے بھری ہوئی ہیں جن کے من بدقسمتی سے فسادی ہیں۔ منبروں سے پھیلائے جنون کو روکنے کے ابھی مؤثر طریقے ایجاد ہی نہ ہوپائے تھے کہ متعارف ہوگیا انٹرنیٹ۔

اپنے گھروں میں کئی گھنٹوں تک محصور نوجوان کے لئے بے تحاشہ Sitesہیں جو دلوں میں نفرتیں بھرنے والے پیغامات سے لدی ہوئی ہیں۔ ان پیغامات کی بدولت پیدا ہوئی وحشت کی تسکین کے لئے ہمارے نوجوان کو انٹرنیٹ ہی کی معرفت کئی رفیق بھی مل جاتے ہیں۔ کراچی میں صفورا چوک والا واقعہ نہ ہوتا تو ہماری ریاست کی توجہ اس Hitechوحشت کی طرف مبذول ہی نہ ہوپاتی۔ اب ہوش آیا ہے تو روزانہ کئی بڑے شہروں سے پڑھے لکھے نوجوانوں کی گرفتاریوں کی اطلاعات آنا شروع ہوگئی ہیں۔ گرفتاریاں مگر کتنی ہوں گی؟
ایک دہشت ناک بیانیہ ابلاغ کے مؤثر ترین Toolsکے انتہائی تخلیقی انداز میں استعمال کے بعد بہت شدت کے ساتھ تشکیل پا چکا ہے۔ NAPکے ڈھول بجانے والوں کو اس بیانیے کی اہمیت کا احساس تک نہیں۔ اس کے توڑ کو ڈھونڈنے کی فکر کون کرے۔

ریاست کی اس ضمن میں سفاکانہ بے حسی کے باوجود ہمارے سوچنے سمجھنے والوں کو اپنے تئیں سرجوڑ کر کسی جوابی بیانیے کو تشکیل دینے کی کم از کم کوشش ضرور کرنا چاہیے تھی۔ میرے ایسے لوگ مگر صرف اپنا کالم گھسیٹ کر مطمئن ہوجاتے ہیں۔ باقاعدہ رزق کی فراہمی سے محرومی کے خوف کے ساتھ ہی ساتھ ذہنوں کو خوف فساد خلق نے بھی مفلوج کرڈالا ہے۔ لہذا چپ کر- دڑ وٹ۔ ATMسے پیسے نکلوا اور ڈیبٹ کارڈ کام نہ آئے تو جیب سے کریڈٹ کارڈ نکال اور اپنی بے حسی کی ملامت بھی نہ کر۔

بشکریہ نوائے وقت

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے