ذیابیطس کی چند اہم اورخاموش علامات

طبی دنیا میں ذیابیطس کو ’’خاموش قاتل‘‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ ایک جانب تو اس کی کوئی خاص علامات ظاہر نہیں ہوتیں لیکن یہ مرض جسمانی اعضا کو بری طرح متاثر کرتا ہے اور مزید کئی بیماریوں کی وجہ بنتا ہے۔

خون میں شکر کی مقدار بڑھنے سے آنکھیں ، دل اور گردے بطورِ خاص متاثر ہوتے ہیں۔ ہمارے بدن کو توانائی کے لیے گلوکوز کی ضرورت ہوتی ہے، ہم پھلوں سے براہِ راست گلوکوز حاصل کرتے ہیں لیکن چاول، روٹی اور آلو وغیرہ میں موجود گلوکوز ہماری آنتوں کے نظامِ ہاضمہ سے الگ ہوکر بدن کا جزو بنتا ہے اور گلوکوز رگوں کے ذریعے بدن کے ایک ایک خلیے میں پہنچتا ہے۔

لیکن شکر اور گلوکوز کے استعمال کے لیے انسولین کی ضرورت ہوتی ہے، انسولین ایک ہارمون ہے جو لبلبے میں پیدا ہوتا ہے۔ ٹائپ ون ذیابیطس کے شکار افراد میں انسولین کی پیداوار رک جاتی ہے لیکن ٹائپ ٹو ذیابیطس کے مریضوں میں انسولین تو پیدا ہوتا ہے لیکن انسانی جسم میں وہ مؤثر انداز میں استعمال نہیں ہوپاتا یعنی خلیات میں نہیں پہنچ پاتا یا وہ انسولین سے مزاحمت کرتے ہیں۔ ذیابیطس ٹائپ ون ہو یا ٹائپ ٹو دونوں کی علامات یکساں ہی ہوتی ہیں۔

ذیابیطس کی چند علامات:
کئی معاملات میں ذیابیطس دبے پاؤں حملہ آور ہوتی ہے جس کا پتا نہیں چل پاتا اور ایک تہائی افراد ذیابیطس کے شکار ہونے کے باوجود بھی اس سے واقف نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں بہتر یہی ہوگا کہ اچھے معالج سے رابطہ کیا جائے اور مکمل چیک اپ کرایا جائے۔ اسی لیے جو افراد ذیابیطس کے شکار نہیں ہیں وہ بھی اپنے معالج کی رائے کو اہمیت دیں اور اس خاموش مرض کی علامتوں پر نظر رکھیں۔

ذیابیطس کی ابتدائی علامات میں منہ خشک رہتا ہے اور بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے۔ اسی طرح غیرمعمولی طور پر بھوک بڑھ جاتی ہے اور بھوک ناقابلِ برداشت ہوجاتی ہے جب کہ کھانا کھانے کے باوجود بھی وزن تیزی سے گرنا شروع ہوجاتا ہے اس کے علاوہ بہت جلدی تھکاوٹ کا شکار ہوجاتے ہیں اسی طرح اگر زخم بہت دیر میں ٹھیک ہوتے ہوں اور نظر میں دھندلاہٹ ہوتو یہ بھی ذیابیطس کی ابتدائی علامات ہوسکتی ہیں۔

ضروری نہیں کہ یہ تمام علامات ذیابیطس کی ہی وجہ ہوں لیکن ان کو ہرگز نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے ۔ ابتدا میں ہی ذیابیطس کو قابو کرکے ایک بہتر زندگی گزاری جاسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے