منشی پریم چند : فن و شخصیت

خطۂ ہندوستان کا معاشرہ کہانی سننے، سنانے اور لکھنے میں کتنی قدیم روایت کا حامل ہے۔ اس کی جڑیں
کس قدر گہری اور دور تک سرایت کر گئی تھیں۔ مگرایک نکتہ غور طلب ہے اور وہ یہ کہ ہندوستان میں ’’تحریری افسانوں کے ابتدائی نقوش میں جو موضوعات زیرِ بحث آئے، اُن میں سے اکثریت کا تعلق مذہب اور روحانی موضوعات سے تھا اور ان کا پسِ منظر کچھ یوں ہوتا تھا کہ معاشرے میں مذہبی اقدار اور رسومات کو رائج کرنے کے لیے افسانوں کا سہارا لیا جاتا
اردو میں قصّہ کہانی کی روایت بلا واسطہ عرب و عجم سے منسلک ہے۔ کچھ مقامی اثرات کے باعث سنسکرت سے بھی داخل ہوئیں۔ مگر فارسی سے ماخوذ اور ترجمہ کردہ قصوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ اس طرح مختلف زبانوں کا حسین امتزاج ہمیں اردو زبان کے افسانوں میں نظر آتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردو افسانوں کی گروہ بندی بالکل نا ممکن ہے۔ اس صنف ادب کے لیے ہمارے پاس جتنے الفاظ اب تک چلے آ رہے ہیں ’’افسانہ، داستان، قصہ، حکایت اور کہانی وغیرہ۔ مگر ان کامفہوم قطعی طور پر معین نہیں ہے
ڈاکٹر مسعود رضا خاکی کا بھی یہی خیال ہے۔ ’’اٹھارویں صدی کے شعرائے اردو میں افسانہ یا افسانہ سے قصہ، کہانی ، داستان ، سرگزشت ، روئیداد، چرچا، ذکر، بے اصل، طویل و غیرہ مراد لیتے تھے‘‘۔ ۴؂
اردو میں افسانے کی ابتداء
پیارے لال شاکر میرٹھی کے خیال کے مطابق : ’’لقمان کی کہانیاں ہمارے مختصر افسانوں کی ابتدائی صورت ہیں۔ جس طرح آج کل کسی اہم کام سے تفہیم کے لیے یا حقیقت کے اظہار کے لیے مختصرافسانے سے کام لیا جاتا ہے۔ وہی کام عہد قدیم میں کہانی سے لیا جاتا تھا
ردو نثر میں جس قصہ کو سب سے پہلے افسانہ کہا گیا وہ رجب علی بیگ سرور کا ’’فسانۂ عجائب ‘‘ ہے ۶؂ ۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اردو میں کہانیوں کا وجود شروع ہی سے رہا ہے۔ جن میں زیادہ تر مذہب ، اخلاق اور پند و نصائح کا بیان تھا۔ مگر اُن کو وہ اہمیت یا حیثیت حاصل نہ تھی جو مثنوی کو حاصل تھی۔ اس سلسلے میں مثنوی کا دامن کافی وسیع نظر آتا ہے۔ جس کا سلسلہ ۱۷ ویں صدی اوائل میں شروع ہوا تھا اور ۱۸ ویں صدی میں بھی جاری رہا۔اس دوران نثری داستانوں کا رواج پڑا۔ جس میں مختلف حکایتوں ، روایتوں، قصوں، کہانیوں اور ماجروں میں بکھری ہوئی اشیاء یکجا ہونے لگیں اور ان تمام کی شیرازہ بندی داستان کے ذریعے عمل میں آئی۔ با الفاظ دیگر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ داستان کی کشش نے بکھری ہوئی کہانیوں کو اپنی قوت سے کھینچ کر خود سے جوڑ لیا۔ یہی وجہ ہے کہ داستان ایک طرف مختلف کہانیوں کا پلندہ ہے اور دوسری طرف ایک طویل کہانی ہے، جو کہانیوں کی چھوٹی چھوٹی کڑیوں سے مل کر بنی ہے۔ اگر بغور مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ نثری داستانوں کے عروج کے دور میں مقناطیس سے چمٹی یہ کہانیاں خود کو داستان سے کاٹ کر علیحدہ حیثیت تسلیم کروانے کا اظہار کر سکتی تھیں۔ جیسے غزل نے قصیدے سے دامن چھڑا کر الگ تشخص کا اعلان کیا اور کہانی نے داستان سے علیحدہ ہو کر ’’افسانہ ‘‘ کے وجود کا اعلان کیا۔ میرامن دہلوی کی ’’باغ و بہار‘‘ کے پیرائیہ اظہار نے اردو افسانے کے ابتدائی خدوخال کو نمایاں کرنے میں پہلی اینٹ کا کام انجام دیا۔
فنی اعتبار سے مختصر افسانہ ۱۹ ویں صدی کے آخر کی پیدا وارہے جب صنعتی انقلاب کے باعث ساری دنیا ایک تبدیلی سے دو چار ہو رہی تھی ‘‘ ۷؂ اس طرح ہندوستانی ادباء کی تحریروں نے افسانہ نویسی کے لیے فضا کو ساز گار کیا۔ اس طرح ’’داستان گوئی‘‘ کے گرانڈیل درخت سے افسانہ کی شاخ پھوٹی جس پر تین کونپلیں بصورت سجاد حیدر یلدرم ، علامہ راشد الخیری اور منشی پریم چند ابھر کر آئیں اور پھول بن کر چار سو خوشبو بکھیرنے لگیں۔
اس بحث میں پڑے بغیر کہ اردو کا پہلا افسانہ نگار کون ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ اردو کا پہلا اہم اور بڑا افسانہ نگار پریم چند ہے۔ اردو ادب میں یہ ایک ایسا نام ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ہندوستان کے دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح آپ نے پیار ، محبت، عشق، ہیرو، ہیروئن جیسے سطحی موضوعات کو اپنے اظہار کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ حقیقت پسندی کی طرف اپنے ذہن و قلم کا رُخ جمایا۔ آپ کے قلم سے ہندوستان کی مٹی کی خوشبو آتی ہے۔ آپ کی افسانہ نگاری کو چار ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔
منشی پریم چند کی افسانہ نگاری کے ادوار
ڈاکٹر مسعود حسین خان نے اپنے مضمون ’’پریم چند کی افسانہ نگاری کے دور ‘‘ میں ان کی افسانہ نگاری کے چار ادوار بتائے ہیں۔
پہلا دور : ۱۹۰۳ء تا ۱۹۰۹ء تک ابتدائی کوشش
دوسرا دور : ۱۹۰۹ء تا۱۹۲۰ء تک تاریخی اور اصلاحی افسانے
تیسرا دور : ۱۹۲۰ء تا۱۹۳۲ء تک اصلاحی اور سیاسی افسانے
چوتھادور : ۱۹۳۲ء تا۱۹۳۶ء تک سیاسی اور فکری افسانے
پریم چند کی افسانہ نگاری کا آغاز بیسویں صدی سے ہو جاتا ہے۔ ۱۹ ویں صدی کی کالونیاں ۲۰ویں صدی میں کئی نئے ادیبوں سے آشنا ہو گئی تھیں۔ اردو شاعری میں اقبال نے ایک نئی جہت اور احتجاجی لہر کا آغاز کیا۔ ۱۹ویں صدی کا معذرت خواہانہ لہجہ آہستہ آہستہ احتجاج میں بدل گیا۔ جنگِ عظیم اول ۱۹۱۴ء اور انقلاب روس ۱۹۱۷ء نے سامراجی قوتوں کے رعب میں رخنہ ڈال دیا تھا۔ پریم چند بھی اسی نیم سیاسی دور سے متاثر ہوئے۔ ’’سوزِ وطن‘‘ اسی دور کا اظہار ہے۔
ادب کے ذریعے انقلاب اور معاشرے میں تبدیلی لانے کا تصور پریم چند کی ابتدائی کہانیوں ہی سے سامنے آ گیا تھا۔ اس حوالے سے وہ مقصدی ادب کی ایسی تحریک کا تسلسل تھے جو ۱۹۵۷ء کے بعد سر سید اور ان کے رفقاء کے ہاتھوں شروع ہوئی تھی۔ آپ کی ابتدائی کہانیوں میں حقیقت نگاری کا پہلو نمایاں رہاہے۔ پریم چند اس نکتہ سے واقف تھے کہ حقیقت نگاری کا محدود تصور فن کو تباہ کر دیتا ہے۔
منشی پریم چند کا اصل نام دھنپت رائے تھا۔ وہ ۱۳ جولائی ۱۸۸۰ء کو ضلع وار انسی مرٹھوا کے ’’لمبی‘‘ نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد نے آپ کا نام دھنپت رائے رکھا جبکہ آپ کے چچا نے آپ کا نام پریم چند رکھا۔ ۱۸۸۵ء میں لال پور کے مولوی صاحب کے پاس اردو اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۹۵ء میں گورکھپور سے مڈل کا امتحان پاس کیا۔ بعد میں معلم کی حیثیت سے ملازمت اختیار کی اور ۱۸ روپے ماہوار تنخواہ لیا کرتے تھے۔ بعد ازاں ۱۸۹۹ء میں بنارس میں اسسٹنٹ ٹیچر کی نوکری مل گئی۔ ۱۹۰۰ء میں بیرائچ کے گورنمنٹ سکول میں تقرر ہوا اور ہر پرتاب گڑھ کے ضلع میں تبادلہ ہوا۔ الہ آباد میں جا کر آپ نے پہلی مرتبہ سنجیدگی سے لکھنا شروع کیا۔
۱۹۰۴ء میں جونیئر انگلش ٹیچر کا امتحان پاس کیا اور اسی سال الہ آباد یونیورسٹی سے اردو ہندی کا خصوصی امتحان پاس کیا۔ ۱۹۰۶ء میں آپ کی دوسری شادی ایک بیوہ ’’شیورانی دیوی‘‘ سے ہوئی ۔ ۱۹۰۹ء میں ترقی پا کر سب انسپکٹر آف سکولز ہو گئے۔ ۱۹۱۹ء میں بی۔اے کیا۔ فروری ۱۹۲۱ء میں عدم تعاون کی تحریک کے سلسلے میں ملازمت سے علیحدہ ہوئے۔ ۱۰؍اپریل ۱۹۳۶ء کو لکھنؤ میں پہلی مرتبہ انجمن ترقی پسند مصنفین کی صدارت کی۔ ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۳۶ء کو ۵۶ سال کی عمر میں وفات پائی۔
منشی پریم چند کی ابتدائی ادبی زندگی
آپ کا پہلا ناول ’’اسرارِ مابعد‘‘ رسالہ آوازِ خلق میں ۱۸؍ اکتوبر ۱۹۰۳ء کو شائع ہوا۔ ۱۹۰۷ء میں دوسرا ناول ’’کیش نا‘‘ کے نام لکھا جواب موجود نہیں۔ اس کے بعد ۵ افسانوں کا مجموعہ ’’سوزِ وطن‘‘ کے نام سے ۱۹۰۸ء میں منظر عام پر آیا۔ جس میں آپ نے آزادی ، حریت، غلامی اور بغاوت کے موضوعات کو چھیڑا۔ حکومتِ برطانیہ نے اس پر پابندی عائد کر دی۔ چنانچہ گورکھ پور کی حکومت نے اس کی تمام نقول حاصل کر کے جلا دیں اور آئندہ کے لیے سخت پابندی عائد کر دی۔ پریم چند نے ان افسانوں میں ’’نواب رائے‘‘ کے قلمی نام سے لکھا۔ بعد میں پریم چند کے نام سے لکھنا شروع کیا۔
موضوعاتی اعتبار سے منشی پریم چند کے افسانوں کو تین بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
۱۔جب ان پرداستانوں کا اثر تھا۔
۲۔جب وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار تھے۔
۳۔جب انھوں نے انسانی نفسیات کا مطالعہ طبقاتی جبر کے
حوالے سے کیا۔
پریم چند کے افسانوں میں رومانیت اور حقیقت نگاری کا امتزاج
زندگی کے خارجی معاملات اور معاشرے کی صحیح عکاسی حقیقت نگاری کہلاتی ہے جبکہ رومانیت میں زندگی کے باطنی پہلو اور وجدانی معاملات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اس حوالے سے رومانیت میں تخیل کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد عالم خان کے مطابق ’’رومانوی ادیب زندگی کی عکاسی ایک مصور کی حیثیت سے کرتاہے جبکہ حقیقت پسند، زندگی کو فوٹو گرافرکی آنکھ سے دیکھتا ہے۔ ‘‘
پریم چند کے ہاں ہمیں دونوں رویے ملتے ہیں۔ ایک طرف سماج کی سچی اور کھری تصویریں جبکہ دوسری طرف تخیل کی رنگ آمیزی ملتی ہے۔ ڈاکٹر محمد عالم خان کی رائے کے مطابق ’’پریم چند کے ہاں رومانیت کا تصور ایک سماجی پہلو لیے ہوئے ہے اور وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے انحراف نہیں کرتے‘‘۔
پریم چند بنیادی طورپر طبقاتی جبر کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ فرد کی آزادی کو بھی اہم سمجھتے ہیں۔ ان کی رومانیت پر وطن پرستی کا رنگ غالب ہے جس کا اظہار ان کی ابتدائی کہانیوں سے ہوتا ہے۔ پریم چند محبت کا تصور رومانوی اثرات کے ساتھ ساتھ تلخ حقائق کا اظہار کرنے سے کتراتے ہیں۔ کیونکہ ان کا تصور محبت سماجی روایت سے منسلک ہے۔ جس میں محبت کے کئی رنگ موجود ہیں۔ جس میں حب الوطنی، کچلے ہوئے طبقات سے ہمدردی، مادی حقائق کی اہمیت کو تسلیم کرنا وغیرہ۔
پریم چند خیال کو مادے پر اہمیت دیتے ہیں اور یہی وہ بنیادی فرق ہے جو ان کو اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں سے جدا کرتا ہے‘‘۔
ماضی پسندی، الم پسندی اور اضطراب و جستجو کو پریم چند کی رومانیت کے بنیادی عناصر قرار دیا جا سکتاہے۔ دوسرے افسانہ نگاروں کی طرح وہ آنکھ سے چیزوں کو نہیں دیکھتے بلکہ سماجی رویوں کے حوالے سے پہچان کراتے ہیں۔ ان کے یہاں تخیل کی بلندی ضروری ہے مگر ان کے پاؤں اپنے سماج اور زمین سے اوپر نہیں اٹھتے۔ آپ اپنا ایک نظریہ حیات رکھتے ہیں۔ وہ ماضی کے تسلسل میں حال کی پہچان کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے یہاں انقلاب اوررومان کا ایک ایسا امتزاج ملتا ہے جس کی بنیاد مثالیت، انسان دوستی اور معاشرتی اصلاح کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں پر بھی ہے۔
پریم چند کے کردار اکثر معاشرے کے ستائے ہوئے عام لوگ ہیں۔ انھوں نے ان ستائے ہوئے اور کچلے ہوئے مظلوم لوگوں خصوصاً دیہاتوں میں جاگیرداروں اور مہاجنوں کے ظلم کے مارے ہوئے لوگوں کو زبان دی۔ ان کے اندر آزادی کی تڑپ اور جدوجہد کا جذبہ پیدا کیا اور ایک نئی دنیا تعمیر کی اور طبقات سے آزاد معاشرے کا وجود ان کا بنیادی نظریہ تھا۔ وہ مثالیت اور حقیقت کے امتزاج سے اپنی افسانوی دنیا کی تخلیق کرتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر محمد حسین: ’’انھوں نے ایسے کردار بھی ڈھالے ہیں جو فوق البشر طاقت کے ساتھ زندگی کی ساری راحتوں پر لات مارکر کسانوں اور مظلوموں کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں۔طعن و تشنیع سے بے پروا ہو کر سماجی خرابیوں سے لڑتے ہیں اور کسی قسم کی ذہنی اور جسمانی ضرب ان کے ماتھے پرشکن نہیں لاسکتی۔
آپ نے اپنے افسانوں میں سادہ زبان استعمال کی۔ آپ نے سنسکرت کے الفاظ کا کم استعمال کیا۔ آپ نے اکثر کرداروں کے مکالمے ان کی معاشی اور معاشرتی حیثیت کے مطابق لکھے۔ نہ صرف یہ بلکہ ان کے لیے مکالمے ان کے لہجے اور تلفظ میں تخلیق کیے۔ جو آپ کے زبردست مشاہدے کا غماز ہے۔ آپ نے ہندوستان کے لوگوں کو حقیقت پسندی سے روشناس کرایا۔ اُس وقت جب ہندوستان میں مذہبی داستانیں اور مافوق الفطرت موضوعات عروج پر تھے، آپ نے بین الاقوامی، ملکی ، علاقائی، معاشرتی اور معاشی مسائل پر قلم اٹھایا۔ آپ نے ہندوستان کے دیہی موضوعات سے ساتھ ساتھ متوسط شہری کی زندگی کے مسائل پر بھی لکھا۔
پریم چند کے منتخب افسانوں پر تبصرہ
( ۱ ) کفن
یہ پریم چند ہی کا نہیں بلکہ اردو ادب کا بھی بہترین افسانہ ہے۔ یہ دو باپ بیٹوں کی کہانی ہے۔ جس میں جوان بہو زچگی کے عمل میں مر جاتی ہے۔ لاش کے لیے کفن نہیں ہوتا۔ دونوں باپ بیٹے کام چور ہوتے ہیں۔ کوئی ان کی مدد کے لیے تیار نہیں ہوتا مگر آخر کار انسانی ہمدردی کے تحت کفن کے لیے پیسے جمع ہو جاتے ہیں۔ دونوں باپ بیٹا کفن لینے نکلتے ہیں اور شراب خانے جا کر سارے پیسے خرچ کر دیتے ہیں۔
بقول ڈاکٹر محمد حسین ’’کفن میں پہلی بار پریم چند سماج کی تھوڑی بہت اصلاح کی جگہ اس کے مسلمات پر براہ راست حملہ آور ہوتے ہیں۔۔۔ آخر مردے کے کفن پر پیسہ ضائع کرنے کی بجائے مظلوم انسانوں کو جن کی زندگی جانوروں سے بدتر ہے۔ اس رقم سے دو لمحے بشاط اور خوشی میسر آ جائے تو کیا کفن دینے سے کہیں بہتر کارِ ثواب نہیں ہے‘‘۔
کفن حقیقت نگاری کے ساتھ ساتھ فنی جمالیات کی ایک عمدہ مثال ہے۔ یہ افسانہ ان کے اس نقطۂ نظر کا ترجمان ہے جو انھوں نے اپنے ایک خط میں بیان کیا۔ وہ لکھتے ہیں ’’محض واقعات کے اظہار کے لیے میں کہانیاں نہیں لکھتا۔ میں اس میں فلسفیانہ یا جذباتی حقیقت کا اظہار کرنا چاہتاہوں جب تک اس قسم کی بنیاد نہیں ملتی میرا قلم نہیں اٹھتا‘‘۔ ۱۹۳۰ء
انھوں نے کفن میں جس جرأت کے ساتھ انسانی فطرت کو بے نقاب کیا ہے وہ ان کے فن کا کمال بھی ہے اور نقطۂ نظر کااظہار بھی۔ آپ نے ’’کفن‘‘ کے بنیادی کرداروں ’’گھیسو‘‘ اور ’’مادھو‘‘ کے باطن میں گھس کر فطرت کو بے نقاب کیا۔
بقول ڈاکٹر گوپی چند نارنگ: ’’ پوری کہانی کی جان حالات کی ستم ظریقی ہے۔ جس نے انسان کو انسان نہیں رہنے دیا‘‘۔
طبقاتی نظام میں محکوم اور مجبور لوگوں کا استحصال ان کے اندر انسانی احساسات کو ختم کر دیتاہے اور ان کو حیوانی سطح پر رہنے پر مجبور کر دیتاہے۔ ’’کفن‘‘ کی یہ طنزیہ صورت حال اس درد ناک منظر سے شروع ہوتی ہے کہ جھونپڑے کے اندر جواں سال بہو دردِ زہ سے تڑپ رہی ہوتی ہے اور باہر گھیسو اور مادھوبجھے ہوئے الاؤ کے گرد بیٹھے خاموشی سے اس کے مرنے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ پریم چند کا کمال یہ ہے کہ وہ کم لفظوں میں بڑی حقیقت کو کہانی کا روپ دیتے ہیں۔
بنیادی طور پر کفن کی کہانی تین حصوں پر مشتمل ہے۔ جس میں پہلے حصے میں کرداروں کا تعارف، دوسرا حصہ بہو کی موت اور اثرات ، تیسرا حصہ غربت و افلا س کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بے حسی کا اظہار۔
پریم چند نے اردو زبان و ادب اور اس کے سرمایہ فکرکو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ انھوں نے زندگی اور کائنات کو فکر و نظر کے مروجہ زادیوں سے ہٹ کر ایک نئی سطح سے دیکھا۔ ایک ایسی بلند سطح سے جہاں سے زندگی اور انسانیت کا سمندر کروٹیں لیتا اور ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا تھا۔ وہ پہلے ادیب تھے جن کی نظر حیات انسانیت کے انبوہ میں ان مجبور اور بے بس انسانوں تک پہنچی جو قدرت کے دوسرے بے زبان مظاہر کی طرح صدیوں سے گونگے اور بے زبان تھے۔ پریم چند نے انھیں زبان دی۔
( ۲ ) حج اکبر
پریم چند طبعاً ایک غیر متعصب مصنف تھے۔ اس میں شک نہیں کہ زیادہ تر افسانوں میں ہندو کلچر پیش کیا مگر جہاں جہاں انھوں نے مسلم کلچر کے پس منظر میں کہانیاں تحریر کیں۔ ان میں ان کے مشاہدے کی گہرائی کمال پر ہے۔ جس کی عمدہ مثال افسانہ ’’ حج اکبر‘‘ ہے۔
ڈاکٹر قمر رئیس کی تحقیق کے مطابق ’’یہ افسانہ ۱۹۱۷ء میں لکھا گیا۔ یہ ایک اصلاحی کہانی ہے لیکن براہ راست مقصدیت پریم چند کی پسند نہیں۔ وہ بنیادی طور فنی جمالیات کے قائل تھے۔ اس افسانے میں بھی ان کی مقصدیت ایک فنی پہلو کے ساتھ ساتھ اسلامی معاشرت پیش کرتی ہے‘‘۔ اس افسانے کی کہانی یوں ہے کہ :
’’منشی صابر حسین نچلے طبقے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا ایک ہی بیٹا نصیر ہے۔ جس کے لیے انھوں نے ایک دایہ عباسی ملازمہ رکھی ہے۔ صابر حسین کی بیوی عباسی کو مالی بوجھ سمجھتی ہے اور اسے اکثر تنگ کرتی ہے۔ ایک روز دایہ عباسی ملازمت چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔ نصیر جو ملازمہ دایہ عباسی سے بہت مانوس ہوتا ہے یہ صدمہ برداشت نہیں کر پاتا اور بیمار ہو جاتا ہے۔ اتفاقاً اس کی ملاقات بازار میں صابر حسین سے ہو جاتی ہے۔ وہ اسے بیٹے کی بیماری کاحال سناتا ہے۔ عباسی بے قرار ہو کر اس کے ساتھ چلی جاتی ہے۔نصیر کا چہرہ اسے دیکھ کر بشاش ہو جاتا ہے۔ وہ صابر حسین کو بتاتی ہے کہ وہ حج پہ جا رہی ہے۔ مگر صابر حسین بچے کی حالت بیان کر کے اسے روک لیتا ہے۔ بعد میں جب عباسی اس سے کہتی ہے کہ تم نے مجھے حج پر جانے نہیں دیا تو صابر حسین کہتا ہے کہ تم نے میرے نصیر کو بچا کر حج اکبر کر لیا ہے۔ ‘‘
بظاہر یہ ایک سیدھی سادی کہانی ہے۔ مگر اس میں بڑی گہری معنویت اور مقصدیت چھپی ہوئی ہے۔ معاشرے میں در حقیقت اس وقت عزت کا معیار دولت ظاہری ،مال و متاع بن چکا ہے۔ تقویٰ، پرہیز گاری، صلہ رحمی، ہمدردی کو کوئی کسی مول نہیں پوچھتا ۔پریم چند نے اس تحریر سے ثابت کیا کہ کسی شخص کے مقرب ہونے کا انحصار اس بات پر نہیں کہ وہ مذہب سے کتنا لگاؤ رکھتا ہے بلکہ اس بات پر ہے کہ اس کا وجود معاشرے کے لیے کتنا سود مند ہے اور یہی نیکی کا اصل معیار ہے۔
پریم چند سنین کے آئینہ میں
۱۸۸۰ء : پیدائش ، اصل نام دھنپت رائے، چچا نے نام رکھا
پریم چند، ابتدائی قلمی نام نواب رائے، دوسرا قلمی نام پریم چند۔
۱۸۸۵ء : مولوی صاحب سے اردو، فارسی پڑھنا شروع کی۔
۱۸۹۳ء : چھٹی جماعت میں داخل ہوئے۔
۱۸۹۷ء : میٹرک کیا۔
۱۸۹۹ء : پرائمری سکول میں نائب معلم مقرر ہوئے۔
۱۹۰۰ء : لکھنا شروع کیا۔
۱۹۰۲ء : پہلا ناول اسرارِ مابعد۔
۱۹۰۴ء : دوسرا ناول کشانا، جونیئر انگلش ٹیچر کا امتحان پاس کیا،
ہیڈ ماسٹر بنے۔
۱۹۰۷ء : پہلی کہانی’’انمول رتن‘‘ لکھی۔
۱۹۰۸ء : سب ڈپٹی انسپکٹر مقرر ہوئے۔
۱۹۰۹ء : افسانوں کا دوسرا دور شروع ہوا، تاریخی اور اصلاحی
کہانیاں لکھیں۔
۱۹۲۰ء : تیسرا دور شروع ہوا، اصلاحی اور سیاسی کہانیاں۔
۱۹۲۱ء : ملازمت چھوڑدی۔
۱۹۲۲ء : رسالہ ’’مریادا‘‘ کی ادارت سنبھالی۔
۱۹۲۵ء : گنگاہتک مالا میں ملازمت کی۔
۱۹۲۸ء : ہندی رسالہ ’’مادھوری‘‘ کی ادارت کی۔
۱۹۳۰ء : اپنا پرچہ ’’ ھنس‘‘ نکالا۔
۱۹۳۲ء : چوتھا دور ، سیاسی اور فکری۔
۱۹۳۶ء : اکتوبر میں انتقال۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے