بوسیدہ سرمایہ داری کا نچڑا ہوا عرق

پاکستان میں نریندر مودی کے ‘سرپرائز وزٹ‘ کے کچھ ہی دن بعد دہشت گردی کے دو بڑے حملے بھارتی پنجاب میں پٹھان کوٹ ایئر بیس اور مزار شریف (افغانستان) میں قائم بھارتی قونصلیٹ پر ہوئے ہیں۔ ماضی کی طرح اس بار بھی ملوث تنظیموں اور افراد کے متعلق قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے اِس پار سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کارروائیاں کرنے والے مسلح تنظیموں کے اتحاد ”یونائیٹڈ جہاد کونسل‘‘نے پٹھان کوٹ حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ لیکن بھارتی میڈیا کا اصرار ہے کہ حملہ آوروں کا تعلق کالعدم جیشِ محمد سے تھا جبکہ پاکستانی میڈیا خالصتان کی تحریک کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

بھارتی حکومت کے مطابق مودی نے ”پاکستان پر، پٹھان کوٹ حملے میں ملوث تنظیموں اور افراد کے خلاف سخت اور فوری ایکشن لینے پر زور دیا‘‘ لیکن اہم خبر بدھ کے روز سامنے آئی جس کے مطابق بھارتی حکومت کا کہنا تھا کہ ”وزیراعظم نواز شریف نے وزیر اعظم مودی کو یقین دلایا کہ ان کی حکومت دہشت گردوں کے خلاف فوری اور فیصلہ کن اقدامات کرے گی‘‘۔ مزید یہ کہ نواز شریف نے ہندوستان کی طرف سے فراہم کی گئی خفیہ اطلاعات کے مطابق پٹھان کوٹ حملے میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا۔ تاہم پاکستان کی طرف سے اتنا ہی کہا گیا کہ ”ہماری حکومت بھارت کی طرف سے فراہم کردہ معلومات پر غور کر رہی ہے اور اس معاملے کی تفتیش کی جائے گی‘‘۔

اس حملے پر شیو سینا نے مودی پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ”نواز شریف کے ساتھ چائے کے ایک کپ کے چکر میں ہمارے سات سپاہی مروا لیے گئے۔۔۔۔۔ ان اموات پر (مودی حکومت کی طرف سے) بس ٹوئٹر پراظہار افسوس کیا جا رہا ہے‘‘۔ شیو سینا کے نمائندہ جریدے ‘سامنا‘ کے اداریے میں مزید کہا گیا کہ ”کانگریس حکومت ہوتی تو پاکستان پر حملے اور انتقام کی باتیں ہو رہی ہوتیں، لیکن آج کچھ بھی نہیں کیا جارہا۔۔۔۔۔ وزیر اعظم (مودی) جب نواز شریف کے مہمان بنے تھے تو ہم نے تبھی کہا تھا کہ پاکستان پر اعتماد نہ کرو۔۔۔۔۔پٹھان کوٹ حملے کا انتقام نہیں لیا جاتا تو پھر یومِ جمہوریہ کی پریڈ میں اسلحہ دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔

دونوں اطراف کا میڈیا زہر اگل رہا ہے۔ ہندو اور مسلمان بنیاد پرستوں کے ساتھ ”سیکولر‘‘ قومی شائونزم کو بھی ابھارا جا رہا ہے۔ تاہم پاکستانی حکمران طبقے کا ایک سنجیدہ جریدہ اپنے 6 جنوری کے اداریے میں لکھتا ہے: ”UJC کی قیادت نے کسی نہ کسی طرح مختلف مسلح گروہوں کو پچھلی دو دہائیوں سے یکجا رکھا ہوا ہے اور یہ پاکستانی ریاست کے قریب سمجھی جاتی ہیں۔۔۔۔اگر ریاست یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ اس کا موقف یکجا ہے اور ہندوستان سے مذاکرات کے معاملے پر داخلی اتفاق موجود ہے تو پھر UJC کے دعوے کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ مسٹر (نواز) شریف اپنے ہم منصب کو بتائیں کہ دہشت گرد امن عمل کو پٹڑی سے اتارنا چاہتے ہیں اور پھر یہاں کی ریاست ایک ایسے گروہ کی جانب سے حملے کے دعوے کو قالین کے نیچے چھپاتی پھرے جس کی قیادت پاکستان میں مقیم ہے۔۔۔۔۔ پٹھان کوٹ حملے کے منصوبہ سازوں کو کٹہرے میں لانا ہوگا‘‘۔

سامراجی قوتیں، جن کے دونوں اطراف کے ”امن پسند‘‘ اور شدت پسند عناصر سے گہرے مراسم ہیں، دو طرفہ تنائو کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ تاہم اس دشمنی اور جنگی جنون کا مکمل خاتمہ کبھی ان کا مقصد نہیں رہا۔ جان کیری نے نواز شریف کے سامنے بڑھتے ہوئے تنائو پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔کیری کا کہنا تھا کہ ”ہمیں گہری تشویش ہے۔۔۔۔۔ یہ دونوں ممالک خطے کے مفادات کے حوالے سے انتہائی اہم کردار کے حامل ہیں‘‘۔

برصغیر میں 1946ء کی انقلابی سرکشی کو کچل کر کیے جانے والے خونی بٹوارے سے جنم لینے والی دونوں ریاستوں کے تعلقات روز اول سے ہی جنگ اور امن، مذاکرات اور تنائو، دوستانہ لفاظی اور زہر آلود بیانات کے گھن چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔کئی مذاہب، نسلوں اور قبائل کے باشندوں کو سات ہزار سال تک یکجا رکھنے والی تہذیب کو چیر دیا گیا اور اس بٹوارے کا ایندھن بیس لاکھ معصوم انسان بنے۔ تقسیم کے بعد جہاں ایک طرف تھیوکریٹک ریاست معرض وجود میں آئی وہاں باقی کے ہندوستان پر قابض ریاست کا کردار بھی کہیں زیادہ زہریلا اور رجعتی ہوگیا۔

دونوں اطراف کے حکمران طبقات اور ریاستیں مذہبی جنون اور قومی شائونزم کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتی رہی ہیں۔ لیکن ان تعصبات کو برصغیر کے عوام میں وسیع تر حمایت کبھی حاصل نہیں ہو سکی۔ پاکستان کے محنت کش طبقے اور نوجوانوں نے مذہبی بنیاد پرستی کو جھٹکتے ہوئے طبقاتی بنیادوں پر کئی جرأت مندانہ تحریکیں برپا کی ہیں۔ تمام تر پشت پناہی کے باوجود یہاں مذہبی جماعتوں کو کبھی پانچ فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں ملے۔

برطانوی سامراج کی طرف سے پیوند شدہ سرمایہ دارانہ نظام ”آزادی‘‘ کے بعد بھی اس خطے میں قومی جمہوری انقلاب کا کوئی فریضہ ادا نہیںکر پایا۔ آج دونوں ممالک میں بیشتر سماجی اشاریے 1947ء سے بھی بد تر ہیں۔گزشتہ کچھ دہائیوں سے پاکستان اور بھارت میں مختلف اشکال اور شدت سے زور پکڑنے والی مذہبی بنیاد پرستی آخری تجزیے میں متروک اور مفلوج سرمایہ دارانہ نظام کا نچڑا ہوا عرق ہے۔ محنت کش عوام کی انقلابی تحریکوں کی پسپائی یا تاخیر اور روایتی قیادتوں کی پے درپے غداریوں نے وہ سیاسی خلا اور سماجی گھٹن پیدا کی ہے جس میں رجعت کی سیاہ قوتیں پنپ سکیں۔ دونوں ممالک میں نام نہاد ”سیکولر‘‘ پارٹیاں اور حکمران طبقے کے ‘لبرل‘ دھڑے خود اتنے کرپٹ، کمزور اور کھوکھلے ہیں کہ کوئی ترقی پسند کردار ادا نہیں کر سکتے۔

پاکستان ہی نہیں بلکہ بھارتی ریاست بھی کئی سطح پر داخلی تضادات اور دھڑے بندیوں کا شکار ہے۔ برصغیر کی طرح کئی دوسرے خطوں میں ریاستیں اور سامراجی قوتیں’نان سٹیٹ ایکٹرز‘ اور دہشت گرد پراکسی گروہوںکو اپنے مفادات کے تحت استعمال کر رہی ہیں۔ ایسے میں اوزار بعض اوقات چلانے والے کے ہاتھ بھی گھائل کر ڈالتے ہیں۔ بالخصوص پاکستان اور افغانستان کے حوالے سے بات کی جائے تو دہشت گرد گروہوں کی خود کار فنڈنگ کے لیے منشیات کے دھندے اور دوسرے جرائم کا طریقہ کار امریکی سی آئی اے نے ڈالر جہاد کے دوران وضع کیا تھا۔ آج کالے دھن کے یہ کاروبار اربوں ڈالر کا حجم اختیار کر چکے ہیں اور حصہ داری کی چپقلش ریاستی اور’نیم ریاستی‘ عناصر کے درمیان خونریز ٹکرائو کا باعث بنتی رہتی ہے۔ بعض صورتوں میں سرکش پراکسی گروہ اپنے آقائوں سے کہیں زیادہ گھاگ اور خود کار ہو چکے ہیں اور ان کی مرضی و منشا سے ہٹ کر کارروائیاں ایسے گروہوں کے لیے کوئی خاص مسئلہ نہیں رہا۔

اس نظام میں دوستی اور دشمنی دونوں سے مالی مفادات وابستہ ہیں۔ ایک طرف اسلحہ ساز کمپنیاں، عسکری اشرافیہ اور مذہبی بنیاد پرستی کی سیاست کرنے والے ہیں، جن کے لیے امن کسی صورت منافع بخش نہیں۔ دوسری طرف حکمران طبقات کے وہ حصے ہیں جو منڈیوں کے حصول اور شرح منافع میں اضافے کے لیے دو طرفہ تجارت چاہتے ہیں۔ ایسے میں دونوں بحران زدہ ریاستیں کوئی ٹھوس پالیسی ترتیب دینے سے قاصر ہیں۔ برصغیر کے حکمران طبقات کھلی جنگ کر سکتے ہیں نہ دور رس امن قائم کر نے کے قابل ہیں۔

مارکسسٹ ڈاٹ کام کے ایڈیٹر اپنے تازہ مضمون میں لکھتے ہیںکہ ”ایک وبا کی طرح کرہ ارض پر پھیلتی دہشت گردی بذات خود21 ویں صدی کی سرمایہ داری کو لاحق جان لیوا بیماری کی علامت ہے۔ دہشت گردی کے مزید حملے ناگزیر ہیں۔ دنیا میں اتنے پولیس والے نہیں جتنے نہتے اور معصوم انسانوں کو نشانہ بنانے پر تیار جنونی ہیں‘‘۔

ایران اور سعودی عرب میں براہ راست جنگ کے ہولناک امکان سے لے کر عراق، لیبیا اور شام کی بربادی تک، پاکستان اور بھارت کے درمیان پھر سے بڑھتے تنائو سے لے کر یورپ اور امریکہ میں گہرے ہوتے ہوئے معاشی بحران تک، افریقہ کی تاراجی سے لے کر لاطینی امریکہ کے انتشار تک، ماحولیاتی آلودگی سے لے کر گلوبل وارمنگ اور موسمی تبدیلیوں تک…اس نظام نے نسل انسان کی اکثریت کے لیے جہنم ارضی بنا ڈالا ہے۔ اس کا خاتمہ ہی انسانیت کی بقا کی ضمانت ہے۔

بشکریہ دنیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے