نجم سیٹھی کے جواب میں

پاکستان اور سعودیہ کے تعلقات کی کئی جہتیں اور پرتیں ہیں. آج کے جنگ کے ادارتی صفحے پر محترم نجم سیٹھی صاحب نے لکھا ہے کہ حکومت پاکستان کو ایران سعودی تنازعے میں سعودیہ کی حمایت سے بچنا چاہئے اور اس معاملے میں مالی و مادی مفادات کے بجائے قومی یکجہتی کو مدنظر رکھا جائے. کاش کہ نجم سیٹھی اور ان کے دیگر ہمنوا امریکہ سے تعلقات کے باب میں بھی یہی موقف اختیار کریں. جب امریکی مفادات کی بات آتی ہے تو یہی دانشور اور تجزیہ نگار ہمیں بتاتے ہیں کہ جذباتی باتیں اپنی جگہ مگر اصل قومی مفاد مالی و معاشی استحکام کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور امریکہ کی مخالفت پاکستان کے لئے سودمند نہیں. مگر جونہی سعودیہ کا ذکر آئے تو ہمارے یہ دوست معیشت پر مبنی دلیل کو یکسر بھلا کر یکجہتی کا راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں.

ایران – سعودیہ تعلقات کے تناظر میں ہمارے سیکولر حلقوں کو تو اس کے مذہبی پہلو سے یکسر بے اعتنائی برتتے ہوئے خالصتا مالی و معاشی دلائل کو سامنے لانا چاہئے. مگر چونکہ وہ جانتے ہیں کہ معاشی دلائل پوری طرح سعودیہ کے حق میں ہیں اور ایک اندازے کے مطابق سعودیہ سے آنے والے رقوم کو اگر پاکستان میں انوسٹمنٹ کے ساتھ ملا کر دیکھا جائے تو اس کا حجم چین سے حالیہ دنوں میں ہونے والے معاہدوں سے بڑھ کر ہے. اور یہ رقوم کتنے ہی سالوں سے پاکستان میں آرہی ہیں. یہ سب اس معاونت کے علاوہ ہے جو سعودی حکومت براہ راست حکومت پاکستان اور اس کے اداروں کو فراہم کرتی ہے. بدقسمتی سے پاک سعودی تعلقات کی معاشی اساس پر دونوں طرف کے تھنک ٹینکس نے کوئی مربوط کام نہیں کیا اور نہ ہی ہمارے ہاں کا لبرل طبقہ جو اس سے بخوبی واقف ہے وہ اس طرح کے دلائل کو سامنے لانا چاہتا ہے. آپ کو پاکستان اور بھوٹان کے معاشی و تجارتی تعلقات پر ہمارے اداروں اور تھنک ٹینکس کی رپورٹس مل جائیں گی مگر سعودیہ سے جو ہمارے معاشی مفادات وابستہ ہیں ان کے بارے میں اخباری سطح کے کام کے علاوہ کچھ ملنا مشکل ہے.

اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پاک سعودیہ تعلقات کی بحث سمٹ سمٹا کر مذہبی دائرے میں سکڑ جاتی ہے اور پاکستان میں اس کی تقسیم سنی شیعہ حلقوں میں ہوجاتی ہے. جس طرح امریکہ و یورپ سے تعلقات کو مسلم و غیر مسلم تقسیم کی بنیاد پر نہیں استوار کیا جاتا بعینہ اسی طرح سعودی عرب سے پاکستان کے تعلقات کا مذہبی پہلو ضمنی رہنا چاہئے اور اس کا معاشی و تجارتی پس منظر اور حقائق ہماری حکومت’ مقتدر حلقوں اور تجزیہ نگاروں کو اجاگر کرنا چاہئے.

یہ امر اپنی جگہ معنی خیز ہے کہ نجم سیٹھی صاحب اور ان کی طرح کے دیگر صحافی سعودیہ کے معاملے میں ڈنڈی مارنے سے باز نہیں آتے اور فورا ہی ملکی معاشی مفاد کو چھوڑ کر سنی شیعہ کی بحث شروع کر دیتے ہیں. انہیں چاہئے کہ پاکستان کے مقتدر حلقوں کو یہ بتائیں کہ سنی شیعہ ہونے کی بنیاد پر کوئی فیصلہ صادر نہ کریں اور پاکستان کا معاشی و مادی مفاد سامنے رکھ کر فیصلہ کرلیں کہ سعودیہ اور ایران میں سے کس کی حمایت کرنی ہے. یہ ان کے اپنے بنائے ہوئے اسٹینڈرز ہیں اور مذہبی دلائل دینے والوں کو ماضی میں ‘غیرت برگیڈ” کہہ کر یہی لوگ مطعون کرتے رہے ہیں. آج یہ کس منہ سے یوٹرن لے رہے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے