لوگ ریڈیو سنتے ہیں

ریڈیو آج بھی زندہ ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے۔ اگرصحافت کو کسی مملکت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہےتو ریڈیو پانچواں ستون کہلاتا ہے۔ریڈیو اصل میں مطبوعہ صحافت کی ترقی یافتہ صورت ہے ریڈیائی صحافت کو صوتی صحافت بھی کہا جاتا ہے۔ ریڈیو نشریات کا باقاعدہ آغاز 1920ءمیں ہوا 1924ءتک کئی ملکوں میں ریڈیو سٹیشن قائم ہو گئے رفتہ رفتہ ان کی نشریات کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔ پاکستان جب معرض وجود میں آیا تو کراچی اس کادارالحکومت قرار پایالیکن یہاں کوئی ریڈیو سٹیشن نہیں تھا۔قیام پاکستان کا اعلان لاہور ریڈیو سٹیشن سے ہوا۔13اگست کی رات بارہ بجے چودہ اگست کے ابتدائی لمحات میں یہ الفاظ تحلیل ہوئے یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہےاس کے بعد قیام پاکستان کا مبارک اعلان کیا گیا۔بعد ازاں پاکستان براڈ کاسٹنگ کی بجائے ریڈیو پاکستان کے الفاظ رائج کیے گئے۔

آج پاکستان کے ہر شہر میں ریڈیو سٹیشن قائم ہیں۔ریڈیو پاکستان نے 1965کی پاک بھارت جنگ کے دوران بھی اہم کردار ادا کیا تھا جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ریڈیو پاکستان نے اس جنگ میں نہ صرف پاکستان کے عوام کو صحیح حالات سے باخبر رکھا اور پاکستانی عوام کا حوصلہ بڑھایابلکہ بھارت کے آکاش وانی ریڈیو کے پروپیگنڈہ کا بھی منہ توڑ جواب دیا جس کا مقصد پاکستان کے عوام میں بددلی اور مایوسی کی فضا پیدا کرنا تھا۔آج ریڈیو پاکستان بے شمار پروگرام پیش کر رہا ہے جن میں تفریحی،دینی،حالات حاضرہ کے پروگرام شامل ہیں۔ریڈیو پاکستان کے علاوہ نجی اور ایف ایم سٹیشن بھی کثیر تعداد میں ہیں۔جن میں پاور ریڈیو 99،89،100،107.4.101یہ تمام ایف ایم ریڈیو عوام میں انتہائی مقبول ہیں۔

آج کل انٹرنیٹ ٹیکنالوجی نے ریڈیو اور عوام کو بہت قریب کر دیا ہے۔پہلے پہل بڑے سائز کے ٹرانسسٹر ریڈیو ہوتے تھے جنھیں ہر وقت اپنے ساتھ نہیں رکھا جا سکتا تھا اب مختلف الیکٹرانس کمپنیوں نے عوام کی سہولت کے لیے چھوٹے چھوٹے ٹرانسسٹرریڈیو بنا دیے ہیں کوئی بھی شخص خواہ کسی بھی پیشے سے وابستہ ہو ریڈیو نشریات سے مستفید ہو سکتا ہے۔ ریڈیو کے ذریعے عوام اور حکومت کو بھی قریب تر کیا جا سکتا ہے حکمرانوں کو چاہئیے کہ وہ ایک دن عوام کے لیے مختص کریں اور عوام سے ریڈیو کے ذریعے براہ راست بات چیت کریں اس طرح حکومت اور عوام میں دوریاں ختم ہوں گی اور عوام کے مسائل بھی حل ہو گئے۔

آج بھی کہیں نجی ایف ایم ریڈیو عوامی مسائل کو اجاگر کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں جو انتہائی مثبت قدم ہے۔پاکستان میں کثیر تعداد میں بوڑھے ،نوجوان اور مرد آج بھی ریڈیو نشریات سے مستفید ہوتے ہیں کیونکہ ریڈیو آج بھی زندہ ہے اور پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہے

یاسر رفیق صحافی،کالم نگار ہیں۔ پاکستان میں تعلیمی انقلاب چاہتے ہیں۔نوجوان نسل کو پڑھا لکھا دیکھنا چاہتے ہیں۔صحافت کو اپنامشن بتاتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے