جنّات، سائنس اور قرآن

کیا جنّات حقیقت ہیں؟
کیا سائنس آگ سے زندگی کی تصدیق کرتی ہے؟
جواب یہی ہوگا کہ سائنس موجودہ علوم کی روشنی میں اسکی تصدیق نہیں کرتی۔
لیکن ا س مو ضوع پر سائنس، کامن سینس اور قرآن کے زاویوں سے طائرانہ نظر ڈالنا ایک دلچسپ امر ہو گا ۔

کائنات اور اس میں زندگی کے حوالے سے سائنسی نقطۂ نظر مختصراً یہ ہے کہ کائنات ابتداء میں انتہائی گرم تھی اور آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہوئی یہاں تک کہ زمین پر پانی ظاہر ہوا پھر بہت سے کیمیائی عمل کے بعدمناسب درجۂ حرارت پر اس میں آبی زندگی شروع ہوئی۔ اب ظاہر ہے کہ اگر کوئی ایسی زندگی جس کا مآخذ تپش اور آگ ہو تو وہ قدرتی طور پہ تُرابی یا آبی زندگی سے پہلے وجود میں آئی ہوگی اور فطری طور پرایک شعلہ فگارماحول میں اُبھری زندگی کے پیرامیٹر ز یا اسکی ساخت ، شعور اور حواس خلیے میں پیدا ہونے والی کسی بھی حیات سے یا انسان سے بالکل جدانوعیّت کے ہونگے۔با الفاظِ دیگر دھکتے ستارے میں حرارتی توانائی سے کوئی زندگی ظاہر ہوتی ہے تو وہ ویسے ہی لطیف خواص کی حامل ہوگی جیسا کہ توانائی! ہم اسے حرارتی حیات Thermal Lifeکا نام دے سکتے ہیں۔ قدرتی طور پر کسی ایسی زندگی جسکا منبع origin خلیے کے بجائیتوانائی سے منسلک ہو وہ انسان کے شعور سے ماوراء ہوگی اور اسکی تصدیق عام حواس سے ممکن نہیں ہوگی ۔ سائنس تو اجنبی زندگی کے بارے میں تذبذب میں ہے لیکن آئیں اور حیرت زدہ ہوکر پڑھیں کہ ایسی حیات کی تخلیق کے حوالے سے قرآن کیا کہتا ہے!
قرآن: سورۃ الحجر (۱۵) آیات ۲۶۔۲۷
وَلَقَد خَلَقنَا الِا نسَانَ مِن صَلصَالٍ مِن حَماٍَ مَسنْونٍo
وَالجَاٰنَّ خَلَقنَاہُ مِن قَبلُ مِن نَارِ السَّمْومِ o
اور ہم نے انسان کو سڑی مٹّی کے سوکھے گارے سے بنایا۔
اس سے پہلے ہم جنوں کو آگ کی لَپٹ سے پیدا کرچکے تھے۔

یہ اگر انسان کی تحریر ہوتی تو اس میں” قبل یا اس سے پہلے ” کا حوالہ نہ ہوتا کیونکہ ۱۴۰۰ سال قبل کا کوئی بھی انسان حیات کی تخلیق کے مدارج اور ارتقاء کے درجوں کاسائنسی علم نہیں رکھتا تھا۔ یہاں قرآن کی یہ صراحت حیران کُن ہے کہ انسان سے پہلے جنّات کی آگ سے تخلیق کی گئی جو سائنسی علوم کے مطابق حیات کے فطری ارتقاء میں منطقی درجہ ہوگا۔ یہاں انسانی پیدائش کے حوالے سے نظریۂ ارتقاء کی تصدیق ہرگزمقصود نہیں بلکہ ایک عمومی پیرائے میں یہ بتانا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ قرآن انسان کی تخلیق کے حوالے سے جس مٹّی کا تذکرہ کرتا ہے وہ کائنات کے ٹھنڈا ہونے پر ہی بنی ہوگی جس میں تقریباً تمام عناصر مختلف تناسب سے موجود ہیں۔ سائنس کے مطابق عناصر elements ہی ملکر انسان بناتے ہیں جن میں آکسیجن، کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، کیلشیم، فاسفورس، پوٹیشیم، سلفر، سوڈیم، کلورین، میگنیشیم اورانکے علاوہکسی حد تک تمام دوسرے عناصربہت کم تناسب میں شامل ہیں، لیکن یہ واضح رہے کہ ان عناصر کے باہمی کیمیائی عمل سے زندگی کے ظہور میں جلنےcumbustion یا سُلگنے کا عمل شامل نہیں ہے ۔ جلنا Combustion ایک کیمیکل یا کیمیائی عمل ہے جس میں عناصر کے جلنے سے روشنی اور تپش پیدا ہوتی ہے جس میں آکسیجن کا مرکزی کردار ہوتا ہے۔ یہاں ایک منطقی سوال ابھرتا ہے کہ جب زندگی عناصر کے باہمی ملاپ یعنی مخصوص کیمیا ترکیبی specific-chemical-actions-reactionsسے پیدا ہوتی ہے تو یہ پیرایہ صرف ایک ہی کیوں ہو؟ ان ہی عناصر میں سے کچھ عناصر کا جلنے cumbustion کے کسی مخصوص عمل کے دوران حیات کو جنم دیناخارج از امکان نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ جلنا بھی ایک کیمیائی عمل ہے۔ جدید سائنس خلیوں میں ظاہر ہونے والی طبعئی حیات کا راز نہیں جان سکی جو کہ آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے اور ابھی تک ایک لاینحل معمّہ ہے تووہ کس بنیاد پر کسی حرارتی حیات کو مطلق رد کرسکتی ہے جبکہ دورِ جدید کے مشہور ترین سائنسدان اسٹیون ہاکنگ Stephen Hawkingنے کہا کہ: ” ہمیں یقین ہے کہ زمین پہ زندگی اچانک ابھری ہے تویقیناً اس لامحدود کائنات میں زندگی اورطرح سے بھی وقوع پذیر ہوئی ہوگی۔”
"We believe that life arose spontaneously on Earth,” Hawking said at Monday’s news conference, "So in an infinite universe, there must be other occurrences of life.”
https://www.washingtonpost.com/news/speaking-of-science/wp/2015/07/20/stephen-hawking-announces-100-million-hunt-for-alien-life/

اور اسی یقین کی بِنا پر اس سائنسدان نے کسی ایسی مخلوق کی تلاش کے عمل میں مدد کے لیئے ایک سو ملین ڈالر مختص کیئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ اس بات کا امکان بھی ہے کہ خلائی مخلوق کے مقابلے میں انسان کیڑے مکوڑوں سے بھی حقیر ہوسکتے ہیں اور وہ ہمیں اسطرح برباد کرسکتے ہیں جس طرح ہم چیونٹیوں کو۔

http://www.space.com/29999-stephen-hawking-intelligent-alien-life-danger.html

اس بیان سے ثابت ہوتا ہے کہ جدید سائنسدان اجنبی حیات کو کسی نامعلوم پیرائے میں قبول کررہے ہیں اور مان رہے ہیں کہ ہمارے مخصوص ذہنی معیار سے بہت ہٹ کر بھی ترقّی یافتہ زندگیاں ہو سکتی ہیں۔ جدید سائنسدان غیر ارضی یا خلائی حیات Extraterrestrial-life کے وجود پر گفتگو اسی لیئے کرتے ہیں کہ یہ عقلی اور منطقی ہے۔ اسطرح یہ بات تو عیاں ہوئی کہ خود سائنس کے مطابق بھی زندگی کی جہتیں اور پیرائے dimensions مختلف ہوسکتے ہیں جو کہ ایک معقول بات ہے تو پھر آگ یا کسی مخفی توانائی سے پیو ستہ حیات کو مسترد کرنے کا کوئی معقول عقلی جواز تو موجود نہیں ہوا سوائے اسکے کہ بیچارگی تو ہمارے علم کی ہے کہ ہم ابھی اس قابل نہیں ہوئے کہ اس کو سائنسی طور پر جان سکیں۔ جدیدسائنسدان جس اجنبی مخلوق aliens کا انتظاریا اسکی تلاش کر رہے ہیں کیا عجب کہ ان میں سے کچھ ہمارے درمیان ہی ایک محدود پیرائے میں موجودہوں اور اس وقت سے یہاں ہوں جب زمین آتشی گولہ ہو۔

ایک دردمندانہ گذارش ان لبرل اور جدید سوچ کے پروردہ دوستوں،دانشوروں اور مفکّرین سے ہے کہ جنّات وغیرہ کو دقیانوسی خیال قرار دینے کے بجائے زندگی کے حوالے سے جدید سائنسی نظریات کی روشنی میں اسکو بھی پرکھیں یا پھر اسٹیون ہاکنگ جیسے سائنسدانوں کو بھی دقیانوسی قرار دے دیں! مسٹر ہاکنگ کا کسی اجنبی مخلوق پر ‘ایمان’ محض طبعئی علم اور تخیّل ووجدان پر مبنی ہے جس پر لوگ یقین کر رہے ہیں۔

رہا سوال یہ کہ اس کائنات میں کسی اجنبی زندگی کا مقام اور دائرہ کار کیا ہو سکتا ہے، تو جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن وضاحت کرتا ہے کہ انسان ایک برتر حیثیت کا حامل ، اشرف المخلوقات اور خالق کا نائب ہے۔ کیونکہ اللہ ہر طرح کی تخلیق پر قادر ہے لہذٰا آگ سے پیدا ہونے والی زندگی بھی اللہ کی تخلیق ہے ۔ لیکن یہ بات بھی اظہر من الشمس ہے کہ کوئی بھی زندگی اپنے فزیکل یا پیرافزیکل وجود کے باوجود انسان سے کمتر ہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی کیونکہ فزیکل دنیا میں انسان طبعئی برتری رکھتا ہے۔اس دنیا میں انسان کو خالق نے اشرف المخلوق قرار دیکر فوقیت اور غلبہ عطا کیا ہے لہٰذا جِن یا کوئی بھی کائناتی یا خلائی مخلوق مافوق الفطرت خصائص کی حامل ہوتے ہوئے بھی انسان کے مقابلے میں طبعئی ماحول Physical-World میں کمزور ہی رہے گی۔

(” خدائی سرگوشیاں اور جدید نظریات” سے ماخوذ)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے