’’ریال اورتومان‘‘کے لیے احتجاج

سعودی حکومت کی طرف سے 47افرادکے سرقلم کرنے اورایرانی مظاہرین کی طرف سے سعودی عرب کاسفارتخانہ جلانے کے بعدہمارے ہاں احتجاجی مظاہروں ،جلسوں ،کانفرنسوں ،سیمینارز،ٹی وی پروگراموں ،اخباری بیانات اورسوشل میڈیاپرایک نئی جنگ شروع ہوچکی ہے ۔ ایک گروہ سعودی حکومت کی حمایت میں کھڑاہے تودوسری طبقہ ایران کی حمایت میں علم بغاوت بلندکیے ہوئے ہے۔ دونوں طبقے اپنے اپنے حمایت یافتہ ممالک کی نہ صرف قصیدہ گوئی میں مصروف ہیں بلکہ ایک دوسرے پرالزامات کی بارش بھی کررہے ہیں۔

ہرروزنئے نعرے نئے خیالات کے ساتھ سامنے آرہے ہیں۔ ایک طرف دفاع حرمین کانعرہ ہے تودوسری طرف حمایت مظلومین کی صداہے۔ ہرایک یہ باورکرانے کی کوشش کررہاہے کہ ان کے سرپرست ملک نے جواقدام اٹھایاہے وہ درست ہے اوران کے مخالف ملک نے جوکام کیاہے وہ غلط ہے۔ ایک گروہ یہ کہہ رہاہے کہ سعودی عرب نے شیخ نمرکاسرقلم کرکے جرم عظیم کاارتکاب کیاہے تودوسراطبقہ یہ بتارہاہے کہ ایران نے سعودی سفارتخانہ جلاکر عرش الہٰی کوہلادیاہے۔ ایسے میں عملی طورپرہمارے ملک کی سرزمین پانی پت کے میدان کامنظرپیش کررہی ہے، حالانکہ دیگر55سے زائدمسلمان ممالک میں حالات معمول کے مطابق ہیں۔

[pullquote]ایسا لگتاہے کہ امریکہ سمیت تمام مسلم اورغیرمسلم ممالک کواپنی لڑائی کے لیے صرف پاکستان میں ہی ’’سپاہی‘‘وافرمقدارمیں دستیاب ہیں، چاہے وہ مذہبی رہنماء ہوں یاسیاستدان ،صحافی ہوں یا سماجی کارکن ،دینی مدارس کے طلباء ہوں یا این جی اوزکے کارندے ،دانشورہوں یاوکیل ،حکمران ہوں یاعوام ہرکوئی اپنی قیمت وصول کرنے کے لیے ہر وقت تیارہے۔ خیراس وقت جومفاداتی جنگ جاری ہے اس لڑائی کاانجام کیاہوگا یہ توآنے والاوقت ہی بتائے گا؟مگراس’’مفاداتی لڑائی‘‘میں ملک ،قوم اورمسلمانوں کا نقصان عظیم ہوگا ۔ایران اورسعودی عرب کی کشمکش یاجنگ جلدیابدیرختم ہوجائے گی مگراس کے اثرات جوپاکستانی معاشرے پرپڑیں گے وہ نہایت دوررس اورمہلک ہوں گے ۔معاشرہ مذہبی ،سماجی ،نفسیاتی اوراخلاقی طورپرتقسیم ہوکررہ جائے گا ۔
[/pullquote]

گزشتہ کچھ عرصے سے اپنے پیارے وطن میں ایک عجیب روش چل پڑی ہے کہ مہنگے ہوٹلوں میں پروگرام ہوںیااحتجاجی مظاہرے ،بڑی بڑی کانفرنسیں ہوں یاسیمینارز،جلسے ہوں یاجلوس ،سامعین اورحاضرین کی کمی نہیں ہے، ہرجماعت کے پاس اپنے بندے یاافرادہیں، جوان کے پروگرام کی کامیابی کے لیے ہمہ وقت موجود رہتے ہیں۔ ایسے پروگراموں میں بسیں ،گاڑیاں بھربھرکے اپنے اپنے طلباء اورکارکنوں کولایاجاتاہے۔ انہیں خرچہ بھی دیاجاتاہے اوریہ ریٹ فی بندہ کے اعتبارسے ہوتاہے اوردوسرے دن میڈیاکویہ بیان جاری کردیاجاتاہے کہ پروگرام میں ہزاروں افرادنے شرکت کی ۔ حالانکہ ان مظاہرو ں ،کانفرنسوں ،جلسوں اورسیمینارزمیں عوام کی شرکت صفرہوتی ہے۔ یہ ایک مستقل موضوع ہے جس پرکتاب بھی لکھی جاسکتی ہے۔

[pullquote]مَیں گزشتہ 15برس سے وفاقی دارالحکومت میں ایسے پروگراموں کی کوریج کررہاہوں، میں ان مظاہرین ، سامعین حاضرین کے چہروں کوہی دیکھ کرجان لیتاہوں جوایک تسلسل کے ساتھ ان پروگراموں میں حاضریاں لگارہے ہیں ۔یہ لوگ اپنی جماعت ، تنظیم، طبقے ، گروہ کاکوئی بھی پروگرام مس نہیں کرتے ۔مَیں ایسے بہت سے نوجوانوں کوجانتاہوں جن کی ڈاڑھیاں سفیدہوچکی ہیں، جوبڑھاپے میں قدم رکھ چکے ہیں، مگروہ ایسے پروگراموں میں حاضرہونااپنامذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کوتویہ بھی معلوم نہیں کہ ان کاقائدان کی کیاقیمت وصول کررہاہے ؟یہ بے چارے اخلاص ،نظریے اورنعرے کی محبت میں ،مسلک اوربرتری کے زعم میں چلے آرہے ہیں ۔ان کے چہرے ،نعرے ، پگڑیاں ،اخلاص ، محنت غرضیکہ ان کی ہرچیزکی قیمت وصول کی جاتی ہے۔
[/pullquote]

ہمارے ہاں اس وقت ایک ہی دوڑلگی ہوئی ہے کہ کس طرح اپنے اپنے پسندیدہ ملک کوخوش کیاجائے۔ اس کے لیے درجنوں افرادپرمشتمل بڑے بڑے مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ ان مظاہرو ں کی کوریج کے لیے بھاری سرمایہ خرچ کیاجارہا ہے۔ کرائے کے مظاہرین اورسامعین لائے جارہے ہیں، مظاہرین کی تصاویربنوانے کے لیے فوٹوگرافروں کونوازاجارہاہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ الیکٹرانک میڈیاپربھی ڈورے ڈالے جارہے ہیں۔ انہیں اپروچ کیاجارہاہے، الیکٹرانک میڈیاکے کیمرہ مین کئی گھنٹوں ان مظاہروں کی کوریج کے لیے بھاگ دوڑکرتے ہیں مگرشام کوپتہ چلتاہے کہ مظاہروں کی کوریج کے لیے ایک منٹ کابھی ٹائم نہیں ہے ۔بیوروچیف یاایڈیٹرکیمرہ مین اورررپورٹروں کی محنت کی قیمت کہیں اورسے وصول کرلیتاہے۔ ان مظاہروں کاانتظام کرنے والے جب الیکٹرانک میڈیاکی یہ بے رخی دیکھتے ہیں تووہ اب پرائیویٹ کیمرہ مین بلاتے ہیں، پورے پروگرام کی کوریج کرواتے ہیں اورسی ڈی کی صورت میں پروگرام کی کوریج وصول کرتے ہیں کیوں کہ یہ سی ڈی آگے دیناہوتی ہے ۔

saudia

سعودی عرب ایران کشمکش ہویاپاک بھارت کشیدہ صورتحال ،امریکہ کی دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ ہویابنگلہ دیش میں سیاسی قیدیوں کی سزائیں ،عراق ایران اورشام میں مزارات پرحملے ہوں یاپاکستان میں خودکش حملے ،ان سب کوکیش کرانے کے لیے ہمارے ہاں’’ عظیم رہنما‘‘ موجود ہیں۔ جن کومعلوم ہے کہ یہ مظاہرے ، کانفرنسیں ، سیمینارز، جعلی فتوے ، اعلانات ، ٹی وی چینلوں کے پروگرامز، بیانات، کالم ، مضامین ، اخبارات اورمیگزینوں کی خصوصی اشاعتیں اگرچہ مذہبی فریضہ نہیں ہیں مگرہمارے پیشوا سرتوڑکوشش کرتے ہیں کہ ان کومذہبی رنگ دیاجائے ۔یہ دراصل شکم پروری کے دھندے ہیں ۔کچھ لوگوں کاکاربارہی ایسے بحرانوں میں سے جنم لیتاہے۔ یہ بحران ہمیشہ امت مسلمہ کے نام پرپیداہوتے ہیں اوراسی سے پھلتے پھولتے ہیں۔ مجھے نہیں پتہ کہ ان بحرانوں یاجنگوں کے نام پرہماری خارجہ ،داخلہ اوردفاعی پالیسی پرکیااثرپڑتاہے ؟لیکن گزشتہ رات سوشل میڈیاپرایک صاحب نے یہ ضرورلکھا کہ اگران احتجاجوں کااثرہوتاتو نائن الیون کے بعد کشمیروافغان پالیسی تبدیل نہ ہوتی حالانکہ اس وقت جواحتجاج کیے گئے تھے اس میں عوام زیادہ اورخواص کم تھے۔ یہ احتجاج اورفتوے مؤثرہوتے توملک میں جودہشت گردانہ حملے ہوئے وہ ختم ہوجاتے۔

جہاں تک تازہ ایشو کامعاملہ ہے تواس کاتعلق بھی اسی صورتحال سے ہے جواوپرذکرکی گئی ہے۔ حرمین شریفین کے تحفظ کے لیے کسی احتجاج یاکسی تحریک کی ضرورت نہیں۔ خدانخواستہ اگرایسی کوئی صورت آئی تواس وقت مسلمان اورمسلم افواج کوکسی احتجاج ،سیمینارز،کانفرنسوں ،پارلیمنٹ کی منظوری کی اجازت درکارنہیں ہوگی۔ اسی طرح ایران سمیت کسی بھی مسلم ملک پرکوئی مشکل وقت آیااوراس نے پاکستان کی مددمانگی توحکومت پاکستان اورافواج پاکستان ایسے کسی پروگرام کی محتاج نہیں ہوگی۔ البتہ اس وقت بہت سے لوگوں کاکاروبارچل رہاہے کسی کو سعودی ریال مل رہے توکوئی ایرانی ریال (تومان )پرپل رہاہے۔ یہ جولوگ اس وقت سڑکوں پرہیں ان میں سے چندلوگوں کو توسعودی ویزے مل جائیں گے یاچندسوریال مل جائیں گے یازیارات کے نام پرکسی کی کمپنی کوکچھ ایکسٹراویزے مل جائیں گے۔سناہے کہ کچھ لوگ سعودی ریالوں اورایرانی تومانوں پریہاں ٹی وی چینلزبھی جارہے ہیں مگرہماراپیمراآنکھیں بندکیے ہوئے ہے ۔لیکن ایسے اقدامات سے سٹیٹ کی پالیسیاں تبدیل نہیں ہواکرتیں ۔

[pullquote]جولوگ سعودی عرب اورایران کی کشیدہ صورتحال پرپارلیمنٹ میں آوازیں بلندکررہے ہیں وہ اتنے ہی غیرجانب دارہوتے تو مشرف دورمیں افغان وکشمیرپالیسیوں کی تبدیلی ،نیٹواتحادمیں شامل ہونے کے فیصلوں ،بھارت کے ساتھ مذاکرات سمیت دیگرایشوزپربھی اسی طرح جدوجہدکرتے جس طرح وہ اب کررہے ہیں۔وہ یہ نہیں کرسکتے کیوں کہ سب کوپتہ ہے کہ جولوگ اس طرح کاشورمچارہے ہیں ان کی ڈوریں بھی کہیں اورسے ہل رہی ہیں۔ جہاں تک سعودی عرب کی طر ف سے شیخ نمرنامی آدمی کاسرقلم کرنے کاتعلق ہے تومظاہروں کوپروان چڑھانے والے خاطرجمع رکھیں کہ یہ سعودی حکومت کی طرف سے کسی آخری آدمی کاسرقلم نہیں کیاگیا ۔سعودی عرب برسوں سے یہ کام کرتاآیاہے آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رکھے گا ۔اسی طرح ایران نے سعودی اقدام پرجس ردعمل کااظہارکیاہے تویہ ایران کی طرف سے پہلی مرتبہ ردعمل نہیں آیاہے۔پہلی مرتبہ سعودی عرب کے سفارتخانے یاکسی اورملک کے سفارتی عملے پرحملہ نہیں ہواہے یاایران میں سنیوں کوپھانسی دینے کے واقعات کی خبریں پہلی مرتبہ منظرعام پرنہیں آئی ہیں، آئندہ بھی اسی طرح کی خبریں اوراقدامات ہوتے رہیں گے ۔ہمارے ہاں چندرہنماؤں کے اکاؤنٹ بھرتے رہیں گے۔ مذہبی اورفرقہ وارانہ منافرتیں جنم لیتی رہیں گی۔ [/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے