بھارت کا پٹھان کوٹ ڈرامہ؟

بھارتی پٹھان کوٹ کے ڈرامے کو بھارتی میڈیا پاکستان کے کھاتے میں ڈالنے میں ناکام رہا، اس میں جو کہانیاں گھڑی جاتی رہیں وہ ایک کے بعد ایک غلط ثابت ہوئیں، کہا گیا کہ حملہ آور پاکستان کے علاقے سے آئے تھے، یہاں تک لکھ دیا اور ٹی وی پر نشر کر دیا گیا کہ جیش محمد کے فدائی نے اپنی ماں سے فون پر بات کی اور کہا کہ وہ ایک سرکاری مشن پر ہے، نہ بیٹے نے ماں کو دُعا کرنے کو کہا اور ماں نے پوچھا کھانا کھا لیا ہے جبکہ ایسے وقت میں ماں دُعا دیتی ہے۔ اللہ کے سپرد کرتی ہے اور کلمہ پڑھتے رہنے کا مشورہ دیتی ہے پھر ماں اور بیٹے کی جو گفتگو ٹیلی وژن پر نشر کی گئی۔ اُس کی ماں بہت صاف اُردو بول رہی تھی جبکہ وہ بہاولپور کی رہنے والی تھی تو اُس کی زبان میں قدرے پنجابی یا سرائیکی لہجہ ہونا چاہئے تھا۔

[pullquote]میں نے ایک بھارتی صحافی پشپندر کمار جو دہلی پریس کلب کے 12 سال سیکرٹری جنرل رہے ہیں سے دریافت کیا کہ بھارتی میڈیا کیوں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات بہتر ہونے سے روکنے کی کوشش کرتا ہے اور کیا بھارت ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ بھارت میں ایک ہزار کے قریب ٹی وی چینلز ہیں، اِن چینلوں میں رینکنگ کی دوڑ لگی ہوئی ہے اور وہ کسی صاحب الرائے شخص کو ٹاک شو میں آنے کا موقع بھی نہیں دیتے، سارے لوگ زہرآلود گفتگو کرنے کے ماہر ہیں۔ وہ طرح طرح کی الزام تراشی کرتے ہیں اور صحافت کے طور طریقے نہیں اپناتے، اس پر میں نے کہا کہ جس کی وجہ سے ہر بُرا کام پاکستان سے شروع ہو کر پاکستان پر ختم ہوتا ہے۔
[/pullquote]

اس ڈرامے کے من گھڑت ہونے کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ جس ایس ایس پی کی گاڑی کو چھینا گیا اسنے اپنی گاڑی کے چھن جانے کی اطلاع دی مگر اُس کی اطلاع دینے کے بعد بھی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی گئیں یعنی اُن دہشت گردوں کو آنے کی اس طرح دعوت دی کہ ساری رکاوٹیں دور کردیں، فضائی اڈے کے قریب دکانوں کو جلد بند کرنے کا حکم جاری کردیا، یوں اس حملے کا موقع فراہم کیا گیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سب بھارت کا ڈرامہ تھا کہ وہ الزام پاکستان پر لگا کر چند دنوں کے خوشگوار تعلقات کو جلد خراب کردے انہوں نے اب کس کو اس کام کیلئے استعمال کیا اس میں کئی رائے ہیں۔ ایک تو یہ کہ بھارتی جیلوں سے سینکڑوں پاکستانی قیدی غائب ہیں۔ دوسرے 2000ء میں افغانستان کے سابقہ شمالی اتحاد نے ایک جہاز بھر کر جہادیوں کا بھارت کے حوالے کیا اطلاع یہ تھی کہ انہیں لکھنو کے کسی خصوصی جیل خانے میں رکھا گیا، اِس کی تصدیق نومبر 2005ء کے چندی گڑھ کے ایک سیمینار میں ہوئی، جس میں بھارت کے ایک آنجہانی بیورو کریٹ پی این ہسکر کی صاحبزادی بیرسٹر نینتا مہکر نے افتتاحی اجلاس ختم ہونے پر پوچھا کہ وہ جو جہاز بھر کر افغانستان سے جہادی بھارت لائے گئے تھے وہ کہاں ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو آپ کو معلوم ہو گا مگر میری اطلاع کے بموجب انکولکھنو میں کسی جگہ پرغیرانسانی طور پر رکھا ہوا ہے اسی طرح وہ انہی کو بھاگنے کا موقع دیتے ہیں اور ’’را‘‘ یا بھارتی آئی بی کا ڈائریکٹر کبھی اُن کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ کرانے کا کام لے لیتے ہیں یا ممبئی حملہ میں یا پھر پٹھان کوٹ یا آئندہ کسی اور حملے میںان کا استعمال کیا جانا ہے۔

اِس کے علاوہ اس سیمینار میں نجم الدین شیخ سابق سفیر اور جنرل طلعت مسعود بھی موجود تھے۔ ساری دُنیا کی انٹیلی جنس برادری کو بلایا گیا تھا اور پاکستان سے صرف سویلین کو۔ اس پر ہم نے سمجھا کہ شاید وہ ہمیں اطلاع دینا چاہتے تھے کہ وہ پاکستان کے خلاف کیا کرنے جارہے ہیں، جو انہوں نے فاٹا اور افغانستان میں ہمارے ساتھ کیا۔ بہرحال اس ڈرامے کا بظاہر ڈراپ سین اس طرح ہوا کہ جس ایس ایس پی کی گاڑی پٹھان کوٹ سے پکڑی گئی تھی اُس کو گرفتار کرلیا گیا اور ساتھ ساتھ بھارتی حکومت نے یہ تصدیق کردی کہ حملہ آور باہر سے نہیں آئے، جس پر بھارت میں تنقید کی گئی کہ اجیت دوول نے اپنے نمبر بڑھانے کیلئے سارے آپریشن کو اپنے ہاتھ میں رکھا، اس نے پولیس یا فضائی اڈے کی کسی سیکورٹی ایجنسی کو کام کرنے نہیں دیا، اس سے تو یہ لگتا ہے کہ بھارتی آئی بی ہے شاید جس نے یہ ڈرامہ رچایا ہو اور جس پر بھارتی انتہاپسند ہندوئوں کی جماعت آر ایس ایس کی چھاپ لگی ہوئی ہے اور ’’را‘‘ کیساتھ ایک صفحہ پر کام نہیں کررہے ہیں کہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ عین ممکن ہے کہ یہ معاملہ پہلے سے پائپ لائن میں ہو ، تاکہ پاکستان کو دبایا جاسکے، اس پر اپنی بالادستی قائم کرنے کیلئے اسے الجھایا جائے، مگر 25 دسمبر 2015ء کو نریندر مودی کا پُراسرار طورپرپاکستان آنا اور نواز شریف سے ملاقات کرنا۔جہاں ایک مقصد شایدقائداعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش کو گہنانا مقصود تھایا پھر امریکہ اور روس نے اُن کو سمجھایا ہو کہ انڈیا پاکستان کی حمایت کے بغیر نہ اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کا مستقل نمائندہ بن سکتا ہے اور نہ ہی وہ نیوکلیئر سپلائی گروپ کا ممبربن سکتا ہے۔ روس اور امریکہ اپنے اپنے طور پر بھارت کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہیں اور شاید انہوں نے یہی طریقہ سکھایا ہو کہ ہر موقع کا الزام پاکستان پر لگانے سے اُس کی عالمی طاقتوں کی نظر میں وقعت کم ہو گئی ہے ۔ اس لئے وہ پاکستان کو دشنام دینا چھوڑے اور حقائق کو پیش نظر رکھے اور اگر وہ پاکستان کو واقعی زیر کرنا چاہتا ہے تو پاکستان کے ساتھ نرم برتائو کا مظاہرہ کرے کیونکہ پاکستان واقعتاً بھارت سے اچھے تعلقات چاہتا ہے، وہ خطے میں امن کا خواہاں ہے اور وقتی طور پر روس اور امریکہ کو اس کی ضرورت بھی ہے تاکہ وہ بھارت کو چین کے خلاف استعمال کرے اور موقع ملنے پر پاکستان کی اقتصادی راہداری کے بنانے میں رکاوٹ ڈالے۔

بھارت کا مفاد اس میں ہے کہ پاکستان اسکو افغانستان بذریعہ سڑک راستہ دے۔ وہ پاکستان کے ساتھ نرم رویہ اختیار کر کے اپنی بالادستی قائم کرنا چاہتا ہے ،پاکستان کو کسی صورت بھارتی بالادستی قبول نہیں کرنی، اُس کے بارے میں پاکستان کو چوکنا رہنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی صورت نہ خطے میں اور نہ ہی اُس کو افغانستان تک زمینی راستے سے رسائی دینا ہے، جس کیلئے وہ دل لگا کر جتن کررہا ہے۔ وہ افغانستان کی فضائیہ کو اپنے طور پر تیار کررہا ہے تاہم ناکارہ طیارے مگ21 دے رہا ہے جو بھارت میں ناکام ہوچکے ہیں۔ جس پر پاکستان نے درست سمت میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نے سری لنکا کو F-17 تھنڈر طیارے دینے کا معاہدہ کرلیا ہے جبکہ بھارت نے اُس کو امداد روکنے اور تجارت بند کرنے کی دھمکی دی تھی مگر اس سلسلے میں چین، پاکستان اور سری لنکا ایک صفحہ پر ہیں۔ مگر ہم یہ بات انتہائی ذمہ داری سے کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو مستقبل میںپٹھان کوٹ جسے کئی اور واقعات کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے